December 2019: Press Release
Arts Council of Pakistan Karachi, Press releases of December 2019
عالمی اُردو کانفرنس کا تیسرا دن….خبر نمبر8
کراچی ()بارھویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز آرٹس کونسل آف پاکستان میں کلیات سرور ( سرور بارہ بنکوی ) کا اجرا کا پروگرام منعقد ہوا۔جس افتخار عارف ، ذکیہ سرور ، اشفاق حسین اور حوری نورانی نے شرکت کی جبکہ نظامت کے فرائض آصف فرخی نے انجام دئیے۔ شرکاءنے کلیات سرور ( سرور بارہ بنکوی ) پر گفتگو کی۔ اس موقع پر سرور بارہ بنکوی پر ایک ویڈیو دکھائی گئی جوکہ آرٹس کونسل آف پاکستان کے ارکان نے بنائی تھی ، وڈیو 1919 سے 1980 تک
کی فلموں اور گانوں کی کلپنگ پر مبنی تھی۔افتخار عارف نے کہا کہ بہت خوشی ہوئی کہ سرور بارہ بنکوی کی دونوں کتابوں کے مجموعے کو ایک ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ ہمارے ادب کو اپنی زمین اور لوگوں سے جڑا ہونا چاہیے۔ سرور بارہ بنکوی سے پہلی ملاقات کل پاکستان مشاعرہ میں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ سرور بارہ بنکوی مشرقی پاکستان کے ادیبوں کے برابر کے تھے۔ سر فہرست شاعروں میں سرور بارہ بنکوی کا نام نہیں اتا۔ اگر سرور بارہ بنکوی اور فیض احمد صاحب
اور دیگر کا نہ ہوتے تو ہم جو آج شاعری کرتے ہیں وہ بھی نہ کر سکتے۔ انہوں نے کہاکہ سقوطہ ڈھاکہ میں مغربی پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے منفی کرادار ادا کیا۔موجودہ پاکستان کے ادیبوں نے اس وقت ریاستی بیانیہ کا ساتھ دیا۔اگر کسی نے نہیں بھی دیا تو مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی تھی، اس تمام تر صورتحال کے باوجود سرور بارہ بنکوی نے
مظلوموں کا ساتھ دیا تھا۔ اشفاق حسین نے کہاکہ سرور بارہ بنکوی ہمیشہ پاکستان میں امن و سلامتی کی دعائیں مانگتے تھے۔ سرور بارہ بنکوی سے ایک تعلق رہا اور ان سے آخری ملاقات اسوقت جب میںکینڈا جارہا تھا اور چند روز بعد بیرون ملک ان کے انتقال کی خبر ملی۔ انہوں نے کہاکہ سرور بارہ بنکوی ہمارے بہت مہربان اور نیاز مند تھے۔وہ اپنے سے چھوٹے کو بھیاپنے برابر لاکر
بات کرتے تھے یہ خاصیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔وہ ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جو دلوںمیں گھر کر جاتے تھے۔حوری نورانی نے کہاکہ میرے لیے اعزاز سے کم نہیں کہ میں نے کلیات سرور ( سرور بارہ بنکوی) کو شائع کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ کلیات سرور کی اشاعت کے لیے بیرون ملک موجود ان کی صاحبزادی ایمن سے رابطہ رہا۔ سرور بارہ بنکوی صاحب کو پہلی مرتبہ اپنے ہی گھر میں سنا کیوں کہ وہ ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ ان کو سننے کے بعد بہت خوشی ہوئی تھی۔ پروفیسر ذکیہ سرور نے کہاکہ میں شاعروں اور ادیبوں کی مداح
ہوں۔سرور بارہ بنکوی سے ہمارا بہت قریبی رشتہ تھا۔وہ ہمارے گھر کے فرد کی طرح ہوتے ہیں۔خوشی ہے کہ آج ان کے دونوں مجموعہ کو ایک مجموعہ میں شائع کیا جارہا ہے
عالمی اُردو کانفرنس کا تیسرا دن….خبر نمبر9
کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری 12ویں عالمی اردو کانفرس کےتیسرے دن ممتاز مصنف امر جلیل کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس کےمیزبان نور الہدیٰ شاہ اور ڈاکٹر ایوب شیخ تھے۔ امر جلیل نے گفتگو کرتےہوئے کہا کہ صوفی بنتا نہیں ہے صوفی ہوتا ہے، بس ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی کا دل نہ دکھائیں اور کسی کے عقیدے کو برا نہ کہیں، انہوں نے کہا کہ انسان کو ڈر جب لگتا ہے جب اس کے پاس اثاثے ہوں میرے پاس کچھ بھی
نہیں میں اکیلا ہوں اور زندگی کے 85بہاریں دیکھ چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے شہر میں اب پھولوں نے کھلنا چھوڑ دیا ہے اب یہاں کانٹے اُگتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی 3لاکھ تھی جس میں سے ڈیڑھ لاکھ ہندو واپس ہندوستان چلے گئے مگر یہاں رہنے والے پارسی بھی یہاں سے چلے گئے کیونکہ وہ آئندہ کا منظر نامہ بھانپ چکے تھے کہ اس شہر میں چرچ بھی محفوظ نہ ہوں گے۔ کرسچن اس شہر میں نمبر دو کی پوزیشن میں آگئے اور اقلیت بن گئے اس لیے انہوں نے اقلیت بن کریہاں رہنا پسند نہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 1960ءکی دہائی میں کراچی آرٹس کونسل میں بھی وقت گزرا جبکہ مجھے کرکٹ سے پیار تھا میں کرکٹ خوب کھیلتا تھا۔ پاکستان میں دل کی بات کھل کر کہنا بہت مشکل کام ہے، یہاں آزادی اظہار نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات سے ڈر لگتا ہے کہ جن سے میں محبت کرتا ہوں وہ مجھے کہیں چھوڑ نہ دیں اور جن سے
میں محبت کرتا ہوں وہ میرے قاری ہیں، میرے قاری وہ ہیں جو اس دور میں بھی دو ڈھائی سو کی کتاب کراچی سے خرید کر سانگھڑ تک پڑھتے ہوئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خود کو آزاد رکھنا ہوگا، ہم نے اپنے آپ پر زنجیریں چڑھالیں ہیں۔ ان زنجیروں سے آزاد ہو کر ہمیں سوچنا ہوگا تب ہی عمدہ تحریر لکھی جا سکتی ہے جو سب کے لیے ہو کسی مخصوص کے لیے نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ قربت کے مقابلے میں فاصلے رکھنے میں محبت زیادہ ہوتی ہے اور ہمیں اپنے درمیان محبتوں کو زندہ رکھنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ میں تنہائی پسند ہوں میرے پاس ملنے ملانے کے لیے وقت نہیں ہوتا میں یا تو لکھتا ہوں، یا کھانا پکاتا ہوں اور اگر کھانا موجود ہو تو برتن دھوتا ہوں مگر خالی نہیں بیٹھتا۔ ہر وقت کام کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں لکھنا چھوڑ دوں تو میں مر
جاو ¿ں گا۔ اس لیے زندہ رہنے کے لیے مجھے لکھنا ہے۔ اور وہ لکھنا ہے جو سچہو اور سب کے لیے ہو۔
عالمی اُردو کانفرنس کا تیسرا دن….خبر نمبر10
کراچی( ) بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز صحافت کے نشیب و فراز پر مبنی سیشن میڈیا کتنا قید کتنا آزاد کا انعقاد کیا گیا سیشن کی میزبانی کے فرائض وسعت اللہ خان نے ادا کیے جبکہ شرکائے گفتگو میں مظہر عباس، اویس توحید، عاصمہ شیرازی اور عامر ضیاءاور وزیر اطلاعات سعید غنی شامل تھے۔ میڈیا کتنا قید اور کتنا آزاد ہے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات سید غنی نے کہا کہ آزادی اور قید کے معیار اپنے اپنے ہیں۔آج جو میڈیا پر اگر کوئی پابندی لگانے کی کوشش کرے تو اس کا فائدہ نہیں ہو رہا خبر سب کو مل جاتی ہے لہٰذا اب ڈئیلاگ ہونا چائیے۔ مظہر عباس نے کہا کہ آج اگر صحافت آزاد ہے بھی تو صحافی آزاد نہیں ہے۔ اب کنفیوژن ہے۔ اگر کوئی غائب ہو گیا تو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہے یہ خوف آزادی کو سلب کرتا ہے۔ اگر صحافی کو معاشی فکر لائق ہو جائے تو آزادی اظہار پر کون بات کرے
