Press Release and Updates 2023

Press Releases 2023، Arts Council of Pakistan Karachi

16th Aalmi Urdu Conference 2023 – عالمی اردو کانفرنس 2023, International Urdu Conference 2023 #urduconference

سولہویں عالمی اردو کانفرنس میں پیش کی گئیں قراردادیں

کراچی( ) سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے اختتام پر منظور ہونے والی قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ اور موثر عالمی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور فلسطین کو ایک پر امن خطہ بنانے کی ذمہ داری پوری کریں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں اور عوام کے حقِ خود ارادیت اور ان کے آزادانہ اورجمہوری ماحول میں رہنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ قراردادیں میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کی مختلف زبانوں اور ان کے ادبیات کی ترقی کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں حکومتوں کی مالی اور انتظامی ذمہ داریوں کی تکمیل ناگزیر ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جامعات میں اور ان کے باہر بھی تراجم کے ادارے قائم کیے جائیں۔ صدر آرٹس کونسل آف پاکستان محمد احمد شاہ نے قراردادیں پڑھ کر سنائیں جن کو حاضرین نے ہاتھ کھڑے کر کے منظور کیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ موجودہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر منعقد ہوئی ہے جب دنیا مختلف النوع مسائل سے دوچار ہے۔ فلسطین کی آزادی کا مسئلہ حالیہ دنوں میں غزہ کے پر تشدد واقعات کی ہمرکابی میں ایک دفعہ پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت، بربریت کی نئی مثالیں قائم کر رہی ہے۔غزہ تقریباً برباد ہو چکا ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے، ہزاروں موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ ہم نہ صرف فلسطین کے عوام، وہاں کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ہم خود بھی اپنی تحریروں اور اپنی تخلیقات کے ذریعے فلسطین کے حق میں آواز اٹھاتے رہیں گے، بلکہ ہماری خواہش اور مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ اور موثر عالمی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کی اور فلسطین کو ایک پر امن خطہ بنانے کی ذمہ داری کو پورا کریں۔ ایک اور قرارداد میں کہا گیا کہ ہم ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی دنیا کے مختلف خطوں میں، بالخصوص کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں، اور ان سب خطوں کے عوام کے حقِ خود ارادیت اور ان کے آزادانہ اورجمہوری ماحول میں رہنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ تیسری قرارداد میں کہا گیا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی پچھلی اور موجودہ عالمی اردو کانفرنسوں کے درمیان آرٹس کونسل نے پاکستان لٹریچرفیسٹول کے نام سے لاہور، آزاد کشمیر اور سکھر میں کانفرنسوں کے انعقاد کا جو مستحسن اور کامیاب تجربہ کیا ، ہم اس پر آرٹس کونسل آف پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ان کانفرنسوں نے ملک میں سماجی اور ثقافتی ہم آہنگی کا کام سر انجام دیا۔ پاکستان لٹریچر فیسٹول جس بڑے پیمانے پر شہریوں کی دلچسپی اور شرکت کا محور بنے، وہ اس امر کا غماز ہے کہ لوگ ثقافت اور ادب کو اہمیت دیتے ہیں اور مختلف زبانوں میں لکھے جانے والے ادب کو قبولیت سے سرفراز کرتے ہیں۔ چوتھی قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان لٹریچر فیسٹولز کا یہ پہلو خاص طور سے قابلِ ذکر ہے کہ ان میں بحیثیتِ مجموعی لاکھوں کی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی۔ بیشتر پروگراموں میں انہوں نے اظہارِ خیال بھی کیا اورپرفارم بھی کیا۔ رات گئے تک جاری رہنے والے یہ پروگرام نوجوانوں کی غیر معمولی دلچسپی اور نظم و ضبط کا مظہر تھے۔ اس تجربے سے اس خیال کو یقین کا درجہ حاصل ہوا کہ ہماری نئی نسل تعمیری اور مثبت سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بے چین ہے۔پاکستان کی آبادی کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں۔ حکومتوں اور وسائل یافتہ اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس نسل کو اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے اور ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کے بہترین مواقع مہیا کریں۔تعلیم اور تحقیق کو سستا اور آئین کے مطابق سولہ سال تک کی تعلیم کو لازمی اور مفت بنانے کے فرض کو پورا کریں۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ تعلیم کا بجٹ جو اس وقت جی ڈی پی کے دو فیصد سے بھی کم ہے، اس میں اضافہ کیا جائے۔ ایک اور قرارداد میں پاکستان کی مختلف زبانوں اور ان کے ادبیات کی ترقی کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں حکومتوں کی مالی اور انتظامی ذمہ داریوں کی تکمیل ناگزیر ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جامعات میں اور ان کے باہر بھی تراجم کے ادارے قائم کیے جائیں۔ چھٹی قرارداد میں کہا گیا کہ ملک میں کتابوں اور رسائل و جرائد کی اشاعت مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے نتیجے میں کاغذ کی درآمد کہیں زیادہ مشکل ہوتی جارہی ہے۔ نتیجتاً چھپنے والی کتابوں کی قیمتیں روز افزوں ہیں۔ پہلے ہی کتابوں کی تعداد اشاعت چار پانچ سو تک گر گئی تھی۔ اب پبلشر کتابوں کے ڈیجیٹل ایڈیشن چھاپنے پر مجبورہیں جو عموماً پچاس ساٹھ کی تعداد میں بھاری قیمت پر بکتے ہیں۔ ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک میں کاغذ کے کارخانے لگائے جائیں، اور جب تک ایسا نہ ہو سکے اس وقت تک کتابوں کی اشاعت کے لیے درآمد شدہ کاغذ پر سبسڈی دی جائے۔ ایک اور قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ کتابوں اور رسائل کی اندرون ملک اور بیرون ملک ترسیل مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور سے بیرون ملک کتابیں اور رسائل بھیجنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مطبوعات کی ترسیل کے نرخ اس حد تک کم کیے جائیں کہ ایک سے دوسرے شہروں میں چھپنے والے یا بیرون ملک چھپنے والے علمی اور ادبی سرمائے سے استفادہ ممکن اور آسان ہو سکے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں لائبریریاں بحیثیت مجموعی انتہائی ناگفتہ بہ حالت تک پہنچ چکی ہیں۔ تعلیمی اوردیگر اداروں کی لائبریریوں میں نئی کتابوں کا اضافہ بہت مشکل ہو چکا ہے۔ پرانی کتابوں کی حفاظت اور نگہداشت بھی اکثر لائبریریوں کے بس میں نہیں رہی ہے۔ ہم مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور متمول اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس طرف سے غفلت کو ترک کرتے ہوئے لائبریریوں کو از سرِ نو زندہ کرنے اور زندہ رہنے کے وسائل فراہم کریں۔ نویں قرارداد میں کہا گیا کہ ہم پاکستان کی سب زبانوں او ران کے ادبیات کی ترقی کے نہ صرف خواہش مند ہیں، بلکہ اس کو قومی یکجہتی کے لیے ناگزیر بھی سمجھتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے اس ضمن میں آئین میں دی گئی شقوں پر لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے عمل درآمد کیا جائے۔ عالمی اردو کانفرنس میں کہا گیا کہ اردو کانفرنسوں اور پاکستان لٹریچر فیسٹولز سے پاکستانی معاشرے کا جو سوفٹ امیج اجاگر ہوتا رہا ہے، وہی پاکستان کا مستقل چہرہ بنا رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہم آرٹس کونسل کی آئندہ کی پیش قدمیوں کی امید رکھتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کاوشوں کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جاتی رہے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری روز چھٹے سیشن میں پانچ کتابوں کی رونمائی

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز پانچ کتابوں کی رونمائی کی گئی جس میں کتابوں کا تعارف پیش کیا گیا۔ افتخار عارف نے عارف امام کی کتاب ’’چراغ روشن ہے‘‘، غازی صلاح الدین نے اسامہ صدیق کی کتاب’’ غروب شہر کا وقت‘‘ ، فراست رضوی نے باسط جلیلی کی کتاب ’’عشق سمندر‘‘، عمیر احمد نے انعام ندیم کے ترجمے کی کتاب ’’قیدی‘‘ اور حنا امبرین نے محمد حفیظ خان کی کتاب ’’وجود‘‘ کا تعارف پیش کیا۔ اس موقع پر کتابوں کے مصنفین بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ حنا امبرین نے ’’وجود‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ محمد حفیظ خان نے کئی ناول لکھے ہیں لیکن ’’وجود‘‘ افغان جنگ کے پس منظر میں لکھا ہے۔ یہ ایک کرداری ناول ہے جس کا ہر کردار ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، اس میں کہیں کہیں ادبی رنگ بھی شامل ہے اور کتاب میں صحافتی زبان استعمال کی گئی ہے، فراست رضوی نے باسط جلیلی کی کتاب ’’عشق سمندر‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عشق سمندر باسط جلیلی کا پہلا شعری مجموعہ ہے لیکن اس کتاب کا دیپاچہ بہت اہم ہے، ادب میں ایسی کئی کتابیں موجود ہیں جن میں کتاب سے بھی دیپاچہ زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے، انہیں وطن سے محبت اور عشق ہے جو ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ عمیر احمد نے انعام ندیم کی ترجمہ کردہ کتاب ’’قیدی‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کاکہ یہ کتاب عمر شاہد کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب ’’Prisoners‘‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں تھرل یا جاسوسی ادب پر لکھی کتابیں زیادہ شائع ہوتی ہیں جن پر بعد میں فلمیں بنتی ہیں لیکن ہمارے ہاں جاسوسی ادب پر اس طرح بات نہیں ہوتی، قیدی پہلی کتاب ہے جو تھرل کی طرح لکھی ہوئی ہے لیکن انعام ندیم نے اس کتاب کو اردو ادب کے انداز میں ترجمہ کیا جس کی وجہ سے یہ کتاب اردو اور انگریزی کا امتزاج ہے، عمر شاہد نے پاکستان کے ماحول اور قانون کو سمو کر تھرل کے انداز میں ناول لکھا ہے جو ایک شاندار تجربہ ہے اور یہ بہت مقبول کتاب ہوگی۔ افتخار عارف نے عارف امام کے شعری مجموعے ’’چراغ روشن ہیں‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دس پندرہ برس کے دوران شاعری کی جو کتابیں پڑھی ہیں ان میں اردو غزل کی ایسی کم کتابیں دیکھی ہیں جیسی کتاب ’’چراغ روشن‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کلاسیکل غزل کے تسلسل میں لکھی ہوئی کتاب ہے ہمارے ہاں بہت غزل گو شاعر ہیں جن کے دل میں خاک اڑتی ہے ، عارف امام بھی غزل کے ان شعراء میں سے ایک ہیں جن کے دل میں خاک اڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاعر ہوسٹن ، امریکہ کا نہیں ہوتا شاعر تو اردو ادب کا ہوتا ہے چاہے وہ کہیں بھی رہتا ہو۔ اسامہ صدیق کے ناول ’’غروب شہر کا وقت‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے غازی صلاح الدین نے کہا کہ یہ ایک شاندار ناول ہے اور پہلا تجربہ ہے ، یہ اردو فکشن میں لکھی گئی اور لاہور شہر کے بارے میں ایک نوحہ ہے اور ایک آب بیتی ناول ہے، اس میں مصنف نے ایک شہر کو زندہ کیا ہے جو کہ مر رہا ہے ، ادب کی تاریخ میں ایسے کئی ناول ہیں جو کسی شہر پر لکھے ہوئے ہیں، اسامہ صدیق کا یہ ناول بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس سیشن میں نظامت کے فرائض حنا امبرین نے ادا کیے ،آخر میں پانچوں کتابوں کی رونمائی کی گئی۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس آخری روز ’’ مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات‘‘ پر نشست کا اہتمام کیاگیا

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے روز معروف مصنف، اداکار ، میزبان ، سیاح اور لیونگ لیجنڈ ’’ مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات‘‘ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں مستنصر حسین تارڑ نے ماضی کی یاد کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ اور مستقبل کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو کی جبکہ نشست کے دوران ناصر عباس نیر اور اسامہ صدیق بھی شریک گفتگو تھے، مستنصر حسین تارڑ نے کہاکہ میری بہت سی فریکوینسیز ہیں ، خوش قسمتی سے میری فریکوینسی عوام سے مل گئی ہے، تخلیق کار باصلاحیت ہونے کے ساتھ خوش نصیب بھی ہو تو اسے مداح مل ہی جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ کتابوں سے میرا ناجائز رشتہ ہے، میں ایک حادثاتی ادیب اور میڈیا پرسن ہوں، مجھے تو صرف آوارہ گردی اور کتب بینی سے شغف تھا، میری کتاب روس میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے ، میں وہاں لیکچر بھی دیتا رہا ہوں ، مجھے جو بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے متاثر کر لے وہ میرا مرشد بن جاتا ہے ، میں امرائو جان سے بھی متاثر ہوں اور وہ میری مرشد ہے، اداکاری میں وارد ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ نے بتایا کہ میرا تعلق کاشت کار گھرانے سے ہے جہاں اداکاری کو میراثیوں کا کام سمجھا جاتا تھا، مجھے اور میرے دوست کو اچانک ٹی وی ڈرامے کی آفر ملی اور ٹاس پر فیصلے کے بعد میں نے ڈرامے میں کام کیا ، مستنصر حسین تارڑ نے بتایا کہ انہیں جانوروں سے بے حد محبت ہے ، اسی لیے ان کے ناولز میں پرندوں اور جانوروں کے کردار اکثر دکھائی دیتے ہیں، مستقبل کے حوالے سے مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ من حیث القوم ہم پاگل ہوچکے ہیں ، مجھے لگتا ہے کہ ہمارے بعد بھی اب اندھیرا ہے، شمالی علاقہ جات کے حوالے سے میں نے پندرہ سفر نامے لکھ کر جرم کیا کیونکہ میرے سفر نامے پڑھ کر ہزاروں لوگ ان جگہوں پر پہنچ کر ماحول کو آلودہ کررہے ہیں ، میں ان علاقوں کی تباہی کا ذمہ دار خود کو سمجھتا ہوں، مستنصر حسین تارڑ نے بتایا کہ مختلف موضوعات پر ان کی چار کتابیں قریب الاشاعت ہیں، انہوں نے کہا کہ ادب جب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک پوری کائنات کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری روز ’’عصرِحاضر کے تقاضے اور آج کا نوجوان‘‘کے عنوان پر گفتگو

کراچی( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری روز ’’عصرِ حاضر کے تقاضے اور آج کا نوجوان‘‘ کے نام سے سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں نظامت کے فرائض معروف ٹی وی اینکر عبداللہ سلطان نے ادا کیے۔ اپنی گفتگو میں آئی بی اے کی طالب علم ملائیکہ عامر نے کہاکہ آج کا نوجوان اپنے حقوق کے بارے میں خاصی آگہی رکھتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے۔اس موقع پر حبیب یونیورسٹی کی طالب علم سمانہ بتول نے کہاکہ تعلیم کا مقصد اب بدل چکا ہے ہمارا محور علم نہیں بلکہ پیسہ ہے، ترقی کی جو تعریف ہم متعین کی ہے اس کو بدلے بغیر اس معاشرے میں سدھار لانا ناممکن ہے۔طالب علم زرناب بلوچ نے کہاکہ نوجوانوں میں حب الوطنی اور خوداعتمادی اب بھی کم ہے اور مواقعوں کی کمی نے نوجوانوں میں خاصی مایوسی پھیلائی ہے۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والی طالب علم امرتا دیوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میں نے اپنی زندگی میں خاصا امتیازی رویہ دیکھا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بہت بہتر ہوئی ہیں۔ عبداللہ سلطان نے کہاکہ آج کا نوجوان گالی دیکر سمجھتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر بیدار ہوچکا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے معاشرے کو صرف مثبت رویہ ہی تبدیل کرسکتا ہے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیرِ اہتمام سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز ” پشتو زبان و ادب کے مشاہیر ” کے عنوان سے سیشن کاانعقادکیاگیا

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیرِ اہتمام سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز ” پشتو زبان و ادب کے مشاہیر ” کے عنوان سے سیشن کا انعقادجون ایلیاء لان میں کیا گیا ۔اجلاس میں ( میر من زیتون بانو) پر اباسین یوسفزئی ،( غنی خان ) پر عرفان اللہ ،( سیدہ بشرا بیگم ) پر ماخام خٹک ،( امیر حمزہ شنواری ) پر قیصر آفریدی ،( اجمل خٹک ) پر نور الامین یو سفزئی نے گفتگو کی ۔سیشن میں نظامت کے فرائض گلفام خان کا کڑ نے انجام دئیے۔ سیشن کی صدارت کرتے ہوئے اباسین یوسف زئی نے کہا کہ زیتون بانو کو مور بی بی کے نام سے جانتے تھے۔ انہوں نے پندرہ کتابیں تحریر کی ہیں، بانو نے سسکتی انسانیت کو چھڑانے کے لیے قلم کا استعمال کیا،ایک حساس اور ذمہ دار فنکارہ ہونے کی وجہ سے انہوں وہی لکھا جو محسوس کیا، انہوں نے جہاں خامیاں بتائیں وہاں ہمارے معاشرے کی خوبیوں کو بھی لکھا۔ ان کی حقیقت پسندی نے دوسرے ادیبوں سے منفرد رکھا ہے۔ زیتون نے کہا کہ مجھے اللہ نے عورتوں کے لیے ایک بہت وصیلہ بنا کر بھیجا کیانکہ مجھے ہر عورت کی وہ آواز سنائی دیتی ہے جو کہتی ہے میرے کردار کو مشقوق بنا رکھا ہے۔ میری غلطی نہ ہونے کے باوجود کیوںمیرے بھائی آنکھو ں میں خون دکھ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کی عورت کو اپنے فیصلے لینے کا حق نہیں۔ ہر وقت عورت ہی کیوں ظلم سہتی ہے۔ نورالا مین یوسفزئی نے کہا کہ اجمل خٹک تین حوالے ہیں جس میں ایک صحافت ، سیاست اور شاعری ہے قوم کے لئے شاعری کی۔ انہوں نے کہا کہ اجمل خٹک کی ایک کتاب جس کا نام صدائے غیرت ہے انہوں نے اپنی اصل زندگی میں صدائے غیرت بلند کی ۔ ان پر حملے بھی ہوئے جیل بھی گئے لیکن انہوں نے اپنا جذبہ نہیں چھوڑا اور لکھتے رہے اپنا ادبی سفر جاری رکھا ۔ماخام خٹک نے کہا کہ بشریٰ بی بی نے نہ صرف رسالے شائع کیے بلکہ طویل نظمیں بھی لکھیں ۔وہ نہ صرف پشتو بلکہ فارسی ادب سے بھی روشناس ہیں، عرفان اللہ نے غنی خان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الفاظ کو اتنا خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے ادب کو شاعری کو ایک نئی راہ اور ایک نیا مقام دیا ہے۔ میری تحریر کا عنوان حمزہ کی شاعری ہے۔وہ پشتو ادب میں تا حال اپنی مثال آپ ہیں۔ حمزہ کو شاعری کے میدان میں بابا ئے غزل کا لقب ملاہے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری روز ’’اردو کی نئی بستیاں (نارتھ امریکا)‘‘پر سیشن کا انعقاد