گا۔ مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ 95 فیصد لوگوں کے ہاتھ میں تقرر نامہ ہی نہیں ہوتا۔ قانون کہتا ہے کہ 90دن میں نوکری مستقل ہو جاتی ہے ہمارے یہاں دس دس سال لگ جاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے لڑنا چھوڑ دیا ہے۔ جو احتجاج سڑکوں پر ہوتے تھے وہ کانفرنسز تک محدود ہو گئے اسی لیے لڑانے والے زیادہ مضبوط ہو گئے۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ آج ہم کنٹرول جمہوریت اور کنٹرول صحافت میں ہیں۔ مگر ہمیں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چائیے۔ ہم
اشاروں میں بات کرتے ہیں کھل کر نہیں کیوں کہ ہم مصلحت کی اور معاشرہ نظریہ ضرورت کا شکار ہے۔عامر ضیاء نے کہا کہ پہلے کے مقابلے میں آج حالات بہتر ہیں ہم آگئے آئے ہیں آج کوئی کسی خبر کو روک نہیں سکتا۔ بیانیہ کی لڑائی ہے ماضی کی حکومتوں نے بعض میڈیا ہاوسز کو زیادہ نوازہ اس سے بھی خرابیاں ہوئی ہیں۔ بعض میڈیا مالکان حکومت تبدیل کرنے کی سوچنے لگیں تو پھر مسائل تو پیدا ہوں گے۔ اس وقت بڑے میڈیا گروپس دباو ¿ کا شکار ہیں۔ اویس توحید نے
کہا کہ نیشنل مفاد کو اگر لوگوں سے محفوظ رکھنے کی فکر ہو جائے پھر آزادی متاثر ہوتی ہے میڈیا تو سوسائٹی کا حصہ ہے۔ بنیادی اصول تبدیل ہونے کی ضرورت ہے میڈیا پر نان اسٹیٹ ایکٹر کی طرف سے سنسر شپ ہے۔ مزاحمت دم توڑ رہی ہے اس لئے صحافت کنٹرول نظر آتی ہے۔
کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ بارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے روز مختلف کتابوں کی رونمائی کے موقع پر تبصرہ پیش کیاگیا اس موقع پر اصغر ندیم سید کی کتاب ”ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر“پر عرفان جاوید، صابر ظفر کے مجموعہ کلام ”آواز کی لہر پر چلا میں“ پر ضیاءالحسن ، رشید حسن خاں کی کتاب ”گنجینہ ¿ معنی کا طلسم“ پر مبین مرزا اور ڈاکٹر فاطمہ حسن کی کتاب ”فاصلوں سے ماورا“ پر نعمان الحق نے تبصرہ پیش کیا، نظامت کے فرائض اوجِ کمال نے انجام دیئے، اصغر ندیم سید کی کتاب ”ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر“پرعرفان جاوید نے تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ اصغر ندیم سید کی اس کتاب کو ناول کہنا زیادہ مناسب ہے، یہ کتاب سیاست کا گھن چکر ہے، اس نوعیت کے تجربے کم ہوئے ہیں، انہوں نے کہاکہ کوئی قاری اگر یہ سمجھتا ہے کہ اصغر ندیم سید کی کتاب کا ایک صفحہ پڑھنے کے بعد وہ اُسے بعد میں پڑھنے کے لیے رکھ چھوڑے گا تو یہ اس کی بھول ہوگی کیونکہ یہ کتاب قاری کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور قاری اسے اختتام تک پڑھے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا، یہ کتاب چولستان اور جنوبی پنجاب ہی کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی کہانی ہے، صابر ظفر کے مجموعہ کلام ”آواز کی لہر پر چلا میں“ پر ضیاءالحسن نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ صابر ظفر کا شمار نمایاں شعراءمیں ہوتا ہے اور ان کی یہ کتاب ان کا 41واں مجموعہ کلام ہے جس کی تحسین کے لیے آج ہم سب یہاں موجود ہیں، صابر ظفر کی شاعری انہیںآج اس مقام پر لے آئی ہے کہ اُردو کے اس موجودہ تخلیقی ماحول میں کہ جہاں غزل کو سب سے کم توجہ حاصل ہے وہیںانہوں نے اپنی غزلوں سے اپنا ایک منفرد مقام بنایا ہے، سنجیدہ قاری کو ان کی شاعری اپنی جانب متوجہ کرتی ہے، صابر ظفر نے غزل کی ساخت کو اس طرح دریافت کیا ہے کہ ان کی غزل دیگر ہمعصروں سے الگ نظر آتی ہے۔ صابر ظفر کے پہلے مجموعے کے اشعار قاری کو زیادہ یاد ہیں، ان کا شعری تجربہ ہر قاری کے لئے انفرادی تجربے کی سوغات لیے ہوئے ہے۔رشید حسن خاں (مرحوم) کی کتاب ”گنجینہ ¿ معنی کا طلسم“ پر مبین مرزا نے تبصرہ پیش کیا جبکہ اس تبصرے کے موقع پر تحسین فراقی بھی موجود تھے، مبین مرزا نے کہاکہ رشید حسن خاں آج اس دنیا میں نہیں ہےں، ہمارا عہد جن لوگوں کی ذہانت سے پہچانا جائے گا ان میں مرحوم رشید حسن خاں کا نام ایک اہم نام ہے، یہ ہماری تہذیب کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو ہماری تہذیب کی وہ نشانیاں ہیں جن میں آپ ادب، علم، محبت، معاشرہ اور اس سے وابستگی کا غیر معمولی جذبہ دیکھ سکتے ہیں، انہوں نے کہاکہ رشید حسن خاں مرحوم نے اپنی زندگی کے 20،22سال گوشہ ¿ نشینی میں گزارے، انہوں نے ”قصہ چار ددرویش“ جیسی کتابیں لکھ کر غیرمعمولی کام انجام دیا ہے۔”گنجینہ ¿ معنی کا طلسم“ دراصل غالب کی شاعری کا اشاریہ ہے جو شائع ہونے کے بعد 1300صفحات پر مشتمل کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے، ڈاکٹر فاطمہ حسن کی کتاب ”فاصلوں سے ماورا“ پر نعمان الحق نے تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ فاطمہ حسن اُردو کی فعال کارکن ہیں جنہوں نے عورت کی مجبوری اور بے توقیری پر ہر سطح پر اپنی آواز اٹھائی ہے بالکل اسی طرح جس طرح کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور دیگر نے اپنی شاعری کے ذریعے عورت کی مظلومیت کا ذکر کیا، فاطمہ حسن کی شاعری کا اسلوب ان کے بیان کا ایک فطری عمل ہے، انہوں نے شاعری میں وہ سب باتیں کی ہیں جو ایک عام شخص کی باتیں ہیں بالخصوص ان کی ایک نظم فلسطین کی ماں بہت دُکھ میں ڈوب کر لکھی گئی ہے۔
News No. 5
Karachi: the fifth session of the 2nd day of the Urdu conference hold “Urdu and Balochi Poets” and the discussant were Afzal Murad, A.R. Dad, Ghafoor Shad and Waheed Noor where the session was hosted by Imran Saqib. Afzal Murad said that the Baloch culture is essential for Baloch poetry. He said Baloch poetry carries the theme of resistance and struggle as it is part of the Baloch culture. Ata Shad said Urdu poetry has been translated in Balochi Language as well as Balochi poetry in the Urdu Language. He said Urdu is lingua Franca, but we need to concentrate on the native languages in Pakistan as well.