کراچی( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری روز ’’اردو کی نئی بستیاں (نارتھ امریکا)‘‘کے حوالے سے اجلاس منعقد ہوا جس میں امریکا اور کینیڈا میں مقیم مختلف شخصیات نے اظہار خیال کیا، اجلاس کی نظامت غضنفرہاشمی نے کی۔ خطاب کرنے والوں میں سعید نقوی ،باسط جلیلی،ریحانہ قمر،وکیل انصاری، عابد رشید، ثروت زہرا اور غزالہ حبیب شامل تھیں۔ عابد رشید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں عموماً جب بات اردو زبان کے حوالے سے کی جاتی ہے تو پہلے نیویارک یا ہوسٹن وغیرہ کا نام آتا ہے مگر ان شہروں میں پہلے سے پاکستان کے کئی بڑے نام اور باصلاحیت لوگ موجود تھے جبکہ شکاگو میں اس تعداد میں اردو بولنے والے نہیں تھے لہٰذا شکاگو نے اپنا ٹیلنٹ وہی ڈھونڈا اور اردو کو پروان چڑھایا اس حوالے سے سخن ورشکاگو تنظیم کے زیر اہتمام بھی کئی محافل منعقد ہوتی ہیں انہوں نے کہا کہ شکاگو میں اردو پڑھائی بھی جاتی ہے اور وہاں بچے اپنی زبان سے جڑے ہوئے ہیں اسکول میں بھی دوسری زبان کے طور پر اردو موجود ہے شکاگو میں کئی ادبی تنظیمیں موجود ہیں جبکہ شکاگو میں تحقیقی کام بھی ہورہا ہے۔ ڈاکٹر ثروت زہرا نے کہا کہ میں کافی عرصہ دبئی میں رہی بعد ازاں امریکا چلی گئی۔ میں سمجھتی ہوں کہ تہذیب کو قید اور تقسیم نہیں کیا جاسکتا جب ہم ان چیزوں سے بالا تر ہوں گے تب ہی اپنی زبان اور ادب کو دیکھ پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ نئی تہذیب میں ہماری اپنی تہذیب کی شناخت متاثر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ لٹریری فورم آف نارتھ امریکا تنظیم کے ذریعے ہم نے 18 سے زائد مشاعروں کے حوالے سے تقاریب کیں اردو زبان میں نئے الفاظ کا ذخیرہ اس زبان کے حسن کو مزید نکھارتا ہے۔سعید نقوی نے کہا کہ امریکا میں اگر آج اردو زندہ ہے تو یہ صرف ان ہی لوگوں کی بدولت ہے جو ماضی میں امریکا منتقل ہوئے اور شعرو ادب کے حوالے سے مختلف ادبی تنظیمیں قائم کیں مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے بعد کیا ان کے بچے یا آنے والی نسل اپنی زبان اور تہذیب سے جڑی رہے گی؟اردو زبان کو دیار غیر میں زندہ رکھنے کا یہ ہی طریقہ ہے کہ جو لوگ امریکہ آتے رہیںوہ اردو کو برقرار رکھیں اور اس زبان کو اپنے بچوں تک منتقل کریں اور انکے بچے اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کریں۔ اپنی زبان سے کی جانے والی یہ ہی محبت اردو زبان کو وہاں زندہ رکھ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ ارباب ذوق نیویارک کے تحت بھی کئی محافل بھی منعقد کی جاتی ہیں جبکہ نیویارک سے نئی بستیاں اور ورثہ کے نام سے اردو رسالے بھی شائع ہوتے ہیں۔ باسط جلیلی نے کہا کہ جب وہ 1992 ء میں امریکا گئے تو انہوں نے سب سے پہلی پابندی اپنے گھروالوں پر یہ لگائی کہ گھر میں سب لوگ اردو زبان میں بات کریں گے اور کوئی انگریزی نہیں بولے گا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے بچے اپنی زبان سے بخوبی واقف ہیں اور بہت اچھے انداز سے اردو زبان میں بات کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکا کی سرزمین اردو ادب کے حوالے سے زیادہ ذرخیز نہیں ہے البتہ یہ کوشش کی جاسکتی ہے کہ اس کی آبیاری کی جائے تاکہ اردو کی خوشبوپھیل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنا ورثہ اور تہذیب و تمدن اپنی نئی نسل تک پہنچاسکیں۔وکیل انصاری نے کہا کہ جب تک ایمگریشن جاری رہے گا اردو وہاں زندہ رہے گی۔تقسیم ہندکے بعد سے ہی اردو کا چلن وہاں موجود تھا انہوں نے کہا کہ سیکنڈ لینگویج کے طور پر اردو زبان کو بھی اسکولوں میں لیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر چیز اپنے گھر سے شروع کرنی چاہیے اور جو لوگ پاکستان سے امریکا جاتے ہیں جہاں ان کے ہاتھوں میں دیگر ضروری سامان ہوتا ہے وہیں ان کے پاس اپنی زبان اور تہذیب و تمدن کی ایک چھوٹی پڑیا بھی ہونی چاہیے جسے آپ دیارغیر میں استعمال کرسکیں۔غزالہ حبیب نے کہا کہ کیلیفورنیا میں بھی اردوکی آن لائن کلاسز ہوتی ہیںہماری کوشش ہے کہ ہمارے بچے اور نئی نسل کے لوگ اپنی زبان و ثقافت سے جڑے رہیں۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری روز ’’بدلتا ہوا سماج‘‘ کے عنوان سے تیسرے اجلاس کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری روز ’’بدلتا ہوا سماج‘‘ کے عنوان سے تیسرے اجلاس منعقد کیا گیا۔ جس کی نظامت سید جعفر احمد نے کی۔ اجلاس میںنورالہدی شاہ، غازی صلاح الدین، نصیرمیمن، حارث خلیل نے بدلتے ہوئے سماج کے حوالے سے گفتگو کی۔اظہار خیال کرتے ہوئے نصیر میمن نے کہا سماج تو بدلتا ہے لیکن پاکستان ایک سماج نہیں بلکہ اس کی کئی تہہ ہیں۔ہمارے یہاں کا المیہ یہ ہے کہ لوگ منفی بدلائو کو اپنے اوپر حاوی کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو صرف منفی ہی چیزیں نظرآتی ہیں۔ درحقیقت ہمارے معاشرے میں مثبت بدلائو آہستہ آہستہ آرہا ہے اگر میں آج سے تیس سال پہلے کی بات کروں تو ہمارے اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد اتنی نہیں تھی جتنی آج دیکھنے کو ملتی ہے، ہمارے معاشرے میں اوپری سطح کے ادارے ان تبدیلیوں سے خوف زدہ ہیں جس کی وجہ سے وہ معاشرے میں منفی سوچ بڑھا کر مثبت بدلائو کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، تھرپارکر کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے، میں نے وہاں پر لڑکیوں سے مائننگ میں ٹرک چلوائے ، شروع میں لوگوں نے احتجاج کیا لیکن پھر 8 مہینے بعد 25 خواتین مائننگ میں ٹرک چلانے کے قابل ہوگئیں۔ ہمیں بدلائو کو صرف سرہانا نہیں بلکہ اس کا حصہ بھی بننا ہے۔ حارث خلیق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جتنے بھی اسکول ،کالج ،یونیورسٹیز ہیں وہاں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن بد قسمتی سے ان سب میں ہمارے ریاست کا کوئی کردار نہیں، سماجی تبدیلی میں ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرناچاہیے، یہ ریاست کی بھی بقا ہے، ہر دور کے لیے کوئی نیا میر یا کوئی نیا غالب نہیں آئے گا ادیبوں کو محنت کرنی ہوگی تاکہ یہ معاشرہ بااختیار بن سکے اور اپنے حقوق کی نشاندہی کرسکے۔ نورالہدی نے کہا کہ ریاست اور سیاست میں مسلسل ٹکرائوسے صرف ایک چیز پستی ہے وہ سماج ہے اور اگر سماج پسنا شروع ہوجائے توسماج میں مختلف مسائل شروع ہوجاتے ہیں، یہاں سے ادیب کا کام شروع ہوتا ہے، ادیب اپنی جمالیاتی سوچ سے سماج کو بچاتا ہے،سندھی ادیبوں کا یہ نظریہ ہے کسی بھی زبان کو زندہ رکھنا ادیب کا کمال ہے اور اگر ادیب کے لکھنے کی وجہ سے اس زبان کے بولنے والے زندہ روح بن جائیں تو یہ بڑا کمال ہے، میں بہت پْرامید ہوں کیونکہ اب لوگ روایتی نہیں بلکہ شعوری کہانیاں لکھ رہے ہیں، شاعری کی جارہی ہے ایک دن یہ چھوٹے چھوٹے پودے بڑا درخت بن جائیں گے، آج کل کے نوجوان جو لکھنا جانتے ہیں وہ دلائل کے ساتھ اچھا بولتے بھی بہت اچھا ہیں، غازی صلاح الدین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے ذہنوں تک پہنچنا اور سماجی تبدیلی میں ادب کا کردار بہت اہم ہے، فرانسیسی انقلاب سے پہلے بہت کتابیں شائع ہوئی ہیں جنہوں نے لوگوں کو اکسایا۔ کتابیں تب اثر رکھتی ہیں جب اس کے پڑھنے والے زیادہ ہوں جس سے اجتماعی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ کتابیں کتنی تعداد میں ہیں یہ بات اہم نہیں ہے بلکہ اس کے پڑھنے والے کتنے ہیں یہ اہم ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ اصل تبدیلی یونیورسٹی کیمپس سے آتی ہے لیکن ہماری یونیورسٹیز کا بہت برُا حال ہے۔ ہمارے ملک میں دانشورانہ انفرااسٹریکچر ہونا بہت ضروری ہے اس کے بغیر معاشرے کو مثبت سمت میں نہیں لے جایا جاسکتا۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری روز ’’جاپان میں اردو‘‘ کے عنوان پر نشست کا اہتمام کیا گیا

کراچی( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری روز ’’جاپان میں اردو‘‘ کے عنوان پر نشست کا اہتمام کیا گیاجس میں مہمان پروفیسر ہیرو جی کتائوکا نے جاپان سے خصوصی شرکت کی، اجلاس میں نظامت کے فرائض سلیم مغل نے انجام دیے، سلیم مغل نے حاضرین کو بتایا کہ ہیروجی کتائوکا کو جاپان میں بابائے اردو بھی کہا جاتا ہے۔ ہیروجی کتائوکا نے اقبال کے فارسی اور اردو کلام کے ساتھ ساتھ فیض احمد فیض کے کلام کا بھی جاپانی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ہیروجی کتائوکا نے اپنے بچپن کا ذکرکرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک عام سے طالب علم تھے جس کا تعلیم میں دل نہیں لگتا تھا لیکن یہ ان کی خوش قسمتی رہی کہ اللہ نے انہیں اردو پڑھنے کا موقع دیا۔ پروفیسر ہیروجی کتائوکا نے مزید بتایا کہ اردو کا ان سے پہلا تعارف کرشن چندر کا افسانہ ’’سفید پھول‘‘ تھا اور یہ ہی ان کی اردو سے محبت کا باعث بنا۔ انہوںنے فخر محسوس کرتے ہوئے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ میرا فروغِ اردو کا سفر کامیابی سے جاری ہے۔ واضح رہے کہ پروفیسر کتائوکا کی خدمات کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں ستارئہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری روز ’’بشریٰ انصاری سے ملاقات‘‘ پر نشست کا اہتمام کیا گیا

کراچی( ) معروف فن کارہ بشریٰ انصاری نے کہا کہ ہمارے گھر میں تعلیمی ماحول تھا مذہب کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا تھا بلکہ میرا باپ ہمیں یہ بتاتا تھا کہ کیا اچھا ہے کیا غلط، جس وجہ سے میں نے آرٹ میں نام کمایا۔ ان خیالات کا اظہار سولہویں عالمی اردو کانفرنس میں پروگرام ” بشری انصاری سے ملاقات” میں میزبان یاسر حسین کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے اس موقع پر مختلف سوالات کے جوابات دے کر شائقین اور سامعین سے داد حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ میں ناسمجھی میں گانے گاتی تھی، جب سمجھ آئی تو گانا چھوڑ دیا۔ میں خود کو نہیں سمجھتی کہ میرے گانے سن کر لوگ محظوظ ہوں گے اس لیے البم کا کوئی ارادہ نہیں۔ اس موقع پر نور جان کا ایک گانا گایا اور کھچا کھچ بھرے ہال میں حاضرین نے تالیں بجا کر انہیں خراج تحسین پیش کی، انہوں نے عوام سے کہا وہ پاکستانی گانے سنیں، انہوں نے کہا کہ جوانی میں بھارتی فلموں میں کام کرنے کی پیش کش نہیں ہوئی کچھ سال پہلے پیش کش ہوئی مگر پلوامہ میں انہوں نے خود ہی پٹاخہ چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیلی ویژن میں ٹاک شو نہ دیکھنے کے باوجود دیکھنے پڑتے ہیں۔ میرے والد اصول مند صحافی تھے، ان سے زبردستی سافٹ وئیر اپ ڈیٹ نہیں کرایا جا سکتا تھا۔ اسی بنیاد پر ان کو اخبارات سے اکثر نکال دیا جاتا لیکن اس سے وہ کبھی پریشان نہیں ہوئے، اگر اس زمانے میں وہ زندہ ہوتے تو روز مرتے۔ انہوں نے سامنے بیٹھے میڈیا کے سینئر افراد کو دیکھ کر کہا کہ آپ میں سے بھی کچھ لوگ سوچھتے ہوں گے کہ اس سے پرچون کی دوکان ہی ہوتی تو اچھا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بچپن میں بھی تہوار ہوتے تھے مگر اب ڈرامہ ہو رہا ہے۔ پہلے اور اب کے فین میں بہت فرق ہے اب فین شپ میں بدتمیزی بھی آگئی ہے۔ بشری انصاری نے کہا کہ ڈرامہ سیریل میں ابھی بھی کرتی ہوں، اب ڈائریکٹر مزدور یا منیجر کا کام کرتے ہیں اگر وہ اچھا کام کرتا ہے تو اس کی تعریف کرنا چاہئے۔ فلم انڈسٹری میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت بہتر ہو گا، مریم اورنگزیب نے اس پر اچھا کام کیا اس سے بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں چار سال سے نہیں لکھتی کیوں کہ نورالہدی شاہ نہیں لکھ رہی، اس لیے میں دکھی ہوں کہ نورالہدی شاہ کیوں نہیں لکھتی لیکن اب کچھ لکھوں گی، ’’ففٹی ففٹی‘‘ میرا پروگرام نہیں زیبا شہناز کا تھا، انہوں نے کہا کہ نوجوان پرانے گلو کاروں کو گائیں تاکہ نئی نسل میں منتقل ہو۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری دن ’’اردو تنقید کے مشاہیر‘‘ کے عنوان سے اجلاس کا انعقاد

کراچی( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے آخری دن اردو تنقید کے مشاہیر کے عنوان سے اجلاس منعقد کیا گیا جس کی صدارت معروف محقق اور نقادتحسین فراقی نے کی ،جن شخصیات پر گفتگو کی گئی ان میں شمس الرحمان فاروقی ،ممتاز حسین ، محمد حسن عسکری،ممتاز شریں،وزیرآغا،سید عابدعلی عابد ،سلیم احمد ،گوپی چند نارنگ،شمیم حنفی اور ڈاکر جمیل جالبی شامل تھے ان شخصیات پر یاسمین حمید،اورنگزیب نیازی،مبین مرزا،ڈاکٹر ر?ف پاریکھ،ناصرعباس نیئراور ضیاء الحسن نے اظہار خیال کیا۔تحسین فراقی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ہماری تنقید کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم تخلیق کارتک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ادھر ادھر کے نظریات پر بات کرکے تخلیق کار کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارے نقادوں میں بالعموم جو گہرائی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہے کیونکہ لٹریچرایک ایسی گہری چیز ہے کے لسانی شعور نہ ہو تو اس کا حق ادا ہی نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ آج کی محفل میں بہت اچھی گفتگو کی گئی مگر میری یہ تجویز ہے کہ جب کسی نقاد پر بات کی جائے تو ایک وقت میں ایک ہی نقاد پر گفتگوکی جائے تاکہ بات مکمل ہوسکے اور اس نقاد کی شخصیت اور اس کے کام کا بھی مکمل احاطہ ہوسکے انہوں نے کہا کہ وزیرآغا ،حسن عسکری، شمس الرحمن فاروقی اور ممتاز شیریں کا تنقید میں بڑا نام اور کام ہے۔شمیم حنفی اور ڈاکٹر جمیل جالبی پر گفتگو کرتے ہوئے ضیاء￿ الحسن نے کہا کہ ڈاکٹر جمیل جالبی کا ابتدائی کام کلچر کے حوالے سے تھا انکے کام میں تحقیق بھی ہے اور تراجم بھی ،ان کے کام میں کلاسیکی ادب ،کلچر اور تحقیق کو مرکزیت حاصل تھی۔ شمیم حنفی کے کام میں جدیدیت اور تہذیب کو مرکزیت حاصل رہی وہ سمجھتے تھے کہ ادب ایک تہذیب اور ثقافتی کام ہے۔ ممتاز حسین اور سید عابد علی عابد پر گفتگو کرتے ہوئے اورنگزیب نیاز ی نے کہا کہ سید عابد علی عابد کا تعلق ناقدین کی اس نسل سے تھا جو مغربی تنقید سے آگاہ تو تھے مگر انہوں نے مشرقی پیمانے کو مد نظر رکھا۔عابد علی عابد شاعر،افسانہ نگار،ناول نگار بھی تھے۔ انہوں نے تراجم بھی کئے انہوںنے تنقید کے حوالے سے کچھ دلچسپ باتیں بھی لکھی ہیں جنھیں انکا نقطہ نظر کہا جاسکتا ہے پروفیسرممتاز حسین کے حوالے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انکا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھااور اس تحریک میں سب سے قدآور اور ممتاز تھے۔ جب کسی نظریہ کے ساتھ کوئی مقصد وابستہ ہوجاتا ہے توپھر اس نظریے کے پیروکاروں میں کچھ شدت بھی آجاتی ہے مگر ممتاز حسین ان میں سے نہیں تھے۔محمد حسن عسکری اور ممتاز شیریں پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر ر?ف پاریکھ نے کہاکہ ان دونوں میں بہت سی باتیں مشترک تھیں بنیادی بات پاکستانیت اور پاکستانی ادب تھا۔ممتازشیریں بنگلور سے یہاں آئیں وہ وہاں بھی اپنا رسالہ نیا دور شائع کرتی تھیں اور وہ رسالہ یہاں سے بھی شائع ہوا۔ممتاز شیریں نے فسادات کے پس منظر پر لکھے گئے افسانوں پر خوبصورت تجزیہ کیاانہوں نے اپنے دیباچے میں ایک جگہ لکھا کہ بیلنس قائم رکھنا ادب نہیں صحافت ہے۔سلیم احمد اور گوپی چند نارنگ پر گفتگو کرتے ہوئے مبین مرزا نے کہا کہ سلیم احمد دبستانِ روایت کی بہت اہم شخصیت ہیں۔محمد حسن عسکری کے بعد بڑا نام سلیم احمد ہی کا ہے۔ سلیم احمد ادب بسرکرنے والوں میں سے تھے انہوں نے جتنے سوالات اپنی تقید میں اٹھائے تھے وہ سوالات انکے اپنے خون کی حرارت سے اٹھتے تھے۔انکے تنقیدی تجربے کو انکی شاعری میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔سلیم احمد کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک ایسی روح کا نام تھا جو اپنے ضمیر کی آواز کو پوری سچائی کے ساتھ بیان کرتی ہے۔گوپی چند نارنگ کے کام کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں وسعت بہت زیادہ ہے انہوں نے مختلف اشکال میں اردو ادب کو دیکھنے کی کوشش کی وہ لسانیت کے آدمی تھے آخری دو دہائیوں میں انہوں نے جدیدیت کے حوالے سے کام کیا۔ شمس الرحمان فاروقی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یاسمین حمید نے کہا کہ شمس الرحمان فاروقی نے افسانہ ،شاعری، تاریخ اور ناول سمیت تراجم پر بھی کام کیا انتقال سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے میرتقی میر کے منتخب اشعار کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔تنقید کے شعبے میں انکے یہاں جو چیز زیادہ نظر آتی ہے وہ کسی بات کو انتہائی واضح کردینا ہے۔وہ بہت وضاحت سے بات کرنے کا طریقہ اپناتے ہیں اور یہ ہی ان کی بڑی خوبی ہے۔ ان کا ذہن سائنٹفک تھا وہ کوئی بات دلیل کے بغیر نہیں کرتے تھے وہ سوال قائم کرتے اس پر بحث ہوتی اور پھر اپنا موضوع بہت واضح انداز میں بیان کرتے چاہے کوئی اختلا ف کرے یا نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ شمس الرحمان فاروقی نے خود ایک جگہ لکھا ہے کہ میں ہر ایک تجربے کو مستحسن سمجھتا ہوں تجربہ ہر شاعر کا حق ہے مگر ہر تجربے کے کچھ آداب بھی ہوتے ہیں اور اس کے لئے مطالعہ بہت ضروری ہے۔ایک جگہ مزید لکھتے ہیں کہ اگر شاعر اچھا ہے تو وہ جو لکھے گا اچھا ہوگا مگر ہر تحریرکا معیار بلند نہیں ہوسکتا ہاں یہ ضرور ہے کہ اچھے شاعر کا لکھا ہوا خراب شاعرکی تخلیق سے بڑھ کر ہوگا۔وزیرآغا پر گفتگو کرتے ہوئے ناصرعباس نیئر نے کہا کہ وزیر آغا نے 88 برس عمر پائی اور انکی علمی عمر 70 برس رہی وہ شاعر بھی تھے ،تنقید بھی لکھی،انشایئے لکھے اور اپنی آپ بیتی بھی لکھی،وزیرآغا نے نظری اور عملی تنقید بھی لکھی اور اس کا موازنہ بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر آغا نے شاعری میں سے شاعروں کی شخصیت کو دریافت کیا اور انکی تنقید کو ایک نیا راستہ بھی دکھایا


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز ” یاد رفتگاں ” کے عنوان پر سیشن کا انعقاد کیا گیا

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز ” یاد رفتگاں ” کے عنوان سے سجائے گئے سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ہما میر نے معروف اداکار شکیل کی زندگی اور فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شکیل انتہائی نفیس، شفیق اور منکر مزاج طبیعت کے مالک تھے، انہوں نے بیشمار ڈراموں کے ساتھ ساتھ آرٹس کونسل میں بھی کئی پروگراموں میں اپنے فن کا جادو جگایا، غضنفر ہاشمی نے معروف ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے لکھے ڈرامے ” وارث ” نے ڈرامے کا تصور ہی تبدیل کردیا تھا ، جب وارث ٹی وی پر چلتا تو گلیوں ویران اور گھر آباد ہوجاتے تھے، انہوں نے پہلی بار ڈرامے میں مزاھمت کا عنصر پیش کیا، شاعری میں بھی امجد نے الگ اسلوب اپنایا اور موسیقیت کا تڑکا شامل کیا، ان کی لکھی سادہ نظمیں آسانی سے زبان زد عام ہوجاتی تھیں ، خالد احمد نے آواز کے بادشاہ ضیاء محی الدین کی زندگی اور فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ضیا محی الدین کی زبان ، بیان اور انداز نشست و برخاست لاجواب تھا، اردو پڑھنت میں ان کا درجہ استاد کا تھا، اردو تلفظ پر جو دسترس انہیں حاصل تھی وہ کسی اور کو نہیں تھی، وہ کم گو انسان اور شفیق استاد تھے۔ اختر وقار عظیم نے شعیب ہاشمی کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا کہ بے شمار لوگوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں شعیب ہاشمی کا بڑا ہاتھ رہا، ایک زمانہ تھا جب پی ٹی وی اور شعیب ہاشمی لازم و ملزوم تھے، ان کا سیریل ” بلیلہ ” تنقید کے سبب بند کردیا گیا تھا، زندگی کے آخری دنوں میں ان کی یاداشت جواب دے گئی تھی مگر وہ لوگوں کی یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ، معروف اداکار منور سعید نے نامور سینئر آرٹسٹ قوی خان کی زندگی اور فن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قوی اپنے کام اور فن کے حوالے سے واقعی بہت قوی تھے، انہوں نے کہا کہ قوی کا شمار ملک کے بہترین پرفارمرز میں کیا جاتا ہے تاہم وہ کسی کے سامنے کبھی اپنی بڑائی نہیں جتاتے تھے اور انتہائی ڈائون ٹو ارتھ انسان تھے، نشست کی نظامت کے فرائض رضوان زیدی نے انجام دیے۔


سولہویں عالمی اردو کانفرنس میں پیش کی گئیں قراردادیں

کراچی( ) سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے اختتام پر منظور ہونے والی قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ اور موثر عالمی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور فلسطین کو ایک پر امن خطہ بنانے کی ذمہ داری پوری کریں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں اور عوام کے حقِ خود ارادیت اور ان کے آزادانہ اورجمہوری ماحول میں رہنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ قراردادیں میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کی مختلف زبانوں اور ان کے ادبیات کی ترقی کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں حکومتوں کی مالی اور انتظامی ذمہ داریوں کی تکمیل ناگزیر ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جامعات میں اور ان کے باہر بھی تراجم کے ادارے قائم کیے جائیں۔ صدر آرٹس کونسل آف پاکستان محمد احمد شاہ نے قراردادیں پڑھ کر سنائیں جن کو حاضرین نے ہاتھ کھڑے کر کے منظور کیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ موجودہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر منعقد ہوئی ہے جب دنیا مختلف النوع مسائل سے دوچار ہے۔ فلسطین کی آزادی کا مسئلہ حالیہ دنوں میں غزہ کے پر تشدد واقعات کی ہمرکابی میں ایک دفعہ پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت، بربریت کی نئی مثالیں قائم کر رہی ہے۔غزہ تقریباً برباد ہو چکا ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے، ہزاروں موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ ہم نہ صرف فلسطین کے عوام، وہاں کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ہم خود بھی اپنی تحریروں اور اپنی تخلیقات کے ذریعے فلسطین کے حق میں آواز اٹھاتے رہیں گے، بلکہ ہماری خواہش اور مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ اور موثر عالمی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کی اور فلسطین کو ایک پر امن خطہ بنانے کی ذمہ داری کو پورا کریں۔ ایک اور قرارداد میں کہا گیا کہ ہم ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی دنیا کے مختلف خطوں میں، بالخصوص کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں، اور ان سب خطوں کے عوام کے حقِ خود ارادیت اور ان کے آزادانہ اورجمہوری ماحول میں رہنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ تیسری قرارداد میں کہا گیا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی پچھلی اور موجودہ عالمی اردو کانفرنسوں کے درمیان آرٹس کونسل نے پاکستان لٹریچرفیسٹول کے نام سے لاہور، آزاد کشمیر اور سکھر میں کانفرنسوں کے انعقاد کا جو مستحسن اور کامیاب تجربہ کیا ، ہم اس پر آرٹس کونسل آف پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ان کانفرنسوں نے ملک میں سماجی اور ثقافتی ہم آہنگی کا کام سر انجام دیا۔ پاکستان لٹریچر فیسٹول جس بڑے پیمانے پر شہریوں کی دلچسپی اور شرکت کا محور بنے، وہ اس امر کا غماز ہے کہ لوگ ثقافت اور ادب کو اہمیت دیتے ہیں اور مختلف زبانوں میں لکھے جانے والے ادب کو قبولیت سے سرفراز کرتے ہیں۔ چوتھی قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان لٹریچر فیسٹولز کا یہ پہلو خاص طور سے قابلِ ذکر ہے کہ ان میں بحیثیتِ مجموعی لاکھوں کی تعداد میں نوجوانوں نے شرکت کی۔ بیشتر پروگراموں میں انہوں نے اظہارِ خیال بھی کیا اورپرفارم بھی کیا۔ رات گئے تک جاری رہنے والے یہ پروگرام نوجوانوں کی غیر معمولی دلچسپی اور نظم و ضبط کا مظہر تھے۔ اس تجربے سے اس خیال کو یقین کا درجہ حاصل ہوا کہ ہماری نئی نسل تعمیری اور مثبت سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بے چین ہے۔پاکستان کی آبادی کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں۔ حکومتوں اور وسائل یافتہ اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس نسل کو اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے اور ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کے بہترین مواقع مہیا کریں۔تعلیم اور تحقیق کو سستا اور آئین کے مطابق سولہ سال تک کی تعلیم کو لازمی اور مفت بنانے کے فرض کو پورا کریں۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ تعلیم کا بجٹ جو اس وقت جی ڈی پی کے دو فیصد سے بھی کم ہے، اس میں اضافہ کیا جائے۔ ایک اور قرارداد میں پاکستان کی مختلف زبانوں اور ان کے ادبیات کی ترقی کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں حکومتوں کی مالی اور انتظامی ذمہ داریوں کی تکمیل ناگزیر ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جامعات میں اور ان کے باہر بھی تراجم کے ادارے قائم کیے جائیں۔ چھٹی قرارداد میں کہا گیا کہ ملک میں کتابوں اور رسائل و جرائد کی اشاعت مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے نتیجے میں کاغذ کی درآمد کہیں زیادہ مشکل ہوتی جارہی ہے۔ نتیجتاً چھپنے والی کتابوں کی قیمتیں روز افزوں ہیں۔ پہلے ہی کتابوں کی تعداد اشاعت چار پانچ سو تک گر گئی تھی۔ اب پبلشر کتابوں کے ڈیجیٹل ایڈیشن چھاپنے پر مجبورہیں جو عموماً پچاس ساٹھ کی تعداد میں بھاری قیمت پر بکتے ہیں۔ ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک میں کاغذ کے کارخانے لگائے جائیں، اور جب تک ایسا نہ ہو سکے اس وقت تک کتابوں کی اشاعت کے لیے درآمد شدہ کاغذ پر سبسڈی دی جائے۔ ایک اور قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ کتابوں اور رسائل کی اندرون ملک اور بیرون ملک ترسیل مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور سے بیرون ملک کتابیں اور رسائل بھیجنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مطبوعات کی ترسیل کے نرخ اس حد تک کم کیے جائیں کہ ایک سے دوسرے شہروں میں چھپنے والے یا بیرون ملک چھپنے والے علمی اور ادبی سرمائے سے استفادہ ممکن اور آسان ہو سکے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں لائبریریاں بحیثیت مجموعی انتہائی ناگفتہ بہ حالت تک پہنچ چکی ہیں۔ تعلیمی اوردیگر اداروں کی لائبریریوں میں نئی کتابوں کا اضافہ بہت مشکل ہو چکا ہے۔ پرانی کتابوں کی حفاظت اور نگہداشت بھی اکثر لائبریریوں کے بس میں نہیں رہی ہے۔ ہم مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور متمول اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس طرف سے غفلت کو ترک کرتے ہوئے لائبریریوں کو از سرِ نو زندہ کرنے اور زندہ رہنے کے وسائل فراہم کریں۔ نویں قرارداد میں کہا گیا کہ ہم پاکستان کی سب زبانوں او ران کے ادبیات کی ترقی کے نہ صرف خواہش مند ہیں، بلکہ اس کو قومی ےکجہتی کے لیے ناگزیر بھی سمجھتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے اس ضمن میں آئین میں دی گئی شقوں پر لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے عمل درآمد کیا جائے۔ عالمی اردو کانفرنس میں کہا گیا کہ اردو کانفرنسوں اور پاکستان لٹریچر فیسٹولز سے پاکستانی معاشرے کا جو سوفٹ امیج اجاگر ہوتا رہا ہے، وہی پاکستان کا مستقل چہرہ بنا رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہم آرٹس کونسل کی آئندہ کی پیش قدمیوں کی امید رکھتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کاوشوں کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جاتی رہے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’ترکی و ایران میں اردو‘‘ پر سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’ترکی و ایران میں اردو‘‘ پر سیشن کا انعقاد کیاگیا، شرکاء میں وفا یزداں، احمد شہریار اور تحسین فراقی شامل تھے جبکہ نظامت کے فرائض عظمیٰ الکریم نے انجام دیے، سیشن میں ایران اور ترکی میں اردو زبان کی اہمیت پر بات کی گئی ، وفا یزداں نے کہاکہ ایران میں اردو کی اہمیت روز بروز بڑھتی جاری ہے ، انہوں نے کہاکہ اردو میں فارسی کا بڑا سرمایہ ہے، اردو کی پہلے مثنوی ایرانی شاعر کی ہی ہے، بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہاکہ فارسی ضرور سیکھیں اور اردو کی طرح اس سے عشق کریں تو آپ کو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔تحسین فراقی نے کہاکہ اردو اور فارسی کو ایک زبان کے دو رُخ ہیں،دونوں زبانوں کا رسم الخط ایک جیسا ہے اور اسی لیے ایران میں اردو بولنی سکھائی جارہی ہے ،انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال اپنی فارسی شاعری کی وجہ سے وہاں بے حد مقبول ہیں اور کافی عرصے تک وہاں کے طالب علم علامہ کو فارسی شاعر سمجھتے رہے، اسی طرح ایرانی شاعر سعدی اور شیرازی ہمارے ہاں پڑھے جاتے ہیں، فارسی 7سو سال برصغیر کی زبان رہی اور اسی میں تاریخ لکھی اور پڑھی گئی۔ اردو سے فارسی اور فارسی سے اردو میں کئی ہزار تراجم ہوئے ، ابھرتے ہوئے شاعر احمد شہریار نے کہاکہ میں نے کئی فارسی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیاہے، اردو اور فارسی کو جدا کرنا آسان نہیں، ہمارا پورا ترانہ فارسی میں ہے ، ایران میں اردو کو اس تیزی سے فروغ مل رہا ہے کہ یہ ایک دبستان کی شکل اختیار کرگیا ہے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’بچوں کے ادب کے مشاہیر‘‘پر سیشن کا انعقاد

بچوں کے ادب کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے ،مہناز رحمان

کراچی( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے تیسرے دن بچوں کے ادب کے مشاہیر کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں صوفی غلام مصطفی تبسم ،اسماعیل میرٹھی، مسعود احمد برکاتی،اشتیاق احمد اور اے حمید کی بچوں کے لیے ادبی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔اجلاس کی صدارت مہنا زرحمان نے کی۔تقریب کی نظامت علی حسن ساجد نے انجام دی اس موقع پر ان کی کتاب ’’بڑھتے چلو‘‘ کی رونمائی بھی کی گئی۔حنیف سحر نے علی حسن ساجد کی کتاب ’’بڑھتے چلو‘‘ اور ا ن کی شخصیت پر بھی اظہار خیال کیا جبکہ مصنف نے مہنازرحمان ،شہناز احد اورشمع زیدی کو اپنی کتابیں بھی پیش کیں صدرمحفل مہنازرحمان نے بچوں کے ادب کو فروغ دینے کے لیے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے بالخصوص اس موضوع پر تقریب کا انعقاد کرنے کے لیے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں بچوں اور بچوں کے ادب کو کم اہمیت مل رہی ہے۔ بچوں کے لیے جو ادیب لکھ رہے ہیں موجودہ دور میں انہیں بھی وہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے جو دی جانی چاہیے۔ انہوںنے کہا کہ ایسے حالات میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے جو تقاریب منعقد کی جاتی ہیںوہ دم غنیمت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بچوں کے ادب کی ترویج واشاعت کے ساتھ ساتھ اسے لکھنے والے نئے قلم کاروںکی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔صوفی غلام مصطفی تبسم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حنیف سحر نے کہا کہ صوفی تبسم چاراگست 1891 کو امرتسرمیں پیدا ہوئے۔ان کا فن اور کام دیکھ کر حیرت کے در اس طرح کھلتے ہیں کہ ایک بند نہیں ہوتا دوسرا کھل جاتا ہے صوفی تبسم ایک حیرت کدہ کا نام ہے وہ ہر میدان کے شہسوار تھے۔انہوں نے بچوں کے لیے بے شمار کتابیں لکھیں۔1965 ء میں انکے لکھے ہوئے نغمات نے بہت شہرت حاصل کی۔ اسماعیل میرٹھی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے علی حسن ساجد نے کہا کہ وہ بچوں کے اولین شعراء میں سے ایک تھے۔1860 ء سے ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔اسماعیل میرٹھی کچھ اس انداز سے بچوں کے لیے لکھتے کہ وہ بچوں کو غیر شعوری طور پر یاد ہوجایاکرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسماعیل میرٹھی کی نظمیں ’’ضرب المثل‘‘ کے طور پر بھی زبانِ زد عام ہوئیں۔مسعوداحمد برکاتی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے راحت عائشہ نے کہا کہ مسعود احمد برکاتی1935 ء میں پیدا ہوئے۔وہ 16 سال کی عمر میں ہی پاکستان آگئے تھے۔1953 ء میں ان کی ملاقات حکیم سعید سے ہوئی اور اس کے بعد دمِ آخرتک حکیم سعید کے ادارے سے ہی وابستہ رہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا ہے جبکہ مقبول ترین رسائل بھی انکی ادارت میں شائع ہوئے۔اشتیاق احمد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق احمد نے کہا کہ اشتیاق احمد 5 جون1944 ء کو پیدا ہوئے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم جھنگ سے حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ جاسوسی ادب میں اشتیاق احمد اور ابن صفی کے نام بہت نمایاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اشتیاق احمد نے مختصر افسانے بھی بہت لکھے ہیں۔ مگر ان کی وجہ شہرت بچوں کے لیے لکھے گئے جاسوسی ناول ہی رہے۔انہوں نے کہا کہ اشتیاق احمد کے تمام جاسوسی ناول ہمارے معاشرے ہی کے عکاس ہیں۔کیونکہ جاسوسی نگاری معاشرے ہی سے جڑی ہوتی ہے۔ اے حمید پر گفتگو کرتے ہوئے مصطفی ہاشمی نے کہا کہ اے حمید نے یوں تو بہت لکھا اور سب ہی پسند کیا گیا مگر 1990/92ء کی دہائی میں ٹیلی ویڑن پر بچوں کے لیے انکی لکھی ہوئی ڈرامہ سیریل عینک والا جن کو جو مقبولیت حاصل ہوئی اس جیسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔یہ ڈرامہ سیریل 285 اقساط پر مشتمل تھی جبکہ اس ڈرامے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے الحمرا اسٹیج پر بھی تھیٹر پر پیش کیا گیا۔ عینک والا جن کے حوالے انھوں نے جو کردار تخلیق کردار کئے وہ امر ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اے حمید اپنے ابتدائی دور میں ریڈیوں سے وابستہ رہے بچوں کے لیے انکا سب سے پہلا ناول نیا گھوڑا تھا۔اے حمید اپنی لازوال کہانیوںکی بدولت بچوں اور بڑوں میں زندہ رہیں گے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے چار روزہ ’’سولہویں عالمی اردو کانفرنس2023‘‘ میں تھیٹرپلے ’’تعلیمِ بالغان‘‘ پیش کردیاگیا

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ’’سولہویں عالمی اردو کانفرنس2023‘‘ کے تیسرے روز پاکستان کے معروف لکھاری خواجہ معین الدین کی لکھی گئی شہرہِ آفاق تحریر ’’تعلیم بالغان‘‘ کو نئے انداز کے ساتھ پیش کیاگیا۔ تھیٹر کے ہدایت کار فرحان عالم صدیقی تھے جبکہ کاسٹ میں اویس، فرحان رحیم، اجنیش دوڈیجا، علی رضا، شہریار ،عاصم و دیگر شامل تھے، ڈرامہ مدرسے میں ترتیب دیاگیا ہے، جبکہ ڈرامے میں طنز کے ذریعے بالغوں کی تعلیم کو مزاحیہ انداز میں پیش کیاگیا ہے، یہ تخلیقی صلاحیت محمد علی جناح کے تین کلیدی اصولوں کی کھوج کرتی ہے، انہیں جدید معاشرتی حرکات کے ساتھ اس کی پائیدار مطابقت اور وقت کے ساتھ مزاحیہ بصیرت کے ساتھ جوڑتے ہوئے تعلیم بالغان پاکستانی ڈرامہ تاریخ کا ایک قابل قدر ٹکڑا بنا رہا ہے جو آج بھی سامعین کے ساتھ گونج رہا ہے۔تعلیم بالغان میں شائقین نے بھرپور انداز میں شرکت کی جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ڈرامے کے دوران فنکاروں کی زبردست پرفارمنس پرشائقین قہقہے لگاتے رہے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے جاری چا رروزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس2023 ء کے آٹھویں اجلاس میں چھ کتابوں کی رونمائی

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز 8ویں سیشن میں چھ کتابوں کی رونمائی کی گئی جس میں نامور ادیبوں ، شاعروں اور نقادوں نے مختلف کتابوں کا تعارف پیش کیا، نینا عادل کے پہلے ناول ” مقدس گناہ” پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نجیبہ عارف نے کہا کہ مصنفہ نے ناول میں کئی حساس موضوعات کو چھیڑا ہے ، ناول میں مرد و زن کے نفسیاتی و جنسی مسائل اور عوامل پر بات کی گئی ، مصنفہ نے ناول میں بنیادی انسانی فطرت پر سوال اٹھایا ، محمد حمید شاہد کی خود نوشت ” خوشبو کی دیوار کے پیچھے ” پر کاشف رضا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں مصنف نے اپنے بچپن اور لڑکپن کے واقعات کے ساتھ ساتھ نامور ادیبوں سے اپنے تعلق اور سفری تجربات تحریر کیے ہیں ، اس آب بیتی میں ان کا تعلق اپنے گھر والوں اور روایات کے ساتھ خاصا مضبوط نظر آتا ہے، ثروت زہرا کے مجموعے “کتنے یگ بیت گئے ” کا تعارف پیش کرتے ہوئے فاطمہ حسن نے کہاکہ ان کی شاعری میں عصری سچائی دکھائی دیتی ہے، ڈاکٹر ضیا الحسن نے مصنفہ نجیبہ عارف کی کتاب ” میٹھے نلکے” کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے کرداروں کو اپنی ذات کے آئینے میں دیکھتی ہیں، انور سن رائے کی نثری نظموں کے مجموعے ” کچھ محبت کچھ بے بسی ” پر تبصرہ کرتے ہوئے اخلاق احمد نے کتاب کو بے مثال قرار دیا، فرخ یار کی مغلیہ دور کے شاعر شاہ حسین کے حوالے سے تحریر کردہ کتاب ” شاہ حسین ” کا تعارف پیش کرتے ہوئے جامی چانڈیو کا کہنا تھا کہ مصنف نے اپنی کتاب میں تصوف کے افکار کی نئی تشریح کی ہے۔ سیشن کی نظامت کے فرائض معروف شاعرہ ناصرہ زبیری نے انجام دیے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’خواتین کی جدوجہد اور چیلنجز‘‘ کے عنوان پر سیشن کا انعقاد

کراچی()آرٹس کونسل پاکستان کے زیر اہتمام چارروزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’خواتین کی جدوجہد اور چیلنجز‘‘ کے عنوان سے سیشن آڈیٹوریم Iمیں منعقد کیا گیا۔ جس میں نظامت کے فرائض فضہ پتافی نے انجام دیے۔ شرکائے گفتگو میں انیس ہارون ،عائشہ میاں، عظمیٰ الکریم اور کشورناہید شامل تھیں۔ لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے انیس ہارون نے اپنی زندگی کا قصہ کا بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں بہت خوش قسمت تھی کہ میرے والدین میرا سب سے بڑا سہارا بنے، انہوں نے مجھے آگے بڑھنے سے کبھی نہیں روکا ،میرے دادا نے بھی میرا بہت ساتھ دیا۔ اکثر لڑکیوں کے گھر والے تو ساتھ دے دیتے ہیں لیکن اصل مرحلہ شادی کے بعد شروع ہوتا ہے میں اس حوالے سے بھی خوش قسمت تھی میں ایسا جیون ساتھی چاہتی تھی جو میرے کام میں میری رکاوٹ نہ بنے بلکہ میرا ساتھ دے جن سے میری شادی ہوئی انہوں نے کبھی مجھے کہیں جانے سے نہیں روکا بلکہ اگر میں گھر پر نہیں ہوتی تھی تو وہ اکثر گھر کا کام بھی کردیتے تھے۔میں سمجھتی ہوں کہ اگر مرد عورت کی عزت کرنا سیکھ جائے تو یہ معاشرہ بہتر ہوسکتا ہے۔ عظمیٰ الکریم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جب خواتین کام کے سلسلے میں باہر جاتی ہیں تو انھیں ہراسمنٹ کا نشانہ بنایاجاتا ہے لیکن ہمیں اپنی لڑکیوں کی تربیت ایسی کرنی چاہیے کہ وہ ایسی باتوں کو ایک کان سے سنیں اور دوسرے کان سے نکال دیں اور اس طرح کے چیلنجز کا بہادری سے مقابلہ کریں۔ سب سے پہلے تو والدین کو یہ سیکھنا ہوگا جب لڑکی گھر پر آکر اپنے والدین کو ہراسمنٹ کا بتائے تو گھر والے اس کے گھر سے نکلنے پر پابندی نہ لگائیں بلکہ اس کو بااختیار کریں اور یہ ہی چیزیں ہمارے اداروں میں بھی شامل ہونی چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو بااختیار کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود لے سکیں۔جب لڑکیاں بااختیار ہوں گی تو ان میں خود اعتمادی بھی بڑھے گی۔ معروف شاعرہ کشور ناہید نے تنقیدی لہجے میں کہا کہ آج کے دور کی لڑکیاں پڑھ بھی رہی ہیں اور نوکری بھی کررہی ہیں لیکن وہ سیکھ کچھ نہیں رہیں، میں نے پندرہ لڑکیوں سے انٹرویوکیا میرا پہلا سوال تھا بنگلہ دیش کا دوسرا نام کیا ہے ،کسی نے بھی اس کا جواب صحیح نہیں دیا، میں یہاں بیٹھی ہر لڑکی سے درخواست کروں گی آپ نوکری کریں مگر کچھ تو سیکھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں ریڈیومیں کام کررہی تھی تو میری امی اکثر کہتی تھیں یہ سید گھرانے کی لڑکی ہے جس گھرانے کی خواتین کی آواز کبھی مرد خانے تک نہیں جاتی تھی آج یہ لڑکی ریڈیومیں جاکراول فول بول کر آتی ہے۔ میں نے تب بھی ان کی بات پر دھیان نہیں دیا اور اپنی زندگی کے سارے فیصلے بااعتمادی کے ساتھ خود کئے۔ شادی کے بعد میرے شوہر نے میرا بہت ساتھ دیا میں جب بھی کسی پروگرام میں جاتی تو وہ اکثر میرے ساتھ جاتے تھے لیکن جب وہ نہیں جا پاتے تھے تو لوگ اکثر طعنہ مارتے تھے کہ تم نے بتایا ہی نہیں ہوگا۔ لوگوں کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ میں نے شادی کے بعد بھی اپنا نام کشور ناہید ہی رکھا۔ جب بچے ہوئے تو میں نے سوچا کہ میں نوکری چھوڑ دوں لیکن ساتھ ہی میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر میں نے نوکری چھوڑ دی تو مجھے ایک روپے کے لئے بھی اپنے شوہر کے آگے ہاتھ پھیلانا ہوگا پھر یہ ہاتھ سلام کرنا شروع ہوجائیں گے۔ آج کل کی لڑکیوں کی جب شادی ہوتی ہے تو یہ سوال آتا ہے کہ میں میک اپ کونسا کروں، پہنوں گی کیا، ایک ہی دن تو ہے، میں سمجھتی ہوں کہ ہم نے ذہن کی پرورش نہیں کی، فیشن کو زیادہ اہمیت دی، ہم ڈیزائن کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ عائشہ میاں نے کہاکہ میں بچپن سے ہی کہانیوں میں دلچسپی لیتی تھی،میں ان کہانیوں میں بھی دلچسپی لیتی تھی جو کہانی ہمارا معاشرہ ہمیں سناتا ہے، جو ہمارے گھر والے ہمیں سناتے ہیں، میں اس چیز کی کھوج لگاتی تھی جو کہانیاں سنائی گئیں ہیں کیا واقعی حقیقت کا اس سے کوئی تعلق ہے، میں لڑکیوں سے اکثر کہتی ہوں کہ اپنے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرو، جو سوچ معاشرے نے پیدا کی ہے اس کو چیلنج کرنا سیکھیں۔ ہمارے معاشرے میں 30 سے 40 فیصد لوگ انزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم معاشرے کی سوچوں کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے،ہم نے اس بات کو اپنے اوپر حاوی کرلیا ہے۔ہماری مائوں کو لڑکوں کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ہراسمنٹ جیسے مسائل میں کمی آسکے کیونکہ جب تربیت اچھی ہوگی تو معاشرہ میں سدھار پیدا ہوگا۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’Purposeful Education‘‘ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز Purposeful Educationکے نام سے سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت زبیدہ مصطفی نے جبکہ نظامت اعجاز فاروقی نے کی، صوبائی وزیر تعلیم رانا حسین ، صادقہ صلاح الدین، امجد سراج ، سید جعفر احمد نے اظہارِ خیال کیا، صدارتی خطبہ میں زبیدہ مصطفی نے کہاکہ اگر ایک چھوٹے بچے کو اس کی مادری زبان میں نہ پڑھایا جائے تو بنیاد ہی غلط پڑ جاتی ہے، جب تک تعلیم دلچسپ نہیں ہوگی تب تک تعلیم کے حقیقی فوائد حاصل کرنا نہ ممکن ہے۔ صوبائی وزیر رانا حسین نے کہاکہ میری خواہش ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کارجحان یقینی بنایا جائے اور میں سمجھتی ہوں کہ تبدیلی زبردستی نہیں بلکہ اصلاحات سے حاصل کی جاسکتی ہے، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر امجد سراج نے کہاکہ کہ ہمارے نصاب کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ڈگری ملے جبکہ ان کی ترجیح Skils ہونی چاہیے۔ صادقہ صلاح الدین نے ایک مختلف نقطہ پر توجہ دلاتے ہوئے کہاکہ اصل مسئلہ مادری زبان کا نہیں بلکہ اساتذہ کو عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا ہے۔ سید جعفر احمد نے کہاکہ اگر نصاب سازی اچھی ہوبھی جائے تب بھی پڑھانے والے وہی پرانے رہیں گے۔لہٰذا نصاب کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی بہتری کی ضرورت ہے۔ اعجاز فاروقی نے کہاکہ اساتذہ کی ورکشاپ اور ٹریننگ کے بعد ان کا امتحان لازمی لیا جائے جس سے معلوم کیا جاسکے کہ آیا ٹریننگ اور ورکشاپس سے اساتذہ میں کوئی بہتری آئی یا نہیں۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’اردو افسانے کے مشاہیر‘‘ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