عالمی اُردو کانفرنس کا دوسرا دن….خبر نمبر4
کراچی( ) بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے ” دبستان اردو اور بلوچ شعرا'” سیشن میں بلوچ دانشور نے کہا کہ بلوچ شعراءنے ہر دور میں مظلوم طبقہ کی نمائندگی کی اور اکثرت شعراءنے اردو میں شاعری کی انہوں نے اردو پڑھی اور اردو میں لکھا بھی ہے۔ بلوچی زبان سے اردو اور اردو سے بلوچی زبان میں ترجمہ ہوا جس کو عوام نے بہت پسند کیا۔ بلوچوں کو کسی زبان سے نفرت نہیں ہے۔ دبستان اردو اور بلوچ شعراءکے سیشن میں افضل مراد ، اے آر داد، غفور شاد اور وحیدنور نے بلوچ شعراءکی اردو شاعری پر گفتگو کی۔اس سیشن میں نظامت کے فرائض عمران ثاقب نے سر انجام دئیے۔بلوچ دانشوراوں نے شرکاءکے سوالات کے جوابات بھی دئیے۔بلوچ دانشوروں نے کہا ہے کہ بلوچ شعراءجو اردو میں شاعری کرتے ہیں ان کو وہ ماحول نہیں ملتا اس لئے ان کو مادری زبان کی طرف جانا پڑتا ہے۔ ماضی کے مقابلے آج کے کراچی اور آرٹس کونسل کافی تبدیل ہے ہر زبان کو اہمت دی جا رہی ہے۔ عطا شاد بھی جدید نظاموں کی اہمیت اسی طرح کی ہے جیسے آردو میں ن م راشد کی عطا شاد کی شاعری ثقافت کی عکاسی ہے۔ بلوچی زبان میں لکھنے والے حساس معاملات پر لکھتے ہیں۔ بلوچ شعراء نے اردو میں اپنا کلام بھی سنایا۔اے آر داد نے کہاکہ بلوچ شعراءنے بتایاکہ وہ اردو لکھ سکتے ہیں لیکن ان کا خیال تھا کہ بہتر اظہار اوہ اپنی زبان میں ہی کر سکتے ہیں ۔ غفور شاد نے کہا کہ ہمیں کسی زبان سے کوئی اختلاف نہیں ہے ،ہم تو چاہتے ہیں زبانیں پروان چڑھیں اور ترقی کریںلیکن زبان کی بنیاد پر سیاست کی گئی،انہوں نے کہاکہ موجود بلوچ شاعر بھی بہت اچھے شاعر ہیںاور خواتین شاعرہ کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔وحید نور نے کہاکہ 35 کراچی بلوچ کا بہت بڑا شہر ہے اور 35 لاکھ بلوچ اس شہر میں رہتے ہیں جبکہ کوئٹہ اور مکران بلوچوں کے اتنے بڑے شہر نہیں ہیں اور کراچی میں بلوچ شعراءکی بہت بڑی تعداد موجود ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے لوگوں کو پرموٹ نہیں کیا جاتا رہا ہے لیکن آرٹس کونسل آف پاکستان اور دیگر کے باعث بلوچ شعراءآگے آرہے ہیں ۔
News No. 4
Karachi: the 4th session of the 2nd day of 12th international Urdu conference was booked launching ceremony, 4 books were launched on the occasion including Faslon sa Marva by Fatima Hassan, Ganjeena e Mahni e Tilsam by Rasheed Hassan Khan, Aawaz ki Lehar Par Chala Main by Sabar zafar and Tooti hoi Tanab Udhar by Asghar Nadeem Syed. These books were presented by Nouman Ul Haq, Mubeen Mirza, Zia Ul Hassan, and Irfan Javed Respectively were hosted by Oaj Kamal. Irfan Javed said Asghar Nadeem is a famous writer of our era. He is one of the drama writers whose fame is beyond the boundaries of the country. Zia Ul Haque said Sabir Zafar is a poet who attracts people towards his poetry and Sabir Zafar has his identity in the modern Ghazal in the culture and art and postmodernism. Nouman Al Haqu said Fatima Hassan’s book “Faslon sa Mavra” is a masterpiece in literature. Fatima Hassan is serving the Urdu language for so many years.