تمام مشاہیر نے اردو افسانے کی بہتری میں اپنا اہم کردار ادا کیا ،زاہدہ حنا

افسانوں نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کیا ،پاکستان عظیم ملک ہے اور یہاں کے قاری بھی عظیم ہیں،اسد محمد خان

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’اردو افسانے کے مشاہیر‘‘ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد آڈیٹوریم 1 میں کیاگیا، اجلاس کی صدارت زاہدہ حنا اور اسد محمد خان نے کی جبکہ نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے انجام دیے، اظہارِ خیال کرنے والوں میں ناصر عباس ،ڈاکٹر طاہرہ اقبال، ڈاکٹر نجیبہ عارف ،اخلاق احمد اور مرزا حامد بیگ شامل تھے، مجلس صدر زاہدہ حنا نے مشاہیر اردو افسانے پر کہاکہ غلام عباس نے پاکستان میں انتہا پسندی کے حوالے سے بھی افسانہ لکھا ، قرہ العین حیدر سمیت اردو افسانے کے مشاہیر کی تعداد بہت زیادہ ہیں ، تمام مشاہیر نے اردو افسانے کی بہتری میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ، اسد محمد خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ افسانوں نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کیا اور پاکستان عظیم ملک ہے اور یہاں کے قاری بھی عظیم ہیں، ناصر عباس نیر نے انور سجاد اور انتظار حسین کی افسانہ نویسی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ انور سجاد اپنے زمانے اور آج کے عہد پر لکھتے اور حقیقت کو کلیت میں رکھتے تھے ، انہیں گرفتار بھی کیاگیا، انور سجاد نے غاصبیت کے موضوع پر بھی قلم اٹھایا ، انور سجاد افسانے کے ساتھ ساتھ دیگر صفتوں اور فنون میں بھی دلچسپی رکھتے تھے ، ان کے افسانوں میں دیگر فنون کی جھلک بھی واضح دکھائی دیتی ہے، انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے جبر کے موضوع پر بھی کوب لکھا، انتظار حسین نے زبانی ، مذہبی اور تحریری روایات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ، ممتاز نقاد ڈاکٹر طاہرہ اقبال نے معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دونوں افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے مختلف پہلوئوں کی نشاندہی کی ہے، عصمت چغتائی نے اپنے افسانوں میں خواتین کے حقوق کو ابھارا وہ سیاسی طور پر قوم پرست خاتون تھیں، انہوں نے اپنی تحریروں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی، احمد ندیم قاسمی کا مزاج انقلابی تھا انہوں نے اپنے افسانوں میں مظلوم طبقات کے ساتھ ساتھ پنجاب کی دیہی زندگی کی عکاسی کی ، احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانوں میں گنڈاسہ متعارف کرایا جو آج بھی ڈراموں اور فلموں میں پیش کیا جاتا ہے،مرزا حامد بیگ نے مشہور افسانہ نگاروں منٹو اور بیدی کے افسانوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ راجندر سنگھ بیدی کا آبائی علاقہ ڈسکہ تھا ، قیام پاکستان کے قبل بیدی اپنے بھائی کے پاس روہپڑ چلے گئے، قیام پاکستان کے وقت بیدی شملا میں تھے بعد ازاں وہ دہلی پھر بمبئی جا پہنچے، راجندر سنگھ بیدی نے فلمی دنیا میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں، بیدی کے لکھے کئی ناول اور افسانے چھپ ہی نہیں سکے ، اخلاق احمد نے معروف افسانہ نگار کرشن چندر اور ممتاز مفتی کے افسانوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ کرشن چندر نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے عام کرداروں کو مضبوط کہانیوں کی شکل میں ڈھالا ، کرشن اپنے افسانوں میں کرداروں کے حوالے سے بہت تحقیق کیا کرتے تھے ، ان کے افسانے آدھے گھنٹے میں پڑھے جاتے اور آدھی صدی تک یاد رہتے ہیں ، کرشن نے اپنے زمانے سے بہت آگے کا فکشن لکھا ، ممتاز مفتی نے نفسیات اور ٹیبوز پر افسانے لکھے، انہوں نے ایسے موضوعات پر قلم کاری کی جنہیں معاشرے میں کہنا مشکل تھا ، ڈاکٹر نجیبہ عارف نے غلام عباس اور نیر مسعود کی افسانہ نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دونوں افسانہ نگاروں کا اسلوب جداگانہ تھا، غلام کے افسانوں پر روسی ادب کے اثرات ہیں ، نیر مسعود لکھنؤ میں رہے ، ان کے افسانوں میں لکھنؤی رنگ نظر آتا ہے ، غلام عباس کے افسانوں میں سطح زمین کے کردار عام ملتے ہیں ، نیر مسعود کے کردار بھی عام ہیں مگر ان میں تخیل کی آمیزش دکھائی دیتی ہے ، غلام عباس کے افسانوں میں سماجی زندگی کا پہلو نمایاں ہے ، نیر مسعود کے افسانوں میں سماج کی اصلاح کا جذبہ نہیں ملتا بلکہ دریافت کا عنصر غالب ہے ، غلام عباس کے افسانوں میں بیانیہ سیدھا جبکہ نیر مسعود کی تحریروں کا بیانیہ الجھا ہوا ہے ، نیر مسعود کے افسانوں میں ماورائیت دکھائی دیتی ہے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’اردو غزل کے مشاہیر‘‘ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’اردو غزل کے مشاہیر‘‘ کے عنوان سے سیشن منعقد کیاگیا، جس کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف اور افضال احمد سید نے کی، جبکہ جن مشاہیر پر گفتگو کی گئی ان میں منیر نیازی ، جگر مرادآبادی، ادا جعفری، پروین شاکر، ناصر کاظمی، احمد فراز ، اطہر نفیس، جون ایلیا، شکیل جلالی اور عرفان صدیقی شامل تھے، غزل کے ان مشاہیر پر یاسمین حمید، ڈاکٹر فاطمہ حسن، محبوب ظفر، پیرزادہ سلمان اور عنبرین حسیب عنبر نے گفتگوکی، افتخار عارف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ اردو ادب کے فروغ میں سماجی طور پر جتنا حصہ غزل کا ہے وہ کسی اور صنف سخن کا نہیں ہے، غزل ہی ادب کی شناخت ہے اور اس شناخت کو برقرار رکھنے میں غزل نے اہم کردار ادا کیا ہے، انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس بہت اچھے غزل گو شاعر موجود ہیں، غزل کا اسم اعظم عشق ہے، غزل کی اصل شکل کو برقرار رکھنا ضروری ہے، انہوں نے کہاکہ بعض اصناف سخن کسی ایک حلقے تک محدود ہوتی ہیں مگر غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جس کا ایک مخصوص حلقہ بھی ہے، انہوں نے کہاکہ نثری نظم کی بھی اپنی جمالیات اور تقاضے ہیں، غزل بہت زیادہ اکھاڑ پچھاڑ پسند نہیں کرتی، ناصر کاظمی اور منیر نیازی ہجرت کے شاعر ہیں، ترک وطن اور گھر چھوڑنے کا احساس ان کی شاعری میں موجود ہے، افضال احمد سید نے کہاکہ شاعری میں کبھی بھی کسی صنف کے امکانات ختم نہیں ہوں گے، غزل کہی جارہی ہے اور کہتی جاتی رہے گی، انہوں نے کہاکہ ہم اپنے ماضی کی عظیم روایات کی جانب لوٹ رہے ہیں، ہمارے یہاں کئی نوجوان بہت اچھا لکھ رہے ہیں، قبل ازیں شکیب جلالی اور عرفان صدیقی پر گفتگو کرتے ہوئے عنبرین حسیب عنبر نے کہاکہ ان دونوں شعراء کی پہچان غزل ہے، شکیب جلالی نے اردو غزل کو ایک نیا چہرہ اور اسلوب دیا ہے، شکیب جدید شاعر ہیں جو ان کی شاعری میں نمایاں علامات کے طور پر نظر آتی ہے، انہوں نے کہاکہ شکیب جلالی کی روح میں آزادی پسندی تھی اور یہی آزادی ان کے مزاج میں بھی شامل تھی جو ان کے اسلوب میں بھی نظر آتی ہے، اطہر نفیس اور جون ایلیا پر گفتگو کرتے ہوئے پیرزادہ سلمان نے کہاکہ تخلیق کار کو اس کی ذاتی زندگی کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے، جون ایلیا سے میرا ذاتی تعلق بھی رہا ہے، ان کی شاعری پر بہت کم لکھا گیا ہے، جون ایلیا کی شاعری میں آپ کو رائیگانی ملے گی جبکہ ان کی شاعری میں اشتراکیت اور وجودیت دونوں اثر موجود ہیں، وجودی رنگ جون کی شاعری میں بے پناہ ہے اب یہ جون اپنے قاری پر چھوڑتے ہیں کہ اسے کون سا رنگ پسند ہے، انہوں نے کہاکہ اطہر نفیس کی شاعری اعتراف کی شاعری ہے، اس موقع پر انہوں نے جون ایلیا کے مقبول اشعار بھی سنائے جسے شرکائے محفل نے بہت پسند کیا، ناصر کاظمی اور احمد فراز پر گفتگو کرتے ہوئے محبوب ظفر نے کہاکہ ناصر کاظمی 8دسمبر 1925کو پیدا ہوئے انہوں نے صرف 47سالہ زندگی پائی، اپنی زندگی کا بیشتر وقت انہوں نے چائے خانوں میں گزارا اور ان کی بہترین غزلیں ان ہی چائے خانوں میں بیٹھ کر رت جگوں کا نچوڑ ہیں، ان کا بنیادی حوالہ غزل ہی ہے اور ان کی غزل ان کی زندگی کی سچی تصویر بھی ہے، انہیں چڑیوں اور درختوں سے بہت پیار تھا بسترِ مرگ پر بھی انہوں نے چڑیوں اور درختوں کو اپنا سلام کہلوایا تھا، انہوں نے کہاکہ احمد فراز اپنی جدوجہد، رومان اور انقلابی شاعری کے حوالے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، فراز کے بغیر اردو شاعری مکمل ہی نہیں ہوتی، ان کی شاعری مزاحمت اور احتجاج کی شاعری ہے، ادا جعفری اور پروین شاکر پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہاکہ ادا جعفری نے 13برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیے تھااور اس طرح انہوں نے بچپن ہی میں اپنے ہونے کا احساس دلا دیا تھا، ان کی شاعری میں روایات کا شعور بہت نمایاں ہے،انہوں نے کہاکہ پروین شاکر میری ہم عمر تھیں اور میرے محلے میں بھی رہتی تھیں انہوں نے مزاحمت کے لہجے میں بھی شائستگی کا وقار برقرار رکھا، ان کا مجموعہ کلام ’’خوشبو‘‘ بہت مقبول ہوا ، ان کی شاعری میں نوجوان لڑکی کے جذبات کا بے ساختہ اظہار موجود ہے، منیر نیاز ی اور جگر مراد آبادی پر گفتگو کرتے ہوئے یاسمین حمید نے کہاکہ جب ہم کسی شاعر کے بارے میں بات کرتے ہیں یا جاننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہے کہ شاعر کس عہد یا کس زمانے کا ہے، جگر مراد آبادی اور منیر نیازی کے زمانے میں دو نسلوں کا فرق ہے، انہوں نے کہاکہ جگر مراد آبادی کی شاعری میں ایک خاص بات ان کا خوب صورت ترنم بھی ہے، ان کی شاعری کی زبان سادہ اور رواں ہے مصرعہ ایسے لکھتے تھے کہ کہیں ٹکرائو کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا، انہوں نے کہاکہ منیر نیازی کی شاعری میں نظم اور غزل کا ایک ہی مزاج اور ایک ہی کیفیت ہے جو تبدیل نہیں ہوتی، منیر نیازی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’بلوچی زبان و ادب کے مشاہیر‘‘ پر سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’بلوچی زبان و ادب کے مشاہیر‘‘ پر سیشن کا انعقاد جون ایلیا لان میں کیاگیا جس میں زاہدہ رئیس راجی نے بانل دشتیاری اور گوہر ملک پر … اسحاق خاموش نے بلوچی زبان کے شہنشاہ ظفر علی ظفراورخیرمحمد ندوی پر… عبدالواحد بلوچ نے بلوچی اردو زبان کے معروف مصنف گل خان نصیر اور محمد حسین عنقاپر… ڈاکٹر غفور شاد نے مبارک قاضی اور عطا شادپر… رحیم مہر نے سید ظہور ہاشمی اور مراد ساحرپر گفتگو کی، سیشن میں نظامت کے فرائض وحید نور نے انجام دیے۔ مقررین نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں بلوچی ادب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ،بلوچی ثقافت کے فروغ کے لیے ہمیں سنجیدہ ہونا چاہیے، ہمارے مشاہیر کی ادب کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں ، ہم ان کے نقش قدم پر چل کر ایک اچھی قوم کا حصہ بن سکتے ہیں۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’ترکی و ایران میں اردو‘‘ پر سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ’’ترکی و ایران میں اردو‘‘ پر سیشن کا انعقاد کیاگیا، شرکاء میں وفا یزداں، احمد شہریار اور تحسین فراقی شامل تھے جبکہ نظامت کے فرائض عظمیٰ الکریم نے انجام دیے، سیشن میں ایران اور ترکی میں اردو زبان کی اہمیت پر بات کی گئی ، وفا یزداں نے کہاکہ ایران میں اردو کی اہمیت روز بروز بڑھتی جاری ہے ، انہوں نے کہاکہ اردو میں فارسی کا بڑا سرمایہ ہے، اردو کی پہلے مثنوی ایرانی شاعر کی ہی ہے، بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہاکہ فارسی ضرور سیکھیں اور اردو کی طرح اس سے عشق کریں تو آپ کو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔تحسین فراقی نے کہاکہ اردو اور فارسی کو ایک زبان کے دو رُخ ہیں،دونوں زبانوں کا رسم الخط ایک جیسا ہے اور اسی لیے ایران میں اردو بولنی سکھائی جارہی ہے ،انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال اپنی فارسی شاعری کی وجہ سے وہاں بے حد مقبول ہیں اور کافی عرصے تک وہاں کے طالب علم علامہ کو فارسی شاعر سمجھتے رہے، اسی طرح ایرانی شاعر سعدی اور شیرازی ہمارے ہاں پڑھے جاتے ہیں، فارسی 7سو سال برصغیر کی زبان رہی اور اسی میں تاریخ لکھی اور پڑھی گئی۔ اردو سے فارسی اور فارسی سے اردو میں کئی ہزار تراجم ہوئے ، ابھرتے ہوئے شاعر احمد شہریار نے کہاکہ میں نے کئی فارسی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیاہے، اردو اور فارسی کو جدا کرنا آسان نہیں، ہمارا پورا ترانہ فارسی میں ہے ، ایران میں اردو کو اس تیزی سے فروغ مل رہا ہے کہ یہ ایک دبستان کی شکل اختیار کرگیا ہے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”معیشت کی دلدل:نکلنے کا راستہ“کے عنوان پر سیشن کا انعقاد

کوئی بھی حکومت جو شرح نمو کی ترقی پر توجہ نہ دے وہ معیشت میں ترقی نہیں کر سکتی،وفاقی وزیر نجکاری فواد حسن فواد

کراچی(  ) وفاقی وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کہا کہ ملک کو معیشت کی دلدل سے اس وقت نکالا جا سکتا ہے جب ہم یہ سوچ لیں کہ ہم نے اس سے نکلنا ہے اور اس کے لیے ہمیں خود کام کرنا ہو گا۔ اگر آئندہ انتخابات میں رئیل اسٹیٹ اور فیوڈل لارڈز کی اسمبلی میں اکثریت ہو گی تو ملک کا معاشی دلدل نکلنا مشکل ہو گا لہٰذا آئندہ چند ہفتے پاکستانی عوام کے لیے بہت اہم ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز کے اہم ترین سیشن “معیشت کی دلدل نکلنے کا راستہ” سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس پروگرام میں بنک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود اور معاشی تجزیہ نگار اورمصنف کاظم سعید نے بھی خطاب کیا جب کہ امبر رحیم شمسی نے میزبانی کی خدمات انجام دیں۔ فواد حسن فواد نے کہا کہ پرویز مشرف کا لوکل گورنمنٹ کا نظام اس ملک کی ترقی کے لیے بہت اہم تھا لیکن ہم نے آٹھارویں ترمیم میں اس شعبے کو صوبوں کے حوالے کر دیا یہ دیکھے بغیر کہ انہوں نے کیا کرناہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میںدلدل کی بنیادی وجہ آبادی میں اضافہ ہے، آبادی میں تین فیصد اضافہ کے ساتھ ہم معیشت کی دلدل سے نہیں نکل سکتے، تین فی صد آبادی میں اضافہ ترقی میں رکاوٹ ہے، دوسری چیز بیورو کریسی کا نظام ہے جو بوسیدہ ہو چکا، اس میں ریفارمز کی ضرورت ہے اور تیسری بات ٹیکسیشن کا نظام ہے۔ اگر ہم آٹھ فیصد ٹیکس ہی جمع کر لیں تو کافی حد تک بہتری ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ آدھا وقت سیاسی جماعتوں نے حکومت کی لیکن صرف ذوالفقار علی بھٹو کا معاشی منشور تھا، اس کے بعد حکومت میں آنے والی کسی سیاسی جماعت کا کوئی معاشی منشور نہیں رہا۔ آج بھی ہماری تینوں بڑی جماعتوں کے پاس کوئی معاشی منشور نہیں اگر لوگ معاشی منشور کے بغیر سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیں گے تو حکومت میں آنے کے بعد ان جماعتوں سے پوچھنا لوگوں کا حق نہیں رہ جاتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جتنے بھی لیڈر آئے وہ پاکستان کو دلدل سے نکالنے چاہتے تھے لیکن خوش گمانی اور چیز ہوتی ہے اور عملی کام کرنا اور بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی حکومت جو شرح نمو کی ترقی پر توجہ نہ دے وہ معیشت میں ترقی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے چین کا حوالہ دیا کہ 60 اور 70 کی دہائی میں کروڑوں لوگ غذا نہ ہونے کے باعث ہلاک ہو گئے تھے مگر انہوں نے ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ ایگریکلچر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر آئندہ انتخابات میں رئیل اسٹیٹ اور فیوڈل لارڈز کی اسمبلی میں اکثریت ہو گی تو ملک کا معاشی دلدل نکلنا مشکل ہو گا لہٰذا آئندہ چند ہفتے پاکستانی عوام کے لیے بہت اہم ہیں۔ بنک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم اس بات پر تیار ہو گئے کہ ’نظام ایسے ہی چلے گا‘ اس نظریے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ہمیں اس کو تبدیل کرنے کا سوچنا چاہیے ، انہوں نے کہا کہ جب تک اس کو تسلیم کر کے اس سے نکلنے کا پروگرام نہیں بناتے اس سے نہیں نکل سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس دلدل میں ہم ابھی پھنسے رہیں گے۔ کاظم سعید نے کہا کہ معیشت ترقی اور غربت کا خاتمہ شرح نمو میں ہے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ’’سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023ء ‘‘ کے آٹھویںاجلاس میںمعروف ادیبہ عارفہ سیدہ زہرا کے ساتھ خصوصی نشست کا انعقاد