عالمی اُردو کانفرنس کا دوسرا دن….خبر نمبر3
کراچی (اسٹاف رپورٹر) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ” دور عصر حاضر میں نعتیہ اور رثائی ادب “کا جائزہ لیا گیا ۔ جس کی صدارت افتخار عارف ، ڈاکٹر تحسین فراقی اور ہلال نقوی نے کی ۔عزیز احسن’نے ’ جدیداردو نعت ، موضوعات اورمسائل “فراست رضوی نے ”پاکستان میں جدید مرثیے کاارتقائ“ اور طاہر سلطانی نے اعجازرحمانی کی نعتیہ ادب میں خدمات “ پر روشنی ڈالی ۔پرگروام کی نظامت کے فرائض عزیز الدین خاکی نے انجام دئیے۔افتخار عارف ، ڈاکٹر تحسین فراقی اور ہلال نقوی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نعت ایک بہت مشکل صنف شاعری ہے حقیقت یہ ہے کہ نعت کا معاملہ بھی مرثیہ ہی طرح بہت احتیاط مرتکازی ہے۔ طاہر سلطانی نے اعجاز رحمانی کے نعتیہ ادب میں خدمات پر روشنی ڈالی اور کہاکہ ہمارے کئی نعت خواہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں جن میں اعجاز رحمانی، خالد محمود، یوسف میمن، ذوالفقار علی، رشید ساقی، اور دیگر اس جہاں سے کوچ کر گئے،اللہ تعالیٰ ان کی۔ مغفرت فرمائے۔ انہوں نے کہا کہ لفظ نعت عربی زبان سے لیا گیا ہے، نعت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت اور محبت کا اظہار ہے۔انہوں نے کہا کہ عربی ، فارسی اور اردو میں نعت پڑھنا اور لکھنا اہم ہے۔ نعت لکھنے کے لیے قرآن و حدیث کا مطالعہ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعجاز فاروقی 12 فروری 1936 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے اور علیگڑھ میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں پنجاب آئے، انہوں نے 1972 سے 2010 تک ان کا نعتیہ مشاعرہ لکھے اور ان کے نعتیہ مشاعرہ کو ٹی وی اور ریڈیو پر پڑھا گیا۔فراست رضوی نے پاکستان میں جدید مرثیے کا ارتقاءبیان کیا۔ انہوں نے اردو مرثیہ دھکن میں پیدا ہوا اور لکھنو میں پروان چڑھا، 19 ویں صدی اردو مرثیہ کا سنہرا دور ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدید اردو مرثیہ کو جو عروج پاکستان میں ملا وہ تاریخ ادب کا حصہ ہے۔ اردو مرثیہ کو آغاز سے ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن مرثیہ خود نکل کر میدان میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ سب حیران ہیں کہ اردو مرثیہ پاکستان کراچی میں کیسے عروج پا گیا لیکن لکھنو جو مرکز تھا وہاں زوال پزیر ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ بھارت میں اردو زبان کا زوال ہے۔ عزیز احسن نے جدید اردو نعت، موضوعات اور مسائل پر روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ آج غیر مسلم پر اسلامو فوبیا مسلط ہے اور مضحکہ خیز خاکے بناے جارہے ہیں، یہی سب سے بڑا اسلام فوبیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیر پھیلانے اور شر مٹانے کا واحد ذریعہ جہاد ہے۔
News No.3
Karachi: The third session of the 2nd day of 12th international Urdu Conference opened with the discussion on “An analysis of Nahat in modern times”. The session chaired by Iftikhar Arif, Theseen Faraqi and Halal Naqvi and discussant were Aziz Ahsan, Farasat Rizvi, and Tahir Sultani. Famous poet Iftikhar Arif said that Nahat should be judged on the standards of literature if someone is writing Nahat for the sake of reward but this cannot be considered in the literature. If we collect all the poetry on Prophet PUBH it will be as much as the poetry in Urdu, but some people have to make it business and those who were writing the real Nahat left in darkness without any consideration. He said that Iqbal was one of the greatest poets of writing Nahat, he did a lot of work on Nahat and no one else did so. Writing a Nahat not only demanding knowledge but respect and belief as well. Nahat doesn’t belong to any sector group or religious people it is universal. Nahat is as like as other poetries. The very first poet of the Nahat was Hazrat Abu Talib the uncle of Prophet Muhammad PUBH and it continues since that. In modern times, many people have been done their Ph.D. on Nahat.
Aziz Ahsan read his paper on “Modern Urdu Naat – Topics and limitations”. He said that without the Prophet PUBH the universe cannot have any existence, Poetry was famous in Arab and they started it since then Nahat is alive. He added that many famous poets of modern time used to write Nahat including Ameer Minai, Amed Raza Bralvi, Altaf Hussain Hali, Allama Iqbal, Shakeel Badavani, Maulana Zafar Ali Khan, Maulana Mahar al Qadari, Hafeez Jhalandri, Raghib Murad Abadi, Adeeb Ray Poori, and Iqbal Azeem. Tahir Sultani paid tribute to Ejaz Rahmani and his work in the Naat Literature where Farasat Rizvi presented his paper on “An evolution in the modern monody in Pakistan”. The session was hosted by Aziz Uddin Khaki.
عالمی اُردو کانفرنس کا دوسرا دن….خبر نمبر2
کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ بارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے روز یارک شائر ادبی فورم اور آرٹس کونسل کے تعاون سے یارک شائر اعتراف کمال ایوارڈز کا انعقاد کیاگیا جس میں معروف شاعرہ شہناز نور اور شاعر کشمیر احمد عطاءاللہ کو یارک شائر کمال فن ایوارڈز صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اور ایاز محمود نے پیش کیے۔ تقریب میں عنبرین حسیب عنبر، آفتاب مضطر، ڈاکٹر فاطمہ حسن، ثمن شاہ، ڈاکٹر نسیم انصاری، رضا علی عابدی بھی موجود تھے۔ تقریب کی نظامت غزل انصاری نے کی۔
Karachi: “After Ghalib no one could adopt his versatility” said Shamim Hanfi in a session on Ghalib at Arts Council of Pakistan Karachi. The session was part of the ongoing 12th international Urdu Conference at Arts Council of Pakistan Karachi on 150th death anniversary of famous Urdu Poet of 18th century Mirza Asad Ullah Khan Ghalib. The session was chaired by famous writer and Critic Shamim Hanfi who came from India to attend the conference where Hero Ji Kataoka, Tahseen Faraqi and Nouman ul Haq presented their papers on the Ghalib’s life, art and poetry. The session was hosted by Nasira Zubairi.
Hero Ji Kataoka said that Ghalib has been translated into multiple langue’s in the but his poetry Book Devan e Ghalib is amazingly presented the diversity of his thoughts and his grip on different subjects. He differentiated the different era’s of Ghalib poetry and themes of the poetry.
In the second session of the first day of International urdu Conference famous narrator Zia Muhiyodin read the Ghalib’s poetry where famous artist and music head of NAPA famous sattar player Nafees Khan with his students presented classical music on the poetry of Ghalib. Thousand were attending in the main auditorium where more then that were waiting and watching Zia Mohydin in the lawn of Arts Council.
The last session of the first day of 12th international Urdu Conference was entitled as “Fahmida Riaz Celebrations”. In this session Fahmida Riaz, Yasmeen Hameed, Noor Ul Huda Shah, Anees Haroon, Fatima Hassan, and Mujahid Baralvi paid homage to famous poetess, critic and writer Fahmida Riaz on her first death anniversary. Khalid Ahmed presented Fahmida Riaz’s poetry and proses in the session. At the end of the day Famous classical dancer Sheema Karmani performed on the Fahmida Riaz poetry theme “Sangdil Rawajon” with her team. The performance was much appreciated by the audience.
The ongoing 12th International Urdu Conference will last till 8th December Sunday.
Karachi: The first session of the second day of 12th international Urdu conference started with the session entitled “Poetry and modern consequences”. The session was chaired by Zehra Nigha, Imdad Hussani, Kishwar Naheed, Iftikhar Arif, Amjid Islam Amjid, Afzal Ahmed Syed, Manzar Ayubi, Jazib Qurashi and Azra Abbas where Yasmeen Hameed, Mubeen Mirza, Fatima Hassan, Shadab Ahsani, Tanveer Anjum, Rukhsana Saba, presented their papers and hosted by Shakeel Khan.