اردو دنیا کی سب سے بڑی ملن ساز زبان ہے ،معروف ادیبہ عارفہ سیدہ زہرا

کراچی( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ’’سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023ء ‘‘ کے آٹھویںاجلاس میںمعروف ادیبہ عارفہ سیدہ زہرا کے ساتھ خصوصی نشست کا انعقادجون ایلیاء لان میں کیا گیا ۔ سیشن میںمیزبانی کے فرائض معروف صحافی ابصاقومل نے انجام دیے ۔ عارفہ سیدہ زہرا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوںکو میری بات اچھی لگتی ہے اس لئے میں ان کی ممنوں ہوں کیونکہ وہ مجھ میں ہیں اور میںان ہوں۔سیاست دان کاسچ ایک لمحے کا ہوتا ہے اور میرا سچ آدم کے زمانے سے شروع ہو اور پتہ نہیں کب ختم ہوگا۔ آپ معاشرے کو خوف زدہ کرکے خوموش تو کرواسکتے ہیں لیکن راستہ بدلنے پر مجبور نہیںکر سکتے ۔ یہ جو ہمارا معاشرہ کہتا ہے کہ ہم نے لڑکوں کو آزادی دی ہے اور لڑکیوں کو نہیں۔ تو یہ غلط کہتے ہیں کیونکہ ہم نے لڑکوں کو آزادی کے نام پر برباد کیا ہے جبکہ لڑکیوں کو غلامی کے نام پر آزاد کیا ہے ۔دونوں لفظوں کے معنی ہی بدل دیئے ہیں ۔انسان جب آزاد ہوتا ہے تب وہ اپنی عزت کے ساتھ ساتھ دوسروں کی عزت کا بھی خیال رکھتا ہے ۔انگریزی کا جملہ ہے آپ ہمیںچہرہ دکھائیں ہم آپ کو قانون دکھائیں گے ۔ وہ جو دنیا میں بہت سے لوگ پڑھے لکھے کہلاتے ہیں ان کو مکالمہ کہتے ہیں کمزور لوگ مکالمہ دیتے ہیں جبکہ مضبوط لوگ فتوہ دیتے ہیں، انسان کی تخلیق کا مقصد اخلاق اور تہذیب ہے ۔خاموشی عقلمند کا جواب ہے جہاں خاموشی نہیںہوتی وہاں سر پھرے لوگ موجود ہوتے ہیں ،انہوں نے مزید کہا کہ دور فن کی معمولی اور منافقت کی مثال یہ ہے کہ جب گھر پر مہمان آتے ہیں تو ہم کہتے ہیں آئیں بیٹھے لیکن پیچھے کمرے میں جاکر کہتے ہیں کہ یہ کیوں آئے ۔میری آنکھوں کے سامنے میری نسل برباد ہورہی ہے معاشرہ جو ان کو بولنے کو کہتا ہے تو وہ بولتے ہیں آٹھ سے اسی سال کے نوجوانوں سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ خوش رہنا سیکھے ، ڈھونڈنے سے خوشیاں ملتی ہیں بے مانگے تو دکھ ملتے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کا رہبربننا ہے ہم اپنی زندگی بسر نہیں کرتے ہیں ۔ہم دوسروں کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اس دور میں ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے لیکن بیچ میں ایک سکہ آتا ہے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو بھول جاتے ہیں زبانیں استعمال سے زندہ رہتی ہیں جب استعمال ختم ہو جاتا ہے تو زبانیں مر جاتی ہیں اور اردو دنیا کی سب سے بڑی ملن ساز زبان ہے ۔ادھار کی زبان بولنے والے خیال بھی ادھار کا رکھتے ہیں ادھار کی زندگی سود کی فکر میں گزرتی ہے ۔ نوجوان اپنا لیڈر خود ہے زندگی کامیابی کی قوت سے نہیں بلکہ احساس اور شعورسے آتی ہے اب تو زندگی کے بازار میں وفا بکنے لگی اور جب وفا بکنے لگ جاتی ہے تو آپ کی اور میرے ساتھ جفا نہیں ہوسکتی ۔عورت کا جسم ظلم زیادتی کے لئے نہیں ہے ۔ عورت کا جسم بھی عزت کے قابل ہے ۔ کسی مذہب نے عورت کے جسم کو برا نہیں کہا ۔سیاست دانوں کو سیاست کرنے دیں ۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ 16ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز چھ کتابوں کی رونمائی

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز چھ کتابوں کی رونمائی اور تعارف پیش کیا گیا، نجیبہ عارف نے مبین مرزا کی کتاب ” احوال و آثار” پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مصنف اپنے افسانوں میں تاریخ کے مختلف ادوار کو موضوع بناتے ہیں، انہوں نے کراچی میں گزرے سالوں کے دوران آنے والی تبدیلیوں پر بھی قلم اٹھایا ہے، ڈاکٹر یاسمین حمید کی تحریر کردہ کتاب ” ایک اور رخ ” کا تعارف ڈاکٹر رخسانہ صبا نے پیش کرتے ہوئے کہا کتاب کے ابتدائی مضامین میں اضطراب اور جستجو کا عنصر نمایاں ہے، اختر رضا سلیمی کے ناول ” لواخ ” پر معروف مصنف محمد حمید شاہد نے تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ مصنف نے اپنے ناول میں بالاکوٹ اور ہزارہ کے پہاڑی علاقوں میں ہونے تاریخی جنگی معرکوں کو موضوع تحریر بنایا ہے، ان کے ناول میں کردار اپنے اقدار کی پاسداری کرتے نظر آتے ہیں ، ناہید سلطان مرزا کے ناول ” تھر کی سرگوشی ” پر تعارف پیش کرتے ہوئے معروف ماہر معاشیات شبر زیدی نے کہا کہ کتاب میں تھر کی مظلوم عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے اور کاروکاری جیسے حساس موضوع کو زیر قلم لایا گیا ہے ، ناول میں تھر کی سماجی، مذہبی اور سیاسی زندگی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے، عابد رشید کے نعتیہ مجموعے ” بعد از خدا ” کا تعارف پیش کرتے ہوئے طاہر سلطانی نے بتایا کہ مصنف نے کتاب میں نعتیہ کلام کے علاوہ حمد باری تعالیٰ اور مناجات کو بھی شامل کیا ہے، نعتیہ کلام کی کمی کے باعث یہ مجموعہ نعت عمدہ اضافہ ہے ، برطانوی مصنف ورجینیا وولف کی کتاب ” مسز ڈیلووے” کے مترجم سعید نقوی کے ترجمے پر تعارف پیش کرتے ہوئے معروف شاعر افتخار عارف نے کہا کہ آج کل مشکل کتب کے ترجمے کرنے والوں میں اکثریت ناکام ادیبوں کی ہے جو دوران ترجمہ مشکل صفحات چھوڑ کر ترجمے کا حق ادا نہیں کر پاتے، مترجم سعید نقوی نے کتاب کا متن سہل بنانے کی کوئی ناکام کوشش نہیں کی اور ترجمے کا حق ادا کیا، نظامت کے فرائض یاسمین فاروقی نے انجام دیے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام 16ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز لندن اردو وائس کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام 16ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ’’پنجابی زبان و ادب کے مشاہیر‘‘ کے عنوان پر سیشن کا انعقاد کیاگیا جس میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان توقیر چغتائی نے کہا کہ امرتا پریتم کے حوالے سے بہت ساری باتیں فرضی کہی گئی ہیں جن لوگوں نے ان سے ملاقات نہیں کی اس کی زندگی پر پڑھا نہیں لکھنا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے امرتا پریتم کے ساتھ 14 ملاقاتیں کی۔ ثروت معین الدین نے کہا کہ استاد دامن نے آٹھ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔ انہوں نے ابتداء میں ہی مظلوم افراد کے مسائل پر شاعری شروع کی نہرو نے جب ان کا کلام سنا تو گرویدہ ہو گئے۔ ساری عمر ایک کمرے میں زندگی گزاری۔ ان کے کمرے میں فیض احمد فیض، حبیب جالب سمیت بڑے بڑے شاعر اور عالم حاضر ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ منیر نیازی معاشرے کی خرابیاں دیکھ کر کڑتے تھے۔ منیر نیازی کی نکی نظم ان کی پہچان بن گئی۔ انہوں نے کہا کہ نیلم احمد بشیر کی کہانیوں میں حقیقت پسندی اور موسیقی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن نے کہا کہ منشا یاد نے پنجابی میں کم لکھا، ان کا فکشن جدیدیت کے عروج کا زمانہ ہے، انہوں نے کہانی کو نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ نسرین انجم بھٹی پنجابی اور اردو کی اعلی درجہ کی شاعری تھیں۔ اس نے اپنے اندر کے درد کو شاعری میں شامل کیا اور مزاحمتی شاعرہ کے طور پر سامنے آئی۔۔جمیل احمد پال، نے کہا کہ افضل رونداوہ پاکستان کی دوسری نسل کے ادیب تھے۔ رندھاوا نے اردو میں بھی لکھا، تاہم انہوں نے ترجمہ بھی کئے۔ ان کے ناول بہت پسند کئے گئے۔۔ نیلم احمد بشیر نے کہا کہ پنجابی کا حق ہے کہ اس زبان میں کچھ لکھا جائے، اس زبان کو عام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پنجابی میں نے ادب شعوری طور پر لکھا۔ انہوں نے کہا کہ میری زندگی میں ادب و آرٹ کا بڑا دخل ہے اس لیے مجھے افسوس ہے کہ ہم کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023ء میں’’یارک شائر ادبی فورم ‘‘ کا اہتمام کیاگیا

کراچی ()آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ’’سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023ء‘‘ میں’’یارک شائر ادبی فورم ‘‘ پر سیشن کا انعقاد آڈیٹوریم IIمیں کیاگیا، یارک شائر ادبی فورم کی جانب سے معروف شاعر محسن اسرار کو اعترافِ کمال پر شیلڈ پیش کی جبکہ مقررین نے زید اللہ فہیم کی شاعری اور شخصیت پر سیرحاصل گفتگو کی،زید اللہ فہیم کی غیرموجودگی میں ان کا ایوارڈ پروفیسر خواجہ خورشید احمد نے موصول کیا، نظامت کے فرائض غزل انصاری نے انجام دیے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام 16ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز لندن اردو وائس کے عنوان سے سیشن کا

انعقاد
معروف شاعر افتخار عارف کی زیر صدارت شہبازخواجہ کی کتاب ’’گریز‘‘ کی رونمائی کی گئی
ایک انسان چاہے کسی خطے میں بھی مقیم ہو اس کا ادبی قداس کے کام کی مرہون منت ہوتا ہے،افتخار عارف

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے جاری چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ’’لندن اردو وائس‘‘ کے عنوان پر اجلاس منعقد ہوا جس میں دیار غیر میں مقیم شہباز خواجہ کی کتاب’’گریز‘‘ کی رونمائی کی گئی جس کی صدارت افتخار عارف نے کی جبکہ معروف صحافی مجاہد بریلوی، عارف وقاراور نجمہ عثمان نے اظہارِ خیال کیا، نظامت کے فرائض اکرم قائم خانی نے انجام دیے ،اس موقع پر صدر مجلس افتخارعارف نے کہاکہ شاعر اپنی زبان کا ہوتا ہے اسے کسی علاقے کے ساتھ منسوب کرنا غیر مناسب ہے۔ ایک انسان چاہے کسی خطے میں بھی مقیم ہو اس کا ادبی قداس کے کام کی مرہون منت ہوتا ہے۔ شہبازخواجہ کے فن کے بارے میں عارف وقار کا کہنا تھا کہ شہباز خواجہ نے مروجہ روایت کو چیلنج کیا اور بیرون ملک میں مقیم ہونے کی بنیاد پر کسی قسم کی رعایت حاصل کرنے کی بجائے اپنی شاعری کو ہی اپنا معیار بنایا۔انکا مزید کہنا تھا کہ ’’گریز‘‘ کا نام اصل میں رات بھرمیں شہرت سمیٹنے اور مشاعرے کی واہ واہ سے ’’گریز‘‘ کا نام ہے۔ اس موقع پر نجمہ عثمان نے شاعری سے مجمع پر ایک سحرطاری کئے رکھا۔تقریب میں موجود معروف صحافی مجاہد بریلوی کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا نے ہمارے میلے ٹھیلے ختم کردیئے ہیں۔ ساتھ ہی بریلوی نے شہباز خواجہ کو خراج تحسین پیش کیا کہ وطن سے دور دیار غیر میں بیٹھ کر زبان کی چاشنی سے بھرپور کتاب لکھنا شہباز خواجہ ہی کا خاصہ ہے۔ صاحب کتاب شہباز خواجہ نے تقریب سے خطاب کے دوران افتخار عارف کا شکریہ ادا کیا اور خود کو خوش نصیب کہا کہ انھیں شروع سے ہی افتخار عارف کی شفقت میسر رہی ہے۔شہباز خواجہ نے اس موقع پر اپنے اشعار بھی سامعین کے نذر کئے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ’’سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023ء ‘‘ کے دوسرے روز ’’اردو نظم کے مشاہیر‘‘ پر اجلاس کا انعقاد

موجودہ دور کے شعرا اور نقادوں نے ماضی کے عظیم شعرا کی زندگیوں اور ان کی تحریر کی گئی نظموں پر اجلاس میں تفصیلی روشنی ڈالی

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ’’ اردو نظم کے مشاہیر‘‘ کے عنوان سے سیشن منعقد کیا گیا جس میں موجودہ دور کے شعرا اور نقادوں نے ماضی کے عظیم شعرا کی زندگیوں اور ان کی تحریر کی گئی نظموں پر تفصیلی روشنی ڈالی، ماضی کے معروف شاعر میرا جی کی ادبی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے رخسانہ صبا کا کہنا تھا کہ میرا جی نے نا صرف خود یادگار نظمیں کہیں بلکہ مغربی نظموں کے تراجم کرکے قارئین کو مغربی نظم نگاری سے روشناس کرایا، نامور شاعر فیض احمد فیض کی شاعری اور نظم نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے انعام ندیم نے کہا کہ فیض ایسے انقلابی شاعر تھے جو زمانے کے دکھ درد کو نظم کی شکل میں بیان کرنے کا ہنر جانتے تھے، فیض کی شاعری رومان اور سماج دونوں موضوعات کا احاطہ کرتی ہے، وہ ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں، فہیم شناس کاظمی نے نظم کے بے مثال شاعر عزیز حامد مدنی کی ادبی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عزیز مدنی کی شعری نگاہ بہت دور تک تھی، وہ اردو کے اولین نقادوں میں شامل تھے، عہد رفتہ کے نامور شاعر اختر الایمان کی شاعری پر بات کرتے ہوئے فراست رضوی نے کہا کہ اختر الایمان شاعر کے ساتھ ساتھ ایوارڈ یافتہ مکالمہ نگار بھی تھے، ان کی تحریر کردہ نظموں میں وقت کا کردار اہم نظر آتا ہے جبکہ انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی نظمیں تحریر کیں ، معروف شاعرہ تنویر انجم نے ن ۔م راشد کی زندگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ راشد نے اردو شاعری میں لفظیات کا تصور پیش کیا، راشد کی شاعری کے کئی موضوعات پر تنقید بھی کی گئی، کئی شعرا نے راشد کے تصور عورت پر اعتراضات اٹھائے، نامور نقاد اورنگزیب نیازی نے ساحر لدھیانوی کی زندگی اور شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے تلخ تجربات اور واقعات کا عکس ساحر کی شاعری میں نمایاں نظر آتا ہے ، اس لیے مظلوم کی آواز ساحر کی شاعری کا بنیادی جزو رہا ہے ، معروف شعرا مجید امجد اور ساقی فاروقی کی شاعری پر ناصر عباس نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ساقی نے شاعری میں جدا راستہ اختیار کرتے ہوئے فرضی کرداروں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا جبکہ مجید امجد کی نظموں میں ہڑپہ اور وادی سندھ کی تہذیبوں کا ذکر نمایاں دکھائی دیتا ہے، معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے افضال احمد سید کا کہنا تھا کہ فہمیدہ ریاض کا شمار بلند پایہ شعرا میں کیا جاتا ہے، ضیا دور میں بھارت جلاوطنی کے دور میں انہوں نے بے مثال مزاحمتی نظمیں لکھیں، آخر میں صدر مجلس معروف شاعرہ کشور ناہید نے اردو نظم کے مشاہیرین کے ساتھ گزرے اپنے وقت کو یاد کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا، رخسانہ صبا نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023ء“ کے دوسرے روز ”اُردو ناول کے مشاہیر“کے عنوان سے پہلے اجلاس کا انعقاد

نوجوانوں کو پرانے سانچے کی پرواہ کیے بغیر کھل کر لکھنا چاہیے ، مرزا اطہر بیگ

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے مگر لباس اور آلات بدل جاتے ہیں،محمود شام

کراچی ()آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023ء“ کے دوسرے روز ”اُردو ناول کے مشاہیر“کے عنوان سے پہلا اجلاس منعقد کیاگیا جس کی صدارت مرزا اطہر بیگ نے کی ، اجلاس میں دنیائے ادب کے معروف ترین ناول نگاروں خالد اختر، بانو قدسیہ، عبداللہ حسین، شمس الرحمن فاروقی، قرة العین حیدراور شوکت صدیقی کی ناول نگاری اور شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی، اظہارِ خیال کرنے والی شخصیات میں کاشف رضا، اختر رضا سلیمی، ضیاءالحسن، محمد حمید شاہد، نجیبہ عارف اور محمود شام شامل تھے، صدارتی خطبہ میں مرزا اطہر بیگ نے کہاکہ پاپولر فکشن ریڈر کے ساتھ چلتا ہے جبکہ لٹریری فکشن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ قاری اس کے ساتھ چلے ، یہاں پر ہی وہ لمحہ آتا ہے کہ آپ لٹریری فکشن میں رہتے ہوئے بھی دلچسپی برقرار رکھیں، انہوں نے کہاکہ ناول اور اس کے قاری کے لیے اب تقاضے بدل رہے ہیں ،انہوں نے کہاکہ نئے نوجوان ناول نگاروں سے انہیں مایوسی ہوئی ہے کیونکہ وہ بچ بچانے کا راستہ اختیار کرتے ہوئے لکھ رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں کو کھل کر لکھنا چاہیے اور پرانے سانچے کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے، انہوں نے کہاکہ ناول لکھنا ایک صبر آزما کام ہے، نوجوان رائٹرز ناول لکھتے وقت آزادانہ رجحان پیدا کریں، اس موقع پر محمود شام نے شوکت صدیقی کے ناول ”خدا کی بستی“ پر گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ ناول کے لکھنے کے زمانے اور موجودہ دور تک کے درپیش حالات کو حقائق کی روشنی میں بیان کیاجسے شرکاءنے بہت پسند کیا اور بھرپور داد دی، محمود شام نے کہاکہ جس نے بھی ”خدا کی بستی“ کو بطور ڈرامہ پی ٹی وی پر دیکھا ہو یا جنہوں نے اسے کتابی صورت میں پڑھا ہو انہیں آج 2023ءکی ”خدا کی بستی“ سمجھنے میں آسانی ہوگی، ہمارے جسم آزاد ہوتے رہے ہیں مگر ذہن غلام ، انہوں نے کہاکہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے مگر لباس اور آلات بدل جاتے ہیں، جیتے جاگتے لوگوں کی ہمیں فکر کرنا چاہیے ، ان کے مسائل حل کرنا چاہیے نہ کہ انہیں جیتے جی مو ت کے منہ میں ڈال دیا جائے، انہوں نے کہاکہ ان کا شوکت صدیقی سے رابطہ اور ملاقاتیں رہی ہیں، محمد خالد اختر کی ناول نگاری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کاشف رضا نے کہاکہ خالد اختر نے یوں تو ادب کی مختلف اصناف پر کام کیا ہے مگر ان کا بنیادی حوالہ فکشن ہی ہے، انہوں نے اپنے ناولوں میں زندگی کے عنصر کو اہمیت دی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح زندگی کے واقعات کو فکشن میں لکھا جاسکتا ہے، انہوں نے کہاکہ زندگی کو دیکھنے کے دو زوایے ہیں اگر زندگی میں ایک جانب ٹریجڈی ہے تو دوسری جانب مسکراہٹ بھی ہے، خالد اختر مختلف اسالیب پر قادر تھے اور یہی ایک بڑے فکشن نگار کی خوبی بھی ہے، خالد اختر کا شمار بھی ان ہی فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، بانو قدسیہ پر گفتگو کرتے ہوئے اختر رضا سلیمی نے کہاکہ بانو قدسیہ 28نومبر 1928میں پیدا ہوئیں اور وہ آج بھی ہمارے دلوں کی دھڑکن ہیں کیونکہ جب تک کہانی کا کردار نہیں مرتا اس کا تخلیق کار زندہ رہتا ہے اسی لیے بانو قدسیہ کی کہانیوں کے کردار جب تک زندہ ہیں بانو قدسیہ بھی زندہ رہیں گی، انہوں نے کہاکہ ان کی کہانیوں کے رنگ ڈھنگ زندگی کے حقائق سے جڑے ہوئے ہیں، راجہ گدھ وہ شاہکار ناول ہے جس نے ایک پل کا کردار ادا کیا ہے اور ہمارے ادب کو سنجیدہ قاری فراہم کیے ہیں، ان کے ناول ”راجہ گدھ“ کے اسلوب میں ایسی کشش موجود ہے جو ایک بار شروع کرلے وہ اسے ختم کیے بغیر نہیں رہ سکے گا، عبداللہ حسین پر گفتگو کرتے ہوئے ضیاءالحسن نے کہاکہ عبداللہ حسین کا ناول اس وقت شائع ہوا جب شوکت صدیقی کے ناول ”خدا کی بستی“ اور قرة العین حیدر کا ناول ”آگ کا دریا“ شائع ہوچکا تھا، عبداللہ حسین نے آخری دنوں میں ”فریب“ کے نام سے بھی ایک ناول لکھا جب کہ اس سے قبل ان کے دیگر ناول بھی شائع ہوچکے تھے، ان کا ناول ”اداس نسلیں“ جس وقت لکھا گیا وہ انیس ویں صدی کا زمانہ تھا ان کے ناولوں میں ایک چیز مشترک تھی کہ ان کے یہاں دیہات کلچر نمایاں ہے، کردار کی باطنی کیفیت کو انہوں نے اپنے ناولوں میں جس طرح پیش کیا وہ بہت عمدہ ہے، شمس الرحمن فاروقی پر گفتگو کرتے ہوئے محمد حمید شاہدنے کہاکہ میں ہمیشہ ہی سے غیر معمولی تنقیدی صلاحیتوں کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی کا معترف رہاہوں، میں نے حسن عسکری کا ذکر شمس الرحمن فاروقی کی زبان سے بڑی محبت کے ساتھ سنا ہے، تنقیدی اثر بھی شمس الرحمن فاروقی نے حسن عسکری ہی سے لیا ہے، شمس الرحمن فاروقی بہت اچھے شاعر ہیں مگر جب انہوں نے افسانے لکھے وہ بھی بہت عمدہ اور نئے زاویے سے لکھے، ان کے یوں تو کئی ناول ہیں مگر ”کئی چاند تھے سرِآسماں“ بہت مقبول ہوا ، اگر حسن عسکری بھی یہ ناول پڑھتے تو بہت پسند کرتے ، اس ناول میں شمس الرحمن فاروقی نے جس طرح ماضی کوجوڑا ہے تو یہ ایک تہذیب کی کہانی بن گئی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ناول کو لکھنے سے قبل ہی انہوں نے یہ طے کررکھا تھا انہیں کہاں کہاں ٹھہرنا ہے اور کردار کو کیسے لے کر چلنا ہے، یہ ایک الگ مزاج کا ناول اور تہذیبی دستاویز ہے، قرة العین حیدر پر گفتگو کرتے ہوئے نجیبہ عارف نے کہاکہ اردو ناول کی تعریف ایسا باب ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا جدید ناول کا آغاز قرة العین حیدر سے شروع ہوا ، وہ بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار، مترجم ، بچوں کی کہانیاں لکھنے والی اور دیگر اصناف پر بھی کام کرتی رہیں ، وہ اردو کی ایک بڑی ادیب ہیں، قرة العین حیدر کا پہلا ناول جب میں نے پڑھا تو میں ایک ایسی زندگی سے آشنا ہوئی جو میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی، ناول کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو ایسی دنیا سے آشنا کرتی ہیں جو قاری سے دور ہوتی ہے اور یہ دنیا قاری کو کچھ خواب بھی دکھاتی ہے جس کی تعبیر کے لیے قاری جدوجہد کرتا ہے، انہوں نے کہاکہ سوزِجگر اور سوزِ دماغ کا حسین امتزاج قرة العین حیدر کو ایک نیا مزاج دیتا ہے، ان میں جذبہ بھی ہے اور فکر بھی، وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ زندگی صرف لمحہ موجود کا ہی نام نہیں ہے بلکہ ہم سے پہلے گزر جانے والی دنیا اور اس کی روایات اور باقیات آج تک ہماری زندگی میں موجود ہیں۔


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023ء“ کے تیسرے اجلاس میں ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ کے مصنف مرزا اطہر بیگ کے ساتھ خصوصی نشست

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023ء“ کے پہلے روز تیسرے اجلاس میں ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ کے مصنف مرزا اطہر بیگ کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیاگیا جس میں میزبانی کے فرائض اورنگزیب نیازی نے انجام دیے، جس میں آرٹس کونسل کی جانب سے بہترین ناول کا ایوارڈ حاصل کرنے والے مرزا اطہر بیگ نے تجرباتی ناول نگاری اور ڈرامہ نویسی سے ناول نویسی کی جانب اپنے سفر پر روشنی ڈالی، مرزا اطہر بیگ کا کہنا تھا کہ پاپولر ناول اور ناول نگاروں سے کوئی عناد نہیں تاہم روایتی انداز سے ہٹے ہوئے ناول ہی تجرباتی ناول کہلاتے ہیں ، مصنف نے بتایا کہ انہوں نے ڈرامہ نویسی کے دوران کردار سازی سے شناسائی حاصل کی جو ان کی ناول نویسی میں نہایت کار آمد ثابت ہوئی، مصنف نے بے جان اشیاءکو بھی کردار کی شکل میں ڈھال کر نئے تجربات بھی کیے، مرزا اطہر بیگ نے بتایا کہ ان کی چار کتابیں زیر تکمیل ہیں تاہم ایک ساتھ کئی کتابیں شروع کرنے کا تجربہ درست نا تھا ، ان کا ناول ” نازک ہے بہت کام“ جلد منظر عام پر آئے گا


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”سولہویں عالمی اردو کانفرنس“ 2023ءکا رنگا رنگ آغاز کردیاگیا

مشاہیر ادب کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،احمد شاہ کو صوبائی حکومت میں وزیر بنانے کا اعلان کرتاہوں، وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر

ہم نے اردو کانفرنس کو قومی ثقافتی کانفرنس کا رنگ دے دیا ہے، ہمارا فوکس نوجوان نسل ہے، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”سولہویں عالمی اردو کانفرنس“ 2023ءکا رنگا رنگ آغاز کردیاگیا، مہمانِ خصوصی نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کانفرنس کا افتتاح کیا، مجلس صدارت میں ادب کی نامور ترین شخصیات شامل تھیں، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، افتخار عارف ،زہرا نگاہ ،کشور ناہید،پیر زادہ قاسم رضاصدیقی،منور سعید، مرزا اطہر بیگ، اسد محمد خان ، نور الہدیٰ شاہ، قونصل جنرل یو اے ای بخیر عتیق الرمیثی، تحسین فراقی، ڈاکٹر عالیہ امام ، سہیل وڑائچ، اعجاز فاروقی، نجیبہ عارف، ثروت محی الدین، ہیرو جی کتاﺅکا،عارف وقار، اباسین یوسف زئی سمیت ادب و فنون سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ جبکہ نامور صحافی و دانشور غازی صلاح الدین نے کلیدی مقالہ پیش کیا، نظامت کے فرائض ہما میر نے انجام دیے، تقریب کے آغاز پر فلسطین میں جاری اسرائیل کی جارحیت کی مذمت میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، اس موقع پر تقریب کے مہمانِ خصوصی نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس(ر) مقبول باقر نے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کی ادب و ثقافت کے لیے کی جانے والی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں صوبائی حکومت میں وزیر بنانے کا اعلان کیا، وزیراعلیٰ سندھ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ادب، تہذیب اور ثقافت کے پرچار میں جن لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے، میرے لیے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ میں اہلِ علم و ادب کے درمیان موجود ہوں، احمد شاہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ادب کی آبیاری کی جائے تو اس کی خوشبو ہمیشہ مہکتی رہتی ہے، انہوں نے کہاکہ اعلیٰ ادب کا مطالعہ انسان کو ہمدرد اور نفیس بناتا ہے، مشاہیر ادب کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جہاں سماج ہے وہاں ادب ہے، ہم سب کو اپنی اعلیٰ شناخت کو برقرار رکھنا ہے اور اس کے لیے قلم ہی ہمارا ہتھیار ہے، آخری مورچہ ادب و فن ہی ہے، یہ عالمی اردو کانفرنس اب دنیا بھر میں ہماری پہچان بن گئی ہے، ادبی میلوں کے اس کامیاب انعقاد پر میں اس ادارے کے صدر احمد شاہ اور آرٹس کونسل کراچی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، انہوں نے کہاکہ مجھے خوشی ہے پہلے کی طرح اردو زبان کے ساتھ ساتھ دیگر علاقائی زبانوں کو بھی اس اردو کانفرنس میں شامل رکھا گیا ہے، انہوں نے کہاکہ معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ایسی ادبی محافل کا انعقاد ضروری ہے، انہوں نے مزید کہاکہ احمد شاہ کی قیادت میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کی آبیاری میں روشن کردار ادا کررہا ہے، قبل ازیں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اپنے استقبالیہ خطبے میں کہاکہ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے جمہوریت کے لیے بہت کام کیے میں انہیں خوش آمدید کہتاہوں، سولہ برس قبل جب یہ کام شروع کیا تو کئی نامور ادیبوں نے میرا بہت ساتھ دیا ، کانفرنس میں بیرون ملک سے بھی مندوبین کی بڑی تعداد آئی ہے ، مختلف علاقائی زبانوں میں ادب لکھنے والے بھی اردو کانفرنس میں شریک ہونے کراچی پہنچے ہیں ، ہمارے ادیبوں کا ادب کے ساتھ کمٹمنٹ ہے ، انہوں نے کہاکہ سکھر اور اطراف کے علاقوں میں بھی ہم نے سکھر کانفرنس کا انعقاد کامیابی کے ساتھ کیا، ہم نے اردو کانفرنس کو قومی ثقافتی کانفرنس کا رنگ دے دیا ہے ، انہوں نے مزید کہاکہ ہم نے اردو کانفرنس میں چھ علاقائی زبانیں شامل کیں جس پر اعتراضات بھی اٹھائے گئے، ادب سے تعلق رکھنے والے معروف افراد ہندوستان سے کانفرنس میں پاکستان آئے ، ہم نے نوجوانوں پر ہمیشہ فوکس کیا، یوتھ فیسٹیول متعارف کرایا ، سکھر میں ہمارے پروگرام میں ۵۹ فیصد نوجوان شامل تھے، احمد شاہ نے مزید کہاکہ ہمارے بزرگوں نے ہمیں کبھی مایوس ہونا نہیں سکھایا ، پاکستان اور امارات برادر اسلامی ملک ہیں ، امارات میں قائم دنیا کی بڑی لائبریری میں اردو کی کتب فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے ، ہم ایران کی طرز پر دار الترجمہ قائم کرنا چاہتے ہیں ، انہوں نے مزید کہاکہ زبان علم کی ضمانت نہیں ہے، پہلا سال ہے جس میں ضیا محی الدین موجود نہیں ، ادب سے تعلق رکھنے والی چھہتر عظیم شخصیات اب ہم میں نہیں ، ان کے لیے خصوصی سیشن رکھا گیا ہے، انہوں نے کہاکہ ڈیجیٹل میڈیا اُردو کانفرنس کی ترویج میں اہم کردار ادا کررہا ہے ، ہم پاکستان کے ساتھ بیرون ممالک میں بھی اردو کی ترویح کے لیے جارہے ہیں ، یو اے ای میں بھی اردو کے حوالے سے پروگرام کریں گے ، اس کانفرنس سے اردو زبان اور اس شہر کا اعتبار قائم ہوا، معرو ف دانشور و صحافی غازی صلاح الدین نے کلیدی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ کتاب ایک طرح سے الٰہ دین کا چراغ ہے اور اس چراغ کو ہر کوئی اپنی دسترس میں لے سکتا ہے، ہمیں اپنے ادب پر ناز ہونا چاہیے مگر ادب موجود ہو اور اس کو پڑھنے کے لیے لوگ کم ہوں تو پھر بات کیسے بنے گی اگر لکھنے والے دنیا کو بدل سکتے ہیں تو پڑھنے والے بھی دنیا کو بدل سکتے ہیں، انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس ادب کا ہتھیار موجود ہے جس کے ذریعے ہم نفرتوں کو ختم کرکے شائستگی اور محبت کو پروان چڑھا سکتے ہیں، ادب کا یہی ہتھیار ہر نوجوان کے پاس ہونا چاہیے، آخر میں اردو سمیت پانچ علاقائی زبانوں پر مبنی منتخب کتابوں کو مہمانِ خصوصی وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے انعامات بھی پیش کیے جن کتابوں کو ایوارڈز دیے گئے ان میں مرزا اطہر بیگ کی کتاب ”خفیف مخفی کی خواب بیتی‘ (اردو)، نورالامین یوسف زئی کی کتاب ”پشتون دانش“(پشتو)، جمیل احمد پال کی کتاب مینڈل دا قانون(پنجابی)، زبیدہ میتلو کی کتاب ”یارم یارم“ (سندھی)، محمد حفیظ خان کی کتاب ”مرداجیون دی“ (سرائیکی) اور غفور شاد کی کتاب ”من کسہے نہاں“ (بلوچی) شامل ہیں مذکورہ کتابوں پر ناصر عباس نیئر، اباسین یوسف زئی، ثروت محی الدین، نورالہدیٰ شاہ، نذیر لغاری اور وحید نور نے تعارف پیش کیے۔ اس موقع پر دیارِ غیر میں اردو ادب کے فروغ کے لیے کام کرنے پر سید سعید نقوی، باسط جلیلی اور اکرم قائم خانی کو شیلڈز بھی پیش کی گئیں

16 Almi Urdu conference by Art’s council of Pakistan Karachi kicks off with full swing.

Karachi—Under the auspices of the Arts Council of Pakistan Karachi, the four-day “16th Aalmi Urdu Conference 2023” has kicked off, bringing together literary luminaries. In a surprising announcement during the inaugural speech at the 16th Aalmi Urdu Conference, the Chief Minister of Sindh, Justice (R) Maqbool Baqar, declared Ahmed Shah, President of Pakistan Arts Council of Karachi, as the Provincial Minister. The inaugural ceremony was attended by notable figures in literature and arts, including Iftikhar Arif, Zehra Nigah, Kashif Nadeem, Pirzada Qasim Raza Siddiqui, Manzar Athar Baig, and others. President Arts Council Muhammad Ahmed Shah delivered the welcome address, while renowned journalist and scholar Ghazi Salahuddin presented a keynote article. The event was hosted by Huma Mir and The ceremony began with a minute of silence condemning Israel’s aggression in Palestine. During his address, the Chief minister highlighted the role of literature in fostering empathy and shared the joy of being among scholars and literary figures. While Ahmad Shah, in his welcome speech, emphasized the
enduring fragrance of literature and its power to make society compassionate. Shah stressed the need to maintain cultural identity and credited literature as a tool for that purpose. On this occasion, Chief Minister of Sindh Justice (Rtd.) Maqbool Baqar announced the appointment of President Arts Council Muhammad Ahmed Shah as a minister in the provincial government, acknowledging his services to literature and culture. Addressing the ceremony, the Chief Minister stated that those who have played a role in promoting literature, culture, and civilization have always become immortal. He expressed his honor to be present among scholars and literary figures, emphasizing the importance of literature in shaping a compassionate and precious society. He further added, “I am pleased that, like before, not only Urdu but also other regional languages have been included in this Urdu conference. Baqar also emphasized the need for organizing such literary events to create a shield of peace for society. They further stated that under the leadership of Ahmed Shah, the Arts Council of Pakistan Karachi is playing an
illuminating role in the promotion of knowledge, literature, and fine arts.”Previously, the President Arts Council, Muhammad Ahmed Shah, in his welcome address, expressed admiration for CM Baqir’s significant contributions to democracy. Shah also recalled the support he received from several prominent literary figures when the journey began sixteen years ago. The conference witnessed a large number of delegates from abroad, representing various regional languages and Urdu writers from different parts of the country. President Ahmed Shah highlighted the commitment of Pakistani writers to literature and
expressed satisfaction with their dedication. He mentioned the success of the Sukkur Conference and emphasized that the Urdu Conference has added a national and cultural dimension. President Ahmed Shah mentioned the inclusion of six regional languages in the Urdu Conference, acknowledging the raised concerns, and highlighted the participation of Indian literary figures in the conference as well. He also announced the success of the Sukkur Conference and the Youth Festival, where 59% of the participants were young individuals. He expressed pride in the commitment of Pakistani writers and their continuous
focus on literature. President Ahmed Shah appreciated the positive approach of the elders, stating that they never taught despair. He emphasized the brotherly relationship between Pakistan and the United Arab Emirates and discussed the responsibility that he undertook, of providing Urdu books in the UAE’s prominent library. In conclusion, President Ahmed Shah expressed gratitude for the support received and acknowledged the success of the literary endeavors in promoting Urdu language and culture.The program also paid tribute to literary figures, including the legendary Zia Mohyeddin. In the end, special guest Chief Minister Sindh, Justice (Rtd) Maqbool Baqir, presented awards to selected 5 regional language books, including Urdu. The awarded books included “Khafeef Mukhfi Ki Khuwab Beeti” by Mirza Athar Baig (Urdu), “Pashtoon Danish” by Noor-ul-Amin Yousafzai (Pashto), “Mendal Da Qanoon” by Jameel Ahmed Pal (Punjabi), “Yaram Yaram” by Zubaida Maitlo (Sindhi), “Marda Jivan Di” by Muhammad Hafeez Khan (Saraiki), and “Man Kishay Nihaan” by Ghafoor Shad (Balochi). The mentioned books were introduced by Naseer Abbas Nair, Abaseen Yousafzai, Sarwat Mahiuddin, Noor-ul-Huda Shah, Nazir Laghari, and Waheed Noor.On this occasion, shields were also presented to Saeed Naqvi, Basit Jalili, and Akram Qaimkhani for their work in promoting Urdu literature outside the country


20 March 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے معروف اداکارہ ماہرہ خان اور نامور ادیب انور مقصود کی خصوصی نشست کا اہتمام

آرٹس کونسل کراچی کی جانب سے ماہرہ خان کو کلچرل ایمبسیڈر آف پاکستان کے ایوارڈ سے نوازا گیا

 23کروڑ کی آبادی اگر ریاست مدینہ بن گئی تو 19کروڑ لوگوں کے ہاتھ کٹے ہوں گے،انور مقصود

 میری بچپن سے خواہش تھی کہ اداکارہ بنوں، شاہ رخ خان کے ساتھ کام کرنا میرا شروع سے خواب تھا، اداکارہ ماہرہ خان

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ”ایک شام ماہرہ خان کے نام“ تقریب کا انعقاد آڈیٹوریم Iمیں کیاگیا جس کی میزبانی معروف ادیب و دانشور انور مقصود نے کی، ہال میں موجود تمام لوگوں نے کھڑے ہوکر تالیاں بجاکر معروف مزاح نگار انور مقصود اور اداکارہ ماہرہ خان کا استقبال کیا، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ ماہرہ خان اور انور مقصود کو سب جانتے ہیں، ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج ماہرہ ہمارے درمیان موجود ہے، میں فضا اور نبیل کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا، انور مقصود نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ میں نے جب بھی کسی سے بات کی ہے تو وہ سیاست دان یا پھر فوجی تھا، آج پہلی بار ایک اداکارہ سے اس طرح بات کررہا ہوں، پاکستان ٹیلی ویژن کی اداکاروں کے لیے میں نے بہت لکھا ہے جن میں عظمیٰ گیلانی، خالدہ ریاست، ثمینہ احمد، ثانیہ سعید، روبینہ اشرف، بشریٰ انصاری، بدر خلیل شامل ہیں، اب تک میں نے کوئی کھیل ماہرہ کے لیے نہیں لکھا کیونکہ جب سے میں نے لکھنا بند کیا ہے، ماہرہ خان مشہور ہوگئی تھیں، معروف اداکارہ ماہرہ خان نے کہاکہ میری بچپن سے خواہش تھی کہ اداکارہ بنوں، میری نانی کو اس بات پر اعتراض تھا، مجھے وی جے بننے کی آفر ہوئی تو کہا کہ مجھے فلموں میں کام کرنا ہے، وی جے بننے کے لیے گھر والوں سے اجازت لی، شعیب منصور کی کال آئی تو یقین نہیں آیا کہ وہ فلم ”بول“ میں کام کی آفر کررہے ہیں، میں نے شعیب سے کہا کہ میرا ابھی بے بی ہوا ہے، جواب ملا کہ کوئی بات نہیں ہمارے زمانے میں بچے سیٹ پر ہوا کرتے تھے، پھر میں امی، ابو اور میرا بیٹا اذلان لاہور گئے ، اسکرپٹ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال میں ماہرہ خان نے کہاکہ آج کل اسکرپٹ بہت لمبے ہوتے ہیں جس پر انور مقصود نے کہاکہ میں نے جب ستارہ اور مہرالنسا لکھا اس میں زبردستی کا کوئی مکالمہ نہیں تھا،میں نے دس سال بعد ٹی وی کے لیے ایک پلے لکھا ہے، اس پلے کا نام ”پابندی“ ہے۔ ماہرہ خان نے کہاکہ اگر لڑکیاں فنانشل طور پر آزاد نہ ہوں تو بہت کچھ نہیں کر پاتیں، ہندوستان میں کام کرکے بہت اچھا لگا، شاہ رخ خان کے ساتھ کام کرنا میرا خواب تھا، انور مقصود نے پھر پوچھا کہ آپ اور شاہ رخ خان کی سوائے ناک کے کیا چیز ایک جیسی تھی، جس پر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا، ماہرہ خان نے ہنستے ہوئے کہاکہ مجھے بہت لوگوں نے بولا ناک کی سرجری کرالو، میں نے کہا کبھی نہیں، اگر ناک کٹوا دی تو کیا فائدہ۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے زندگی میں جو چیز سکھی وہ وقت پر آنا اور اپنا پورا ٹائم دینا ہے، میں نے ٹیلی فلم ”ایک ہے نگار“کو پروڈیوس بھی کیا، پیسے کے لیے مجھ سے پروڈکشن نہیں ہوتی، بہت سی کہانیاں ہم صرف مردوں کی دیکھتے ہیں، جنرل نگار کی کہانی ایک با ہمت خاتون کی کہانی ہے، انہوں نے بتایا کہ پرانے گانے سننا میرا شوق ہے، پاکستانی صوفی کلام ،رفیع اور گیتا دت کے گانے بہت پسندہےں، میں جب کالج گئی تو دو ڈی وی ڈیز میرے پاس تھیں، گرودت کی پیاسا اور آنگن ٹیڑھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ مولا جٹ میں اچھی پنجابی بولوں، انور مقصود نے کہاکہ میں نے آپ کی فلم ”مولا جٹ“ تین بار دیکھی اس میں مولا جٹ بہت شراب پیتا ہے اور رومانس کرتے ہوئے فواد خان بن جاتا تھا،سوشل میڈیا پر کچھ باتیں میری کہی ہوئی ہیں، باقی سب جھوٹ ہوتا ہے، ماہرہ خان نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ سیاست دان کوئی بھی آئے مگر ایماندار ہونا چاہیے، جس پر انور مقصود نے کہاکہ ایک ایماندار سب کو بے ایمان کرسکتا ہے، 23کروڑ کی آبادی ہے اگر ریاست مدینہ بن گئی تو 19کروڑ لوگوں کے ہاتھ کٹے ہوں گے، آخر میں صدر آرٹس کونسل محمد احمدشاہ آرٹس کونسل کراچی کی جانب سے ماہرہ خان کو کلچرل ایمبسیڈر آف پاکستان کا ایوارڈ دیاگیا، اس موقع پر معروف مصور شاہد رسام اور ایگزیکٹوڈائریکٹر دانیال عمر بھی ان کے ہمراہ تھے