Yasmeen Hameed presented her paper on “Modern poem and the changes in the ways of feelings”. She said with the other developments in modern times the way of poems and the way of feelings has also been changed. In today’s world, people think and act in a very different way. She said, “With time the feelings in the poetry are more stick to the realism and closer to materialism.”
Mubeen Mirza presented his paper on “Modern Poetry: Anxiety and possibilities”. The said today the question of whether poetry will exist in the coming future or not is one of the most important issues before us. Some time the problem becomes more critical of its existence, particularly in the complex behaviours of modern times. He said that the poetic conferences were the way to learn and understand poetry, but these days these conferences are the part of entertainment and no one head up to the actual cause of these conferences. He told me that Europe is discussing the different possibilities of literature and poetry in the coming era.
Dr Fatime Hassan discussed the “The layers of feminism in the modern poetry”. She said that women are now more energetically participating in the poetry in Ghazal and pomes, Kishwar Naheed write both in Ghazals in the poem where Fahmida Riaz has less in Ghazals, but her lyrics are revolutionary. Her write-ups are so energic and logical, where Parveen Shakir has great fame in poetry. Shadab Ahsani presented his paper on “Urdu poetry and Pakistani narrative”. He said that no nation could exist without a narrative; the existence of Pakistan depends upon its description. Tanveer Anjum presented his paper on the “Urdu prose poems and the post-modern situation” where Rukhsana Saba gave her article on the “Long poems in the 21st century” she said the famous modern poetry is in the shape of long poems.
Karachi: in the second session of 2nd day of 12the International Urdu Conference at Arts Council of Pakistan Karachi hold a conference by York Shyer Literary Forum Award which was hosted by Ghazal Ansari. The York Shyer Literary forum presented two Lifetime Achievement Award to Shahnaz Noor, and she is a poetess from Pakistan who also has a melodious voice and Ahmed Atta Ullah who is a poet from Kashmir. The
award committee Ayaz Mahmood chaired the session. The famous broadcaster presented the awards Raza Ali Abdi, He congratulated the president Arts Council of Pakistan Muhammad Ahmed Shah for 11th successful International Urdu Conference.
عالمی اُردو کانفرنس کا دوسرا دن….خبر نمبر1
کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری بارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے دن پہلے اجلاس میں ”شعروسخن کا عصری تناظر“ کے موضوع پر اہل علم و دانش نے مختلف عنوانات پر اپنے اپنے مقالے پیش کیے، اجلاس کی صدارت معروف ادباءو شعراءامجد اسلام امجد، افتخار عارف، کشور ناہید، امداد حسینی، عذرا عباس، منظر ایوبی اور افضال احمد سید نے کی جبکہ نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیئے۔ یاسمین حمید نے ”جدید نظم میں طرزِ احساس کی تبدیلیاں“ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جدیدیت کا لفظ نظم اور غزل کے لیے بارہا استعمال ہوا ہے اور یہ وہ وقت تھا جب 1939ءکے جدیدیت پسند حلقے نے اسے استعمال کیا، انہوں نے کہاکہ عمومی سطح پر جدیدیت پسندی تخلیق پر حاوی ہوتی گئی، اُردو میں آزاد نظم کی پہلی اشاعت 1932ءمیں ہوئی، نظم کے اظہار میں پھیلاﺅ ہے، نظمیں عموماً ایک جگہ پر جامد اور ساکت رہتی ہیں، انہوں نے کہاکہ ترقی پسند کا راستہ بھی اجتماعی فکرو عمل کا راستہ تھا، طرزِ احساس ایک ردِ عمل ہے، انسان کی زندگی اور خود انسان جتنا سادہ ہوگا یہ ردِعمل بھی اُتنا ہی سادہ ہوگا، مبین مرزا نے ”جدید شعری تناظر اندیشے اور امکانات“پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ آج ایک سوال ہم سب کے لیے بہت اہم ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل قریب میں شاعری ختم ہوجائے گی، میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جواب دینا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ سوال ہمیں جھنجھوڑ دیتا ہے مگر بعض سنجیدہ اذہان اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس سوال کا اطمینان بخش جواب کیا ہوسکتا ہے، انہوں نے کہاکہ زمانے کے بدلتے رنگ اور انسانی صورتحال کے پیچیدہ رویوں سے یہ سوال تعلق رکھتا ہے اور انسانی حالات سے اس سوال کا تعلق ہے، شاعری بے شک اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ فرد کے نظام کا طریقہ کار اس سے وضع ہوتا ہے، انہوں نے کہاکہ تغیرات کا عمل حقیقت ہے مگر بڑی تبدیلی کو تبدیلی کا روزمرہ نہیں کہا جاسکتا اس طرح کی آہٹ کو پہلے سے جانچنا ضروری ہے، یورپ میں ادب کی صورتحال پر کافی گفتگو ہوئی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے عصری حقائق کے ساتھ اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، انہوں نے کہاکہ ہم اہلِ اُردو ہنوذ دِلّی دُور است کا مزاج رکھتے ہیں ، شاعری سماجی رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے، اگر شعر وسخن پر بات کرنی پڑے تو ہمیں اس معاملے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے کیونکہ بے تحاشہ ترقی نے وہ گَرد اُڑائی ہے کہ انسانی افتخار کا کوئی شعور ہی باقی نہیں رہا، انہوں نے کہاکہ مشاعرے تربیت گاہ کی حیثیت رکھتے آئے ہیں، سب سے پہلے شعر سننے اور سنانے کے قاعدے سیکھے جاتے ہیں، آج مشاعرے کا تفریح گاہ بن جانا شعرو سخن کی موت ہے، میڈیا نے بھی اس میں بڑا کردار ادا کیا ہے، مشاعروں کے نام پر بعض نمونوں کو شعراءبنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کا عنوان عوام کی تفریح کا سامان رکھا جاتا ہے، انہوں نے کہاکہ شعر گوئی تماشا گوئی ہوکر رہ گئی ہے، اس عہد کا انسان جن حالات میں رہ رہا ہے وہ اس کی سوچ اور رویوں کو بدل رہے ہیں اور ردِعمل کے شعور کو بھی ختم کررہے ہیں، کوئی بھی تخلیق کار تخلیق کے موقع پر تو تنہائی پسند کرسکتا ہے مگر اپنے فن کو دوسرے تک پہنچانے کے لیے اسے دوسروں میں آنا ہی پڑتا ہے، انہوں نے کہاکہ جوہرِ انسانیت نہ ہو تو انسان اور روبوٹ میں کس طرح فرق محسوس کیا جاسکتا ہے، پہلے انسان کی تباہی کا سبب جنگیں ہوا کرتی تھیں مگر اب انسان اپنے ہی بنائے ہوئے دلچسپ کھلونوں کے ہاتھوں تباہ ہورہا ہے، شاعری لمسِ حیات کے طور پر انسان کو ودعیت کی گئی ہے، شعرو سخن کی بقاءکی جنگ انسان دشمن قوتیں کبھی نہیں جیت سکتیں، انہوںنے کہاکہ شاعری کے خاتمے کا مطلب انسانیت کا خاتمہ ہوگا لہٰذا یہ جنگ تب تک جاری رہنی چاہیے جب تک ایک شخص بھی اس زمین پر انسانیت کا نام لینے والا ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ”جدید غزل میں نسائیت کی معنوی جہات“ پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ غزل روایتی صنفِ سخن ہے، خواتین نے جب اپنے پورے وجود کے ساتھ لکھنا شروع کیا تو وہی جدید غزل کا دور ہے، انہوں نے کہاکہ کشور ناہید نے نظم اور نثر دونوں میں تہلکہ مچایا جبکہ فہمیدہ ریاض نے غزلیں کم لکھیں مگر اُن کی نظموں کی تعداد زیادہ ہے، انہوں نے کہاکہ پروین شاکر کے حصے میں غیرمعمولی شہرت آئی۔ شاداب احسانی نے ”اُردو شاعری اور پاکستانی بیانیہ“پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ جس قوم کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ اس کا تاریک ترین پہلو ہوتا ہے، پاکستان کی بقاءپاکستانی بیانیے میں ہے، انہوں نے کہاکہ اصناف ثقافت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں، شاعری انسان کا اوّلین اظہار ہے، قبلِ مسیح کا ادب ہو یا اس کے بعد کا ادب سماج شاعری ہی سے جڑا ہوا ہوتا ہے، ادب اور شعر کی بات میں زندگی سے جڑا اظہار ہی ادب کہلاتا ہے، شاعری معاشرے کی ترجمان ہوتی ہے، انہوں نے کہاکہ اُردو خطے کی مرکزی زبان ہے جو تمام لوگوں کو اظہارِ کا وسیلہ بنائے ہوئے ہے، انہوں نے کہاکہ ہم پاکستانی بیانیے کی بات تو کرتے ہیں مگر اندر سے مغرب کے بیانیے کے معترف ہیں۔ تنویر انجم نے ”اُردو نثری نظم اور مابعد جدید صورتحال“ پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں بے ترتیبی کو ترتیب میں لانا ہے، مغرب نے اسی مقصد کو پانے کے لیے اور اسی مقصد کو جواز بناکر دُنیا کے بیشتر ملکوں کے معاملات میں حصہ لیا تاکہ وہاں پھیلی ہوئی بے ترتیبی کو ترتیب میں لاسکیں، سماجی عمل کے ذریعے ترتیب اور بے ترتیبی پیدا کی جاتی ہے، انہوں نے کہاکہ طاقت کی تقسیم سماجی عمل ہے نہ کہ ابدی حقیقت ، انہوں نے کہاکہ جدید اُردو غزل میں جدید نظم کا بھی استعمال ہوا ہے، رخسانہ صبا نے ”طویل نظم کی روایت اکیسویں صدی میں“ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ طویل نظم نظم نہیں بلکہ مختلف نظموں کا مجموعہ ہوتی ہے، دُنیا کی عظیم شاعری طویل نظموں کی ہی صورت میں موجود ہے، بیسویں صدی میں اُردو میں طویل نظموں کی ایک بڑی فہرست ہمارے سامنے آتی ہے، انہوں نے کہاکہ طویل اور مختصر نظم میں وہی فرق ہے جو ایک افسانے اور ناول میں ہے، طویل نظم ناقدانہ مزاج رکھتی ہے جبکہ مختصر نظم عاجزانہ مزاج رکھتی ہے، طویل نظم کی روایات اکیسویں صدی میںآگے بڑھی ہے، طویل نظم اپنے عہد سے جڑی ہوئی ہے مگر آزاد نظم کا تناسب زیادہ ہے، منظوم ڈرامہ گزشتہ صدی کی طرح اس صدی میں بھی نظر انداز ہوا ہے، انہوں نے کہاکہ طویل نظم اُجلت پسند نہیں ہے بلکہ قاری کو مثبت سوچ فراہم کرتی ہے۔
1st Day, 5th December 2019
عالمی اُردو کانفرنس کا پہلا دن…خبر نمبر 3.
کراچی( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری بارہویں عالمی اردو کانفرنس میں غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کی مناسبت سے خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ جس کا عنوان’’ غالبـ ہمہ رنگ شاعر‘‘ تھا اجلاس کی صدارت بھارت سے آئے ہوئے نامور ادیب شمیم حنفی نے کی جبکہ اجلاس میںڈاکٹر نعمان الحق نے’’یگانہ اور مثال زمانہ گونہ گوں ‘‘،تحسین فراقی نے ’’حیات اور تصور حیات ‘‘ اور ہیروجی کتاوکا نے اپنا مقالہ پیش کیا، نظامت کے فرائض ناصرہ زبیری نے انجام دئیے۔اس موقع پر شرکا نے مقالہ پیش کرنے والوں کی زبردست پذیرائی کی ۔ اپنے صدارتی خطبہ میںشمیم حنفی نے کہا کہ غالب ایسے شاعر ہیں جنہیں عالمگیر سطح پر قبول کیا گیا، ہم مشرق مغرب کو دیکھتے ہوئے بہت سی باتوں کو درگزر کردیتے ہیں ،ہندستان میں انکے پائے کا کوئی شاعر نہیں ہے غالب میری زندگی کا بہت بڑا سہارا تھے شمیم حنفی نے کہا کہ غالب کی شاعری میں مذہب اور عقیدہ یا کوئی اور دیوار بن کر کھڑی نہیں ہوسکی ۔غالب ایسے شاعر تھے جنہوںنے بہت دکھ اٹھائے۔ڈاکٹر نعمان الحق نے غالب پر اپنا مقالہ یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں پیش کیا اور کہا کہ غالب ایک عظیم شاعر ہیں جو ہمارے ہاں اور کوئی بھی نہیں ہے ،غالب کا محبوب ،جو ایک استعارہ ہے اس لئے وہ اس کو کبھی دیکھ نہیں پائے غالب نے آسمان اور زمین کی جو بات کی ہے وہ بھی بہت کمال ہے انہوں نے کہا کہ غالب کے ہاں کائنات کی تخلیق دیگر ہے جس میں رشتہ ہے اور دیگر زندگی کے معاملات ہیں۔ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنا مقالہ حیات اور تصور حیات پیش کیا اور کہا کہ اگر غالب نہ ہوتے تو ہم انیسویں صدی میں دستاویز سے محروم ہوتے ایک شخص کے رد عمل کا بھی پتہ چلتا ہے جو دہیات کے ٹیڑھے راستوں سے سیدھے راستے پر آنکلا،نسلی اعتبار سے غالب کا تعلق تک کے قبیلے ایبک سے تھا،غالب ایک ایسے شاعر ہیں جو زندگی کے تصورات پیش کرتے ہیں ،غالب کے ہاں انسان کے ساتھ تعلق اٹوٹ ہے ۔