Arts Council of Pakistan Karachi organized “An evening with Maira Khan” hosted by writer Anwar Maqsood

Arts Council Karachi honored Maira Khan with the Cultural Ambassador of Pakistan award

KARACHI ( ) “An Evening with Maira Khan” was organized by Arts Council of Pakistan Karachi in Auditorium I which was hosted by the famous writer and intellectual Anwar Maqsood. Maira Khan and host Anwar Maqsood had a heart-to-heart conversation on Sunday at the Arts Council of Pakistan. The evening was full of witty exchanges on politics, The Legend of Maula Jatt and the importance of financial independence for women in Pakistan. Welcoming Anwar Maqsood and actress Maira Khan, President Arts Council Muhammad Ahmed Shah said that everyone knows Maira Khan and Anwar Maqsood, it is a matter of happiness for us that today Maira is among us, I would like to thank Fiza and Nabeel. Without whom this would not have been possible, Anwar Maqsood started the conversation by saying that whenever I have spoken to anyone, he was a politician or a soldier, today is the first time I am speaking to an actress like this. I have written a lot for Tv actors including Uzma Geelani, Khaleda Riasat, Samina Ahmed, Sania Saeed, Rubina Ashraf, Bushra Ansari, Badar Khalil, till now I have not written any play for Maira because since I has stopped writing, Maira Khan became famous, famous actress Maira Khan said that I wanted to become an actress since childhood, my grandmother objected to this, when I was offered to be a VJ, she said that I want to work in films, I took permission from my family to become a VJ, when I got a call from Shoaib Mansoor, I did not believe that he would do the film “Bol”. I told Shoaib that I have just had a baby, I got the answer that there is no problem, in our time, babies used to be on the set, then I, mother, Abu and my son Azlan went to Lahore. Mahira Khan said that scripts are too long these days, to which Anwar Maqsood said that when I wrote Sitara and Mehr un Nisa, there was no forced dialogue in it. Mahira Khan said if girls are not financially independent then they can’t do much. It was great to work in India. It was my dream to work with Shah Rukh Khan. Anwar Maqsood then asked that you and Shah Rukh Khan have What was the same except the nose, on which the whole hall echoed with applause, Mahira Khan laughingly said that many people told me to get a nose surgery, I said never, what is the use if the nose is amputated. She said that what I learned in life is to come on time and give my full time. I also produced the telefilm “Ek Hai Nigar”. I don’t produce for money. Story of General Nagar is the story of a courageous woman, she said that listening to old songs is my hobby, I like songs of Pakistani Sufi Kalam, Rafi and Geeta Dutt, two DVDs when I went to college. I had, on Geeta Dut`s “Piasa”and “Aangan Terha”. I tried very hard to speak good Punjabi in Mola Jat, Anwar Maqsood said, I watched your movie “Mola Jat” thrice in which Mola Jatt drinks a lot and becomes Fawad Khan while romancing, on social media. Some things have been said by me, the rest are all lies, Mahira Khan expressed her desire and said that any politician should be honest, to which Anwar Maqsood said that an honest person can make everyone dishonest, 23 crores Population is, if the state becomes Madina, then 19 crore people will have their hands cut off. In the end, Mahira Khan was given the Cultural Ambassador of Pakistan award by the President of Arts Council Muhammad Ahmad Shah


19 March 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے نیو کراچی میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ڈسٹرکٹ سینٹرل کا افتتاح کردیا

ملک کو آگے لے کر بڑھنا ہے تو اختلافات ختم کرنے ہوں گے،گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری

یہ اہل ادنش کی جگہ ہے اور میں ان کی خدمت کرنے آیا ہوں، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

رمضان میں شاندار قوالی اور عید پر زبردست فیملی فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے گا، صدر آرٹس کونسل

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی (ڈسٹرکٹ سینٹرل) جناح کلچرل کمپلیکس کا شاندار افتتاح گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اور اراکین گورننگ باڈی کے ہمراہ کردیا، نیو کراچی میں قائم جناح کلچرل کمپلیکس باقاعدہ طور پر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے حوالے کر دیا گیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ڈسٹرکٹ سینٹرل کی افتتاحی تقریب میں سیکریٹری آرٹس کونسل اعجاز فاروقی،نائب صدر منور سعید،اراکین گورننگ باڈی، سیاسی رہنما اظہار الحسن، خانزادہ، ادبی شخصیت پیرزادہ قاسم رضا صدیقی سمیت مختلف سماجی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہاکہ نیو کراچی میں نامی گرامی ادبی و علمی شخصیات رہتی ہیں، 75 سال بعد اس عمر میں انہیں یہاں پروگرامز دیکھنے کا موقع ملے گا، ایسی کئی عمارتیں شہر میں ویران پڑی ہیں،احمد شاہ ایک پروفیشنل آدمی ہے جس نے آرٹس کونسل جیسے ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دکھایا،ہم کب تک ایک دوسرے کو نیچا دکھائیں گے، اب صرف نام ہی بچا ہے کام تو کوئی کرنے کو تیار نہیں، کسی بھی چیز میں توازن نہیں ہے، ہمارا نظام تعلیم کا دوہرا معیار ہے، پاکستان کی معیشت اورمعاشرہ زوال پذیرہے، معاشرے میں توازن نہیں، نظام تعلیم کافرق انتہاکو پہنچ چکا ،انہوں نے کہاکہ ملک کو آگے لے کر بڑھنا ہے تو اختلافات کے دائرے کو توڑنا پڑے گا،صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے استقبالیہ خطبہ میں کہاکہ آج محبتوں کی صبح کا آغاز ہے، میں کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ کلچر کا آدمی ہوں، انہوں نے کہاکہ ڈسٹرکٹ سینٹرل کی آبادی بھی کئی ملکوں سے زیادہ ہے، نارتھ ناظم آباد کو دارالخلافہ بننا تھا، ہم اور ہمارے حکمرانوں سے غلطیاں ہوئیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں ایک مرکز پر جمع ہونا چاہیے، انہوں نے کہاکہ ہم اس عمارت کے مالک ہیں نہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے، ہمیں ایک معاہدے کے تحت چلانے کے لیے دیاگیاہے، گزشتہ بیس برسوں میں جو کام کیا وہ سب نے دیکھا ہے، مجھے یہاں آنے میں بہت مسائل کا سامنا تھا،یہاں کچرے کے ڈھیرے لگے ہوئے تھے مگر محکمہ سندھ کی گرانٹ اور ڈی سی سینٹرل طحہٰ سلیم کی کاوشوں سے ہم کامیاب ہوگئے، انہوں نے کہاکہ بہت مشکل ہو گیا کہ روز روز کی تقاریب میں اتنی دور جایا جائے، یہ اہل ادنش کی جگہ ہے اور میں ان کی خدمت کرنے آیا ہوں، نیوکراچی میں ہمارے بہت سے ممبر رہتے ہیں، لائبریریوں کی حالت بہت بری ہے، ہمارے ساتھ ہمارے بزرگوں نے مل کر کام کیا جو اب اس دنیا میں نہیں،انہوں نے کہاکہ جب کراچی میں ساتھ رہنا ہے تو کیوں نہ محبت سے مل جل کر رہیں، یہاں فوڈ میلے منعقد کریں گے، خواتین کھانا پکاکر فوڈ اسٹال لگائیں، بچوں کے لیے میلے سجائیں گے، انہوں نے اعلان کرتے ہوئے کہاکہ رمضان میں شاندار قوالی اور عید پر زبردست فیملی فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے گا، خواجہ اظہار الحسن نے کہاکہ اس جگہ کی ایک تاریخ ہے، اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی، نیو کراچی کے لوگوں کا مزاج الگ ہے، خدا خدا کر کے اس عمارت کی تعمیر ممکن ہوئی، یہاں کے اسکولوں کے بچوں کے لیے فری پروگرامز رکھے جائیں، ثقافت پوری دنیا میں ایک بڑا شعبہ ہے، آپ پوری دنیا میں نام کما رہے ہیں، یہ اچھی بات ہے، انہوں نے کہاکہ کوئی شخص بھی سیاست سے دور نہیں ہے، سیاست ایک عبادت ہے، نیو کراچی میں نیو کراچی کے لوگوں کو موقع دیا جائے، پیر زادہ قاسم رضا صدیقی نے کہاکہ مجھے یہاں کے ہنگامے میں سکون اور بے اطمینانی میں اطمینان نظر آتا ہے، احمد شاہ جو عالمگیر سطح پر کام کررہے ہیں وہ بہت عمدہ ہے، انہوں نے کہاکہ اس عمارت میں جو پروگرامز ہوں گے وہ یادگار ہوں گے، پاکستان بنا تو شہر کراچی میں سرکاری دفتر، غیر سرکاری دفتر تھے، گنجائش نہیں تھی تو جہانگیر روڈ اور مارٹن روڈ بنی، لسبیلہ اور لیاقت آباد پر کوئی پل نہیں تھا، انہوں نے کہاکہ آج گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے سب کے دل جیت لیے ہیں،میں ہمیشہ احمد شاہ کے ساتھ ہوں ۔ڈی سی طحہٰ سلیم نے کہاکہ آج تاریخی دن ہے، ہم ادیب و فنکار کو عزت دیے بنا آگے نہیں بڑھ سکتے، ہم CSSکی تعلیم مفت دے رہیں ہیں، صوفی میوزک اکیڈمی قائم کرچکے ہیں بہت جلد لائبریوں کی بحالی پر کام شروع کیاجائے انہوں نے کہاکہ نیو کراچی کے عوام کے لیے جناح کلچرل کمپلیکس بہترین جگہ ہے

Arts Council of Pakistan Karachi has crossed another milestone Arts Council of Pakistan Karachi inaugurated the Arts Council of Pakistan Karachi District Central in New Karachi

If we want to move the country forward, we have to end the differences, Sindh Governor Kamran Khan Tessori

This is the place of the people of Intellectual  and I have come to serve them, President Arts Council Muhammad Ahmed Shah

KARACHI () Arts Council of Pakistan Karachi has crossed another milestone, Arts Council of Pakistan Karachi (District Central) Jinnah Cultural Complex was grandly inaugurated by Governor Sindh Kamran Tessori along with President Arts Council Muhammad Ahmad Shah and members of the governing body. Jinnah Cultural Complex located in New Karachi was formally handed over to the Arts Council of Pakistan Karachi. In the opening ceremony of Arts Council of Pakistan Karachi District Central, Secretary Arts Council Ijaz Farooqui, Vice President Munawar Saeed, members of governing body, political leader Khawaja  Izhar ul Hasan, Khanzada, literary personality Pirzada Qasim Raza Siddiqui and various social and literary personalities participated. Governor sindh Kamran Tessori said that famous literary and intellectual personalities live in New Karachi, after 75 years at this age they will get a chance to watch programs here, many such buildings are abandoned in the city, Ahmed Shah is a professional man who He showed an institution like Arts Council standing on its feet, how long will we humiliate each other, now only the name is left, no one is ready to do the work, there is no balance in anything, our education system is double standard. Yes, the economy and society of Pakistan is declining, there is no balance in the society, the difference in the education system has reached the extreme, he said that if the country wants to move forward, the circle of differences will have to be broken, President of the Arts Council Muhammad Ahmad Shah in his welcome speech. said that today is the beginning of the dawn of love, I am not a person of any party but of culture, he said that the population of District Central is more than many countries, North Nazimabad was supposed to be the capital, we and our rulers made mistakes. But now the time has come that we should gather at one center, he said, “We own this building , we have been given to run under a contract, everyone has seen the work done in the last twenty years, I faced many problems in coming here, there were piles of garbage here but the Sindh Department. With the efforts of Grant and DC Central Taha Saleem, we succeeded, he said, “It has become very difficult to go so far for daily functions. This is the place of intellectual and I have come to serve them. In New Karachi, our Many members live, the condition of the libraries is very bad, our elders worked together with us, who are no longer in this world, they said, when you have to live together in Karachi, why not live together with love, women will cook food and set up food stalls, we   will decorate fairs for children, he announced that a wonderful Qawwali will be organized in Ramadan and a great family festival will be organized on Eid.Political Leader Khawaja Izhar ul Hassan said that  There is a history, an attempt was made to occupy it, the mood of the people of New Karachi is different, God made it possible to build this building. culture is a big sector all over the world, you are earning a name all over the world, this is a good thing, he said that no one is far from politics, politics is a worship, The people of New Karachi should be given a chance .Pirzada Qasim Raza Siddiqui said, “I see peace in the turmoil here and satisfaction in the discontent. Ahmed Shah who is working at the global level is very good,” he said. The programs that will be held in the building will be memorable. Governor Sindh Kamran Khan Tessori has won everyone’s hearts, I am always with Ahmed Shah. DC Taha Saleem said that today is a historic day, we cannot move forward without honoring writers and artists, we should give free CSS education. He said that Jinnah Cultural Complex is the best place for the people of New Karachi


17 March 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام پاکستان بھر کے معروف مصوروں کے فن کاروں پر مبنی ”نیشنل آرٹ ایگزیبیشن“ کا انعقاد

گزشتہ سالوں میں جب سے شاعر دانشور اور مصور خاموش ہوئے ملک میں معاشرتی برائیوں نے جنم لیا،گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری

نیشنل آرٹ ایگزیبیشن کا بنیادی مقصد پاکستان ہے، شاعروں، مصوروں اور ادیبوں کا فرض ہے کہ فیڈریشن کو مضبوط کریں،صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور نیشنل آرٹسٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے تعاون سے نیشنل آرٹ ایگزیبیشن کا انعقاداحمد پرویز آرٹ گیلری ،احمد شاہ بلڈنگ میں کیاگیا، ایگزیبیشن کا افتتاح گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کے ہمراہ کیا، نیشنل آرٹ ایگزیبیشن میں انور مقصود، اعجاز الحسن ،ذوالفقار زلفی،فرخ شہاب،اے ایس رند،معین فاروقی ،شاہد رسام،عباس کمانگر کے علاوہ پاکستان بھر کے نامور مصوروں کے فن پارے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مصور ماضی اور مستقبل کی عکاسی کرتا ہے، نیشنل آرٹ ایگزیبیشن کا انعقاد خوش آئند بات ہے، دانشور، مصور اور شاعر ہم سب سے زیادہ جانتا ہے، ایسے مصوروں کو آگے لانا چاہیے،اس ملک میں گزشتہ سالوں میں جب سے شاعر دانشور اور مصور خاموش ہوئے ملک میں معاشرتی برائیوں نے جنم لیا، ان تین طبقوں کو پیچھے چھوڑا تو پاکستان کہاں کھڑا ہے تینوں شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو میں ذہین ترین دماغ سمجھتا ہوں، یہ سب پاکستان اور پاکستان سے باہر رہتے ہوئے مل جل کر کام کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہاکہ جب آپ اچھا کام کرتے اورلوگوں کو آپس میں ملاتے ہیں اسی لیے لوگ آپ کو منتخب کرتے ہیں، یہ فن احمد شاہ کے پاس ہے، انہوں نے کہاکہ آرٹسٹ جو بھی تصاویر بنائیں اس میں پاکستان کے حال اور مستقبل کو ضرور دکھائیں،انہوں نے کہاکہ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ معاشی حالات ٹھیک کرنے کا ہے، ہم قدرتی وسائل موجود ہونے کے باوجود ہاتھ پھیلا رہے ہیں، پچھتر سالوں میں ہمارے حکمرانوں وڈیروں نے اپنے لیے سب کچھ بنالیا، بچا کچھا پاکستان قرض اتارنے میں مصروف ہے، ہمیں اپنی خاموشی کوتوڑنا ہوگا، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نیشنل آرٹ ایگزیبیشن کا بنیادی مقصد پاکستان ہے، جو اب سیاسی، لسانی اور مذہبی طور پر تقسیم ہوچکا ہے، ہمارے آباو ¿ اجداد نے یہ ملک بڑی محنت سے مل کر بنایا ہے، یہ شاعروں، مصوروں اور ادیبوں کا فرض ہے کہ فیڈریشن کو مضبوط کریں، آرٹس کونسل نے لاہور میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کیا، ہمارا پنجاب والوں نے شاندار استقبال کیا، انہوں نے کہاکہ ملک میں جعلی نفرتیں پھیلائی گئی ہیں، کچھ اندرونی وبیرونی طاقتیں ہمیں توڑ نا چاہتی ہیں، جب اس شہر میں روز قتل و غارت ہوتی تھی تب ہم نے دانشوروں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے، ہم پاکستان اور فنون لطیفہ کو سیلیبریٹ کر رہے ہیں، ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف الرحمن نے کہاکہ پاکستان کی فن مصوری میں نامور لوگ گزرے ہیں، تمام مصوروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، آرٹ ایگزیبیشن کا قومی سطح پر انعقاد کرنا بہت بڑی بات ہے، عوام کو ان مصوروں کا کام دیکھنا چاہیے اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، معروف مصور فرخ شہاب نے استقبالیہ خطبہ میں کہاکہ نیشنل آرٹ ایگزیبیشن کا انعقاد پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں پاکستان کے تمام آرٹسٹ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں میں انہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔ فن مصوری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے نمائش میں شرکت کی، نیشنل آرٹ ایگزیبیشن 19مارچ تک جاری رہے گی

Artscouncil of Pakistan Karachi organized “National Art Exhibition” by Famous Painters of Pakistan

Karachi ( ) National Art Exhibition 2023 was organized in Ahmed Parvez Art Gallery, Ahmed Shah Building in collaboration with Arts Council of Pakistan Karachi and National Artists Association of Pakistan. In the Exhibition, the artworks of Anwar Maqsood, Ijaz ul Hassan, Zulfiqar Zulfi, Farrukh Shahab, A.S Rand, Moin Farooqui, Shahid Rasam, Abbas Kamangar and other famous artists from all over Pakistan have been exhibited. Exhibition was inaugurated by Governor sindh Kamran Tessori. Addressing to the exhibition Governor sindh said that the painter reflects the past and the future, organizing the National Art Exhibition is a welcome thing, such painters should be brought forward, in this country in the past years when Poets, intellectuals and painters have been silenced, social evils have been born in the country, leaving these three classes behind, where does Pakistan stand? He said when you do a good job and you bring people together, that’s why people choose you, this art is with Ahmed Shah. We are extending our hands despite the presence of natural resources, in seventy-five years, our rulers have created everything for themselves, Pakistan is busy paying off debt, we have to break our silence, President Arts council Mohammad Ahmed Shah Speaking at the opening ceremony, said that the main objective of the National Art Exhibition is Pakistan, which is now politically, linguistically and religiously divided. It is the duty of poets, painters and writers to strengthen the federation, Arts Council organized the Pakistan Literature Festival in Lahore, we were warmly welcomed by the people of Punjab, he said that fake hatred has been spread in the country, some internal and external forces are trying to break us. When there were daily killings in this city, then we gathered the intellectuals in one place. We are celebrating Pakistan and art, Administrator Karachi Dr. Saifur Rahman said that famous people have passed away in Pakistan’s art and painting, I congratulate all the artists, organizing art exhibition at the national level. It is a great thing to do, people should see the work of these painters, it gives them an opportunity to learn a lot, famous artist Farrukh Shahab said in his welcome speech that he thanked President Arts Council Muhammad Ahmad Shah for organizing the National Art Exhibition. All artists of Pakistan are gathered on one platform, I welcome them. A large number of people related to art and painting participated in the exhibition, the National Art Exhibition will continue till March 19


11 March 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چوتھی وومن کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی

وومن کانفرنس کا اختتام شیما کرمانی کے ڈانس اور ایکما دی بینڈ کی شاندار میوزیکل پرفارمنس پر ہوا

کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چوتھی وومن کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی، کانفرنس میں خواتین کی اپنے حقوق کی جدوجہد، مسائل اور معاشرے میں درپیش مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے مختلف سیشن رکھے گئے، چوتھی وومن کانفرنس کے دوسرے روز ”محنت کش خواتین: جدوجہد اور کامیابی“ ، ”خواتین کی تعلیم“،”پاکستان میں خواتین کی تحریکیں: کامیابیاں اور چیلنجز“، ”خواتین کی صحت(پیداواری حقوق اور مسائل، دماغی صحت اور تندرستی)“، ”خواتین میں میڈیا کا کردار “ کے عنوان پر سیشن شامل تھے، وومن کانفرنس کا اختتام شیما کرمانی کے ڈانس اور ایکما دی بینڈ کی شاندار میوزیکل پرفارمنس پر ہوا۔ چوتھی وومن کانفرنس کے دوسرے روز ”خواتین کی تعلیم“ پر منعقدہ سیشن کی صدارت زبیدہ مصطفی نے کی، ناہید شاہ درانی، ڈاکٹر جعفر احمد، ڈاکٹر طارق رفیع، صادقہ صلاح الدین، ذکیہ سرور، اعجاز فاروقی نے موضوع سے متعلق گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض فوزیہ خان نے کی۔ زبیدہ مصطفی نے کہاکہ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ بچے کو کیا چاہیے، ہمیں تعلیمی نظام کو ایسا بنانا ہوگا کہ بچہ اس میں خود دلچسپی لے کیونکہ جب تک ہماری دلچسپی نہیں ہوگی تو ہم کچھ نہیں بن سکتے، ہم اپنی مرضی کسی پر زبردستی مسلط نہیں کرسکتے، شروع سے ہی ہمیں اچھی کتابیں فراہم کرنی چاہئیں اور ہمیں اپنی زبان میں تعلیم دینی چاہیے تاکہ آسانی سے سمجھ آسکے۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے کہاکہ آج کل میں اسکول اور کالجز میں پڑھنے اور پڑھانے کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے، اساتذہ کہتے ہیں ہماری تنخواہ کم ہے اس میں ہم اپنا گھر نہیں چلا سکتے، امتحان سے دو اور چار ماہ پہلے ٹیوشن میں پیکیجز دیے جاتے ہیں ، انہوں نے کہاکہ اب تو ٹیوشن میں لیبارٹریز بن گئی ہیں ، میر ا خیا ل ہے کہ ہمیں اس چیز پر غور کرنا چا ہیے ، ٹیوشن سینٹرز میں پڑھانا ضروری ہے ، اس کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے اور ہمیں نکالنا چاہیے ، صادقہ صلاح الدین نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں یکساں نظام تعلیم رائج کرنا چاہیے، اسکولوں کا برا حال ہے، مجھے لگتا ہے کہ اب آپ ایمرجنسیز کی ایجوکیشن شروع کردیں، ٹیمپریری لرننگ سینٹر بہت اچھی چیز ہے مگر یہ بچوں کے کھلونے کی طرح ہیں، بچیوں کی تعلیم کی کہانی بہت دُکھ بھری ہے،سیلاب زدگان کے لیے جو خیمے لگائے گئے ان میں جو بچے پڑھنے آتے تھے ان کی دلچسپی دیکھنے کے قابل ہوتی تھی، ہمیں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پڑھا لکھا معاشرہ تشکیل پا سکے۔پروفیسر ذکیہ سرور نے کہاکہ بہت سی عورتوں کی کالج اور اسکول جانے کی تمنا پوری نہیں ہوسکی، ہمارا سماج بہت برا ہے، ہماری حکومت کو تعلیمی میدان میں اہم کردار کرنا ہوگا ، تعلیم یافتہ اساتذہ کو بھرتی کریں تاکہ تعلیم کا معیار بہتر ہوسکے، عورت کو معاشرے میں اس کا مقام دینا چاہیے ۔ناہید شاہ درانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں 75سال کی جدوجہد کے بعد بھی یہ صورت حال ہے کہ تقریباً40فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں، ساﺅتھ کوریا، سنگاپور، تائیوان، ہانگ کانگ اور چائنا نے غربت کے باوجود 40 سال میں تعلیم پر بہت توجہ دی اور نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے، پنجاب اور کے پی کے میں تعلیم پر توجہ دی جارہی ہے، ہم بچیوں کوپڑھانے پر سنجیدہ نہیں ہیں، ہمیں والدین کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا، ہمیں نظام تعلیم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ڈاکٹر طارق رفیع نے کہاکہ تعلیمی میدان میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے، 70فیصد بچے اسکالر شپ لیتے ہیں، جو داخلے ہوتے ہیں ان میں 60فیصد طبقہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے، لڑکیاں پڑھنے میں دلچسپی لیتی ہیں ، ہماری حکومت کو نوکریوں کے حوالے سے بنائی گئی پالیسی میں ردوبدل کرنے کی ضرورت ہے ، کراچی میں بھی بوائز میڈیکل کالج بنایا جارہا ہے، انہوں نے کہاکہ ایک لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا معاشرے میں مثبت تبدیلی پیدا کرتا ہے،اعجاز فاروقی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے سینٹ اور اسمبلیوں میں اَن پڑھ لوگ آئیں گے تو تعلیم کا معیار بہتر نہیں ہوسکتا، ہمیں اپنے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا، حکومت کو تعلیم کی بہتری کے لیے سخت قانون بنانے چاہیے تاکہ پاکستان کا مستقبل سنور سکے۔

4th Women’s Conference organized by Arts Council of Pakistan Karachi has concluded

Karachi ( ) 4th Women’s Conference organized by the Arts Council of Pakistan Karachi has ended with a splash. In the conference, various sessions were held regarding the struggle of women for their rights, problems and problems faced in the society and their solutions. On second day of women conference session “Working Women: Struggle and Achievements”, “Women Education”, “Women’s Movements in Pakistan: Achievements and Challenges”, “Women’s Health (Reproductive Rights and Issues, Mental Health and Wellness)”, “Women in Featuring sessions on “Role of Media”, were held. Women’s conference concluded with a dance performance by Sheema Kermani and a spectacular musical performance by ACMA The Band. On the second day of the 4th Women’s Conference, the session on “Women’s Education” was presided over by Zubaida Mustafa, Naheed Shah Durrani, Dr. Jafar Ahmed, Dr. Tariq Rafi, Sadiqa Salahuddin, Zakia Sarwar, Ijaz Farooqui discussed the topic while Fouzia Khan perform the duties of moderator. Zubaida Mustafa said that we need to think about what the child needs, we need to make the education system so that the child takes an interest. From the beginning we should provide good books and we should teach in our own language so that it can be easily understood. Dr. Jafar Ahmed said that nowadays the trend of studying and teaching in schools and colleges is decreasing, teachers say that our salary is low and we cannot run our house, tuition packages are given two and four months before the exam. she said that now laboratories have been built in tuition, I think we should consider this matter, it is necessary to teach in tuition centers, there may be a way out of it and we should take it out, Sadiqa Salahuddin said that we should introduce a uniform education system, schools are in a bad condition, I think you should start emergency education now for girls. The story of education is very sad, in the tents that were set up for the flood victims, the interest of the children who came to study could be seen, we need to improve the education system to create a literate society. Prof. Zakia Sarwar said that the desire of many women to go to college and school could not be fulfilled, our society is very bad, our government have to play an important role in the field of education, recruit educated teachers so that the quality of education can be improved, women should be given their place in the society. Naheed Shah Durrani while talking said that even after 75 years of struggle in Pakistan, this situation is still there. Currently, almost 40% of children are out of school, South Korea, Singapore, Taiwan, Hong Kong and China have paid much attention to education in spite of poverty in 40 years and the result is in front of you today, we are not serious about educating girls, we have to gain the trust of parents, we need to improve the education system. Dr. Tariq Rafi said that the number of women in the education field is very high, 70% of children get scholarship. Yes, 60% of those admitted belong to the middle class, girls are interested in studying, our government needs to change the policy made regarding jobs, a boy’s medical college is also being built in Karachi. He said that a girl being educated creates a positive change in the society, Ijaz Farooqui said that if uneducated people come to our Senate and Assemblies, the quality of education will not improve. We have to change our mindset


11 March 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چوتھی وومن کانفرنس کے دوسرے روز کا آغاز پہلے سیشن ”محنت کش خواتین: جدوجہد اور کامیابی“ سے ہوا

پاکستان کی محنت کش خواتین پر فخر ہے، ان کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی، کرامت علی

خواتین معاشرے کا پلر ہیں ، پاکستان کی عورت کسی سے کم نہیں،بشریٰ آرائیں

کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چوتھی وومن کانفرنس کے دوسرے روز کا آغاز ”محنت کش خواتین: جدوجہد اور کامیابی“ کے موضوع پر رکھے گئے سیشن سے ہوا، جس میںکرامت علی، فرحت پروین، بشریٰ آرائیں اور زہرہ اکبر خان نے موضوع سے متعلق گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض مہناز رحمن نے انجام دیے۔ کرامت علی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ان محنت کش خواتین کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے مشکل حالات میں بھی کام کیا، پاکستان کی محنت کش خواتین پر فخر ہے، ان کا کام دیکھ کر میری ہمت بڑھ جاتی ہے، مجھے یقین ہے خواتین کی جدو جہد ضرور رنگ لائے گی اور ہم انسانی معاشرے بنانے میں کا میاب ہوں گے، ہر مذہب اور کلچر میں تمام انسان برابر ہیں لیکن انسانی زندگی ،انسانی محنت ، مشقت اور پیداوار میں سب سے زیادہ حصہ خواتین کا ہے ، ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ عورت ہے یا مرد بلکہ بطور انسان مسائل کو حل نکالنا ہوگا تاکہ معاشرے میں تبدیلی آسکے، فرحت پروین نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ عورتوں اور مردوں کو برابر حقوق ملنے چاہئیں، کراچی میں آج بھی خواتین کو آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا، وہ اپنے نام پر کسی گھر کی مالک نہیں بن سکتیں، عورتوں کا مردوں سے کوئی جھگڑا نہیں، ہمیں مل کر مسائل کا سامنا کرنا ہوگا، محنت کش خواتین کو باہر کام کرنے کے بعد بھی گھر کے کام کرنے پڑتے ہیں، گھر سے باہر نکل کر کام کرنا عورت کی کامیابی نہیں، خواتین کو خود مختار ہونے کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا،بشری آرائیں نے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ خواتین معاشرے کا پلر ہیں ، پاکستان کی عورت کسی سے کم نہیںہے ، خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہیں اگر وہ چاہیں تو معاشرہ بدل سکتی ہیں، عورت صرف شادی اور بچے پیدا کرنے لیے نہیں بنی، شادی کے بعد جہیز کے تانے سننے پڑتے ہیں، مارپیٹ اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عورت جب اپنی جائیداد کا حصہ مانگتی ہے تو اس سے رشتہ ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے، انہوں نے کہاکہ اس معاشرے کو طاقت ور ، ترقی یافتہ ، صاف ستھرا ،معتبر اور پرامن بنانے کے لیے ایسی کانفرنسز منعقد ہونی چاہئیں تاکہ نوجوان خواتین نسل کو آگاہی مل سکے، اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں تاکہ ان کے درمیان خلش کی روش ختم اور محبت کا رشتہ قائم ہو، ہم نے مار کھائی، جیل کاٹی اور کیسز کا سامنا بھی کیا، زہرہ اکبر خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ خواتین معیشت کا حصہ ہیں، بنیادی طور پر عورتوں کو منظم کرنا ہوگا، گھروں سے لوگوں کو جمع کرنا بہت مشکل کام ہے، ہماری محنت کش خواتین میں شعور کی کمی ہے، انہیں آج بھی نہیں پتا کہ ہم جو کام گھروں میں کرتے ہیں وہ آتا کہاں سے ہے، پیسے کون دیتا ہے ، خواتین کو شعوری طور پر طاقت ور ہونا پڑے گا تاکہ عورتوں کے حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے لیے آواز اٹھا سکیں، انہوں نے کہاکہ ہم نے حیدرآباد اور کراچی میں ہزاروں عورتوں میں آگاہی مہم شروع کی اور اس کے مثبت اثرات نظر آرہے ہیں، آئے روز عورتوں پر تشدد اور ریپ کے کیسز کی خبریں سامنے آتی ہیں، فیکٹروں میں زبان، دماغی اور جنسی طور پر حراساں کیا جاتا رہا ہے، آج بھی عورتوں کو مردوں کے برابر تنخواہ نہیں دی جاتی، انہوں نے کہاکہ عورت جب بھی اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آئی ہے تو وہ اپنا حق لے کر واپس جاتی ہے جو ہم سب کے مفاد میں ہوتا ہے


10 March 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام معروف اداکارقوی خان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد

تقریب میں  شوبز انڈسٹری کی معروف شخصیات کی  شرکت

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سینئر اداکار قوی خان کی یاد میں تعزیتی اجلاس جون ایلیا لان میں منعقد کیا گیا جس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، اداکار مصطفی قریشی، منور سعید، امجد شاہ، راجو جمیل، شہزاد رضا نقوی، زیبا شہناز، محمود مرزا، ندیم ظفر ، یونس میمن نے شرکت کی جبکہ اداکار ندیم بیگ، زیبا محمد علی، اداکار جاوید شیخ، سنگیتا، سید نور سلطانہ صدیقی نے ٹیلی فون پر گفتگو کی، تعزیتی اجلاس میں شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ نظامت کے فرائض اقبال لطیف نے انجام دیے۔صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ضیاءمحی الدین، امجد اسلام امجد اور قوی خان کا دنیا سے چلے جانا ہمارا بہت بڑا نقصان ہے، مصطفی قریشی، سلطان راہی، محمد علی ، وحید مراد ، زیبا جسے لوگوں سے پاکستان کو عروج ملا، انہوں نے کہاکہ ہم نے اپنے ہیروز کا انتخاب درست نہیں کیا، ہمیں لکھنے والے، پڑھنے والے، ڈائریکٹر ،ایکٹر ، سنگر اور میوزک ڈائریکٹر کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے، ہم مردہ پرست لوگ نہیں،ساری دنیا کی خرابیوں کے باوجود قوی خان نے خود کو صاف رکھا ، وہ بہت پھرتیلے اداکار تھے، 75سال کی عمر میں بھی جب تھیٹر پر آتے تو ایسا لگتا کوئی 18سال کا لڑکا پرفارم کررہا ہو، اگر آرٹس کونسل غم اور خوشی میں فنکار اور ادیبوں کے ساتھ کھڑا نہ ہو تو یہ زیادتی ہے، آرٹس کونسل آرٹسٹوں کی ملکیت ہے، انہوں نے کہاکہ ہم پر تنقید بھی ہورہی ہے کیونکہ جب توقع ہم سے ہے تو تنقید بھی لازم ہے، ہم خندہ پیشانی سے وہ بھی قبول کریں گے۔ سینئر اداکار مصطفی قریشی نے اظہارِ خیال میں کہاکہ قوی ہم سے جدا ہوگیا مگر اس کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا،ٹیلی فلم غلام میں قوی خان نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ، قوی نے دو ڈھائی سو فلموں میں کام کیا، نائب صدر آرٹس کونسل منور سعید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ مجھے ٹی وی پر متعارف کرانے والا شخص قوی خان تھا، وہ نہایت ہی نفیس انسان تھے ان کی تعریف میں جتنے الفاظ کہے جائیں کم ہیں، اداکار جاوید شیخ نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ قوی خان نے زندگی میں مختلف کردار ادا کیے، فلم اور ٹیلی ویژن انڈسٹری میں انہوں نے ایک مقام بنایا، وہ جتنے محبت کرنے والے انسان تھے اس سے بڑھ کر وہ بہت اچھے اداکار تھے، لاہور سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے اداکار ندیم بیگ نے کہاکہ قوی خان کے لیے میرے پاس کہنے کے لیے الفاظ نہیں، اتنا عمدہ اور ورسٹائل ایکٹر میں نے نہیں دیکھا، ان سے بہت کچھ سیکھا، وہ بڑھاپے میں بھی ایسے رول کرتے تھے جو ہم جوانی میں نہیں کرسکتے تھے، ان کا دنیا سے چلے جانا ہمارے لیے بہت بڑا صدمہ ہے، لاہور سے ٹیلی فونک گفتگو میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے زیبا محمد علی نے کہاکہ قوی ہر طرح سے بہترین اداکار اور انسان تھے میں نے ان جیسا انسان نہیں دیکھا، وہ بہت ہی سادہ انسان تھے، ہدایت کار سید نور نے ٹیلی فونک گفتگو میں کہاکہ قوی صاحب کے جانے سے دل پر ایک ایسا بوجھ ہے جسے بیان کرنا مشکل ہے، ان کا کام بولتا تھا کہ وہ کیا ہیں، انہوںنے کئی کردار ادا کیے اور وہ ہر روپ میں جچتے تھے، وہ دوستوں کے دوست اور ہمت والے انسان تھے، ہدایت کارہ سنگیتا نے کہاکہ قوی خان فرشتہ صفت انسان تھے، ان میں کوئی برائی نہیں تھی، یہ وہ شخص ہے جسے بھلایا نہیں جاسکتا جب تک دنیا قائم ہے ان کا نام زندہ رہے گا، اداکار شہزاد رضا نقوی نے کہاکہ قاضی واجد اور قوی خان میرے رول ماڈل تھے، کسی بھی کام میں ان کی کوئی برابری نہیں کرسکتا تھا، پاکستان سے باہر بھی ان شخصیات کا بڑا چرچا ہوتا ہے، ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی، ایسے لوگ دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں، امجد شاہ نے کہاکہ محمد قوی بہت بڑی شخصیت تھے انہوں نے جس میڈیم پر بھی کام کیا ایسا لگتا تھا کہ وہ اس ہی میڈیم کے آدمی ہیں، سلطانہ صدیقی نے کہاکہ قوی خان نے جتنا کام پی ٹی وی کے لیے اس سے کہی زیادہ ہم ٹیلی ویژن کے لیے کیا، قوی کردار میں ڈوب جاتے تھے، ٹائم کے پابند اور اصول پسند انسان تھے، میں نئے آنے والوں کو کہوں گی کہ انہیں قوی خان جیسے لوگوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہیے، زیبا شہناز نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ قوی خان کے ساتھ کام کرنے پر فخر ہے، مجھے ہمیشہ اچھے لوگ ملے، راجو جمیل نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ قوی خان جیسے لوگ پاکستان فلم انڈسٹری اور پاکستان ٹیلی ویژن کو بہت کم ملتے ہیں، آپ یقین کریں جس دن ان کا انتقال ہوا اس دن بھی ان فلم دیکھ رہا تھا، سابق ایگزیکٹو دائریکٹر ندیم ظفر نے کہاکہ میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ آرٹس کونسل کے توسط سے میرا اتنے بڑے لوگوں کے ساتھ واسطہ رہا، جب وہ کبھی آتے تو میں انہیں لینے جاتا وہ نہایت شفیق انسان تھے

Arts Council of Pakistan Karachi held a condolence reference in the  memory of legend actor Qavi Khan

KARACHI ( ) Arts Council of Pakistan Karachi  Organized a condolence Reference in the memory of senior actor Qavi Khan at Jaun Elia Lawn .In which the President of Arts Council Muhammad Ahmad Shah, Mustafa Qureshi, Munwar Saeed, Amjad Shah, Raju Jameel, Shahzad Raza Naqvi, Zeba Shahnaz, Mehmood Mirza, Nadeem Zafar, Younis Memon participated ,while actor Nadeem Baig, Zeba Muhammad Ali, actor Javed Shaikh, Sangeeta, Syed Noor Sultana Siddiqui spoke on telephone in the condolence Reference, people from the showbiz industry  participated .while Iqbal Latif performed the duty of moderator. President  Arts Council Muhammad Ahmad Shah while speaking said that the passing away of Zia Mohiuddin, Amjad Islam Amjad and Qavi Khan is a great loss for us, Mustafa Qureshi, Sultan Rahi, Muhammad Ali, Waheed Murad, Zeba who gave rise to Pakistan He said that we have not chosen our heroes correctly, we should respect the writers, readers, directors, actors, singers and music directors. Qavi Khan kept himself clean despite the problems of the whole world, he is a very active actor. Even at the age of 75, when he came to the theater, it seemed like an 18-year-old boy was performing. If the Arts Council does not stand with the artists and writers in grief and joy, it is an abuse. The Arts Council is owned by the artists. He said that we are also being criticized because when there is an expectation from us, criticism is also necessary, we will accept it with a smile. Senior actor Mustafa Qureshi expressed his opinion and said that Qavi is separated from us but his work will live forever. Vice   President of Arts Council Munwar Saeed expressed his opinion and said that the person who introduced me on TV was Qavi Khan, he was a very sophisticated person. Qavi Khan played various roles in life, he made a place in the film and television industry, apart from being a loving person, he was a very good actor, actor Nadeem Baig said in a telephonic conversation from Lahore. Said that I have no words to say about Qavi Khan, I have never seen such a great and versatile actor, I learned a lot from him, he used to do roles even in his old age which we could not do in our youth. It is a big shock for us to leave, Zeba Muhammad Ali, speaking in a telephonic conversation from Lahore, said that Qavi is the best in every way. He was a great actor and a very sweet human being. I have never seen a person like him. He was a very simple person. Director Syed Noor said in a telephonic conversation that the heartis very heavy with his death. His work speaks for him. he played many roles and he proved himself in every form, he was a friend of friends and a person of courage. He is a person who cannot be forgotten as long as the world lasts, his name will live on. Actor Shahzad Raza Naqvi said that Qazi Wajid and Qavi Khan were my role models, no one could match them in any work, even outside Pakistan. These personalities are talked about a lot, we tried to learn a lot from them, such people are very rare in the world, Amjad Shah said that Muhammad Qavi was a great personality, whatever medium he worked on, it seemed that He is a man of the same medium, Sultana Siddiqui said that Qavi Khan did much more work for PTV than our Hum Network . I would say to the new comers that they should learn something from people like Qavi Khan, Zeba Shahnaz expressed her opinion and said that I am proud to work with Qavi Khan. Raju Jameel while speaking said that people like Qavi Khan are very rare in Pakistan film industry and Pakistan television, believe me, even on the day of his death, I was watching his movie, former executive director Nadeem Zafar said, I consider myself lucky that through the Arts Council I have been in touch with so many great people


10 March 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چوتھی وومن کانفرنس کا شاندار افتتاح

اگر ہم عورتوں کے حقوق نہیں دلوا سکتے تو مہذب قوم کہلانے کے لائق ہی نہیں،محمد احمد شاہ

خواتین کو اپنے تحفظ کی جنگ خود لڑنا پڑے گی، صوبائی وزیر ترقی نسواں سیدہ شہلا رضا

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چوتھی وومن کانفرنس کا شاندار افتتاح ڈرم سرکل پرفارمنس سے کیاگیا ، وومن کانفرنس میں صوبائی وزیر ترقی نسواں شہلا رضا سمیت انیس ہارون، نورالہدیٰ شاہ، قدسیہ اکبر، ڈاکٹر جعفر احمد، فاطمہ حسن، غازی صلاح الدین اعجاز فاروقی ،کشور زہرہ نے شرکت کی، کی نوٹ اسپیکر ڈاکٹر جعفر احمد نے ”حقوق نسواں کی عالمی تحریک۔ ایک اجمالی جائزہ“ کے موضوع پر گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض ہما میر نے انجام دیے، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ خواتین کو احساس ہے کہ بھیک مانگنے سے کچھ نہیں ملے گا، اس کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی، فاطمہ جناح رول ماڈل تھیں، بینظیر بہت بڑی ہستی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی پہلی خواتین وزیراعظم تھیں