غالب کی شاعری میں زمانے کی مشکلوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔اس میں سینکڑوں قباحتیں ہیں ،ہیرو جی کتائو کا نے کہا کہ ہمیں پتہ نہیں چل سکا کہ غالب اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں کس طرح سوچتاہے۔دیوان غالب کی غزلوں اور نظموں کو دیکھ کرنتیجہ نکالا ہے اور اسے تاریخی طور پر مرتب کرنے کی کوشش کی تھی ،غالب نے تیس سال کی عمر سے پہلے بہت کچھ لکھا تیس سال تک دو ہزار سات سو چھیالیس اشعار لکھے اور تیس سال کے بعد انہوں نے پہلے کے مقابلے میں کم لکھا۔ بعد ازاں نامور صداکار ضیا محی الدین نے دیوان غالب سے مرزا اسدا اللہ خان غالب کی نظمیں پڑھیں جبکہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ(ناپا) کے میوزک ہیڈاورمعروف ستار نواز استاد نفیس خان نے اپنے شاگردوں کے ہمراہ غالب کی شاعر ی کوستار کی خوبصورت دھنوں کے ساتھ پیش کیا ۔اس موقع پر ضیا محی الدین کو سننے کے لئے شرکاء کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے انہیں خوب سراہا۔
عالمی اُردو کانفرنس کا پہلا دن…خبر نمبر 2
کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں تسلسل کے ساتھ ہر سال جاری رہنے والی عالمی اُردو کانفرنس کی بارہویں تقریب کا انعقاد 5دسمبر جمعرات کی شام پُروقار انداز میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے آڈیٹوریم میں کیاگیا جس میں بھارت سمیت دُنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے شعراء، ادیبوں اور اسکالروں نے شرکت کی، افتتاحی اجلاس کی صدارت معروف ادبی شخصیات زہرا نگاہ، اسد محمد خاں، کشور ناہید، رضا علی عابدی، افتخار عارف، امجد اسلام امجد، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، مسعود اشعر، حسینہ معین، چین سے آئے ہوئے ٹینگ مینگ شنگ، جاپان سے تعلق رکھنے والے ہیروجی کتاوکا، زاہد حنا، نورالہدیٰ شاہ اور عارف نقوی نے کی جبکہ بھارت سے آئے ہوئے ممتاز نقاد، ادیب اور دانشور پروفیسر شمیم حنفی اور ہیومن رائٹس آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری حارث خلیق نے ادب اور سماج کے حوالے سے اپنے اپنے مقالے پیش کیے، اجلاس کی نظامت کے فرائض ایوب شیخ نے انجام دیئے، اجلاس میں شریک تمام شعراء اور ادباء کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے خوش آمدید کہا، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے کہاکہ کسی جزیرے میں رہ کر نہ ہی کوئی شعر تخلیق کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی افسانہ لکھا جاسکتا ہے، زندگی کی رفتار تیز سے تیز تر ہورہی ہے جبکہ ادب کی رفتار سست ہوتی ہے، ہم نے زمین کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی آلودہ کردیا، شور شرابے میں بہترین ادب تخلیق نہیں کیا جاسکتا، معاشرہ میں یہ صورتِ حال ہوتو ادیبوں پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، آج ہم جن اندھیروں میں موجود ہیں اس کی وجہ ہماری بے تحاشہ اور اندھا دھند ترقی بھی ہے، انہوں نے کہاکہ شعر اور ادب کی تخلیق کبھی بھی ہانپتے کاپنتے نہیں کی جاسکتی، ادبی اخلاقیات کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، تاریخ اور سماجیات کی دُنیا علیحدہ علیحدہ ہیں، گلوبلائزیشن کے نام پر ہم مستقل جھوٹ بھول رہے ہیں، یہ بہت ضروری ہے کہ ہمیں آج کے دور کے ساتھ اپنی روایات کو دوبارہ سمجھنا ہوگا، انہوں نے صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ کو مسلسل بارہویں بار عالمی اُردو کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور ان کی ٹیم کی صلاحیتوں کو سراہا، انہوں نے ازراہِ تفنّن کہاکہ احمد شاہ جس تسلسل کے ساتھ اور پابندی سے عالمی اُردو کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں اس سے کم از کم مجھے اپنی عمر کی پیمائش کا ایک ذریعہ بھی ہاتھ آگیا ہے، انہوں نے کہاکہ بھارت میں23زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے، ہم ابھی اخلاقی پسماندگی کے دور میں رہ رہے ہیں مگر یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سب کو اس صورتحال سے نکلنے کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھنا ہوگا۔ ہیومن رائٹس آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری حارث خلیق نے کہاکہ عالمی اُردو کانفرنس کا اجتماع ہم سب کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے حالات و واقعات سے کس قدر باخبر ہیں، اس عہد میں ہم بالخصوص دو بحرانوں کا شکار ہیں جس میں ایک فطرت اور دوسرا سماجی بحران ہے، آزادیٔ اظہار پر قدغن ہے، مذہب اور قوم پرستی کی آڑ میں مختلف باتیں کہی جاتی ہیں، تجارتی ذرائع ابلاغ کی سنسنی خیزی ہمارے معاشرے میں انتشار پیدا کررہی ہے، انہوں نے کہاکہ ہماری ریاست نے اب تک شہریوں کو اپنی رعایا سمجھا ہوا ہے، ہماری علمی پسماندگی نے اجتماعی فکر کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے ،علمی نظریہ سازوں کے فقدان کے باعث ہم تعصب، خوف اور غصے کا شکار ہیں اس صورتحال میں ہمارے پاس لے دے کر اگر کچھ بچا ہے تو وہ صرف فن اور ادب ہے جہاں اب تک کوئی کال نہیں، انہوں نے کہاکہ ادب کا یہ کردار انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کو جگائے، جھنجھوڑے اور اس میں ایک تحریک پیدا کرے جس کی بدولت وہ اپنے سفر کو بغیر کسی خوف کے آگے کی طرف رواں دواں رکھ سکے، فیض احمد فیض جیسے شعراء صرف اپنی شاعری کی وجہ سے آگے نہیں ہیں بلکہ ان کا یہ مقام اس لیے ہے کہ انہوں نے سب کچھ اپنے اندر سمو لیاتھا، افتتاحی اجلاس کے اختتام پر جوش ملیحہ آبادی کی 121ویں سالگرہ کا کیک بھی کاٹا #UrduConference گیا۔
عالمی اُردو کانفرنس کا پہلا دن افتتاحی اجلاس خبر نمبر 1.
کراچی( ) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کے سیاست دان ،ادیبوں اور دانشوروں سے سیکھیں آج ملک کو ترقی کی ضرورت ہے وہ اتفاق اور تدبر سے ہی ہو سکتی ہے، 12ویں عالمی اُردو کانفرنس کے مندوبین آرٹس کونسل کے نہیں حکومت سندھ کے مہمان ہیں اور سندھ حکومت میزبانی کا حق ادا کرے گی۔ مجھے اس کانفرنس میں شرکت کر کے خوشی ہوئی ہے۔ اس شہر سے جو لوگ منتخب ہوتے رہے ہیں وہ اس شہر کے مسائل حل نہیں کرا سکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کی شام آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں 12ویں عالمی اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا کے 24 ممالک سے دو سو سے زائد مندوبین شریک ہوئے ہیں۔کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں مختلف سیاسی سماجی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس نے ثابت کر دیا کہ پاکستان مختلف ثقافتوں کا ملک ہے اور ہر ثقافت پاکستان کی ثقافت ہے ہر صوبے میں ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس جب کا نفرنس شروع ہوئی تو فہمیدہ ریاض ہم سے بچھڑ گئی تھی اور آج جوش ملیح آبادی کی سالگرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل نے مختلف ادب اور زبانوں کے ادیبوں کو یہاں جمع کر کے اچھا اقدام کیا سندھ کے لوگ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے ہیں آج کی کانفرنس سے یہی پیغام دیا گیا ہے کہ اردو کے ساتھ پاکستان کی مختلف زبانیں پورے ملک کی ثقافت ہے وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ ہم سب مل کر ملکی مسائل کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل جو خدمات انجام دے رہی ہے اس کی ہر ممکن مدد اور تعاون کیا جائے گا وزیر ثقافت سندھ سردار علی شاہ نے کہا کہ ہم نے دانشوروں سے لکھنا پڑھنا چلنا سیکھا۔اج کی اردو کانفرنس کلچرل ہارمنی قائم کرنے کی طرف قدم ہے۔ انہوں نے کہا جتنے لکھنے والے کانفرنس میں شریک ہیں ان سب کی پاکستان کو ضرورت ہیپنجابی سندھی پشتو اور بلوچی شعراء نے پاکستان کی خدمت کی ہیان سب نے امن اور برداشت کا درس دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر لہجے میں اردو دیکھی ہے۔ جس طرح سندھ ندی نے اپنے دونوں کناروں پر کشمیر سے کشمور تک لوگوں کو جوڑا ہو ہے اسی طرح اردو نے پورے برصغیر کو جوڑا ہوا ہے۔ہمیں کسی بھی زبان سے نفرت نہیں بلکہ سب سے پیار ہے۔ پہنجاب سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے شاعروں نے انسانیت کی خدمت اور محبت کے فروغ کا درس دیا ہے آج اس کو فروغ دینے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ کہا کہ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جذبے کے ساتھ پوری دنیا سے ادیب اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ یہ کانفرنس ایسی کہکشاں ہے جہاں ادب کے چمکتے ستارے شامل ہیںارہ سال پہلے سوچا تھا کہ اردو کے لیے کچھ کرنا چاہیے کوشش جاری ہے انہوں نے کہا کہ اردو کی بھی ذمے داری ہے کہ ہزاروں سال پرانی زبانوں کے لیے اپنا سینہ کشادہ کریاسی لیے ہم نے اس مرتبہ ملک کی دوسری زبانوں کو بھی شامل کیا اور یہ اردو کانفرنس قومی ثقافتی کانفرنس میں تبدیل ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ساری زبانوں کو سراہنا چاہییہمارے شہر میں ہزاروں لوگ قتل ہوئے ہم کب تک آپس میں لڑتے رہیں گے۔پرامن معاشرے کے علاوہ ترقی کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب نے اردو کو بہت سپورٹ کیا سندھ میں بڑے بڑے سندھی شاعروں نے اردو میں شاعری کی اس کانفرنس میں پہلی بار صرف اردو کی بات نہیں ہو گی پاکستان کی مختلف زبانوں کے الگ سیشن رکھے گئے ہیں۔
#UrduConference
کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی صدر محمد احمد شاہ نے کہا ہے کہ چار روزہ بارہویں عالمی اردوکانفرنس کا افتتاح وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ۵ دسمبر کو کریں گے۔ اس کانفرنس میں انفرادیت یہ ہے کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں، سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی کو بھی شامل کیا گیا ہے جب کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اردو کے زیادہ سیشن رکھے گئے ہیں۔غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کی مناسبت سے پروگرام اور جشن فہمیدہ ریاض، علاوہ اس سال ممتاز شخصیات کے ساتھ سیشن بھی منعقد ہونگے جس میں شبنم ،ضیاءمحی الدین سمیت اردو ادب کی ممتاز شخصیات اور معروف صحافی شامل ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو آرٹس کونسل کی احمد شاہ بلڈنگ میں حسینہ معین ،نورالہدیٰ شاہ، قدسیہ اکبر عنبر ین حسیب عنبر اور گورننگ باڈی کے دیگر ممبران کے ہمراہ پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے تقریباً دوسو فلسفی، محقق، ادیب ، شاعر شرکت کریں گے رضا علی عابدی، اور شمیم حنفی پاکستان پہنچ چکے جب کہ دیگر خواتین و حضرات کی آمد کا سلسلہ کل سے شروع ہو جائے گا۔ کانفرنس میں شامل ہونے والوں کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہو گا جس میں ہندوستان، امریکہ، چائنہ، جرمنی اور برطانیہ سر فہرست ہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ گزشتہ گیارہ برسوں سے مسلسل یہ دنیا کی سب سے بڑی ا ±ردو کانفرنس کی میزبانی کر رہے ہیں جب کہ ہر سال اس میں ترقی ہو رہی ہے اب یہ دنیا کہ ڈیڑھ سو سے زائد ممالک میں برانڈ بن چکی۔ ادب، ثقافت، موسیقی، شاعری، ڈرامہ، فلم ، تعلیم، زبانوں، رقص ، مصوری، اور صحافت پر گفتگو کے علاوہ غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی، فیض احمد فیض، جشن فہمیدہ ریاض پر اجلاس ، شبنم کی باتیں اور انور مقصود دلچسپ گفتگو کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس مرتبہ ہم نے بلوچی، پختون، سرائیکی،پنجابی اور سندھی ادب کے ساتھ ساتھ کشمیر اور خطے میں امن کی صورتحال پر بھی اجلاس کا اضافہ کیا ہے۔ فوڈ فیسٹیول کانفرنس کی شان ہوگا جس میں مزیدار کھانے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس گیارہ سال قبل شروع کی تھی اور تب سے اب تک کایہ سلسلہ کامیابی سے جاری ہے ، آج پوری دنیا عالمی ا ±ردو کانفرنس کی بین الاقوامی حیثیت کو تسلیم کرتی ہے۔ ہم نے مصوروں، شاعروں ، ادیبوں ، ادب اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے آرٹس کونسل میں مواقع پیدا کیے اور آج آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ان تمام سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کانفرنس، موسیقی کی محفلوں، اور پروگرامز کی مدد سے ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کر رہے ہیں یہ کانفرنس اس کا ثبوت ہیں۔احمد شاہ نے کہا کہ کراچی میں علمی ، ادبی ، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں۔ اس کانفرنس میں ہندوستان سے شمیم حنفی کے علاوہ آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان لندن سے رضا علی عابدی، زہرا نگاہ، اسد محمد خان، ضیا محی الدین، امر جلیل، چین سے ٹینگ مینگ شینگ، جاپان سے ہیروجی کتاوکا، کشور ناہید، افتخار عارف، پیرزادہ قاسم، زاہدہ حنا، جرمنی سے عارف نقوی،اباسین یوسفزئی ،مستنصر حسین تارڑ، انورمسعود، محمد حنیف،امرجلیل کے علاوہ نعیم بخاری، حامد میر ، وسیم بادامی، اویس توحید، وسعت اللہ خان ، منور سعید، خالد انعم، حنا دلپذیر، ہمایوں سعید، شیما کرمانی، کیف غزنوی کے علاوہ مشہور و معروف شخصیات شرکت کریں گی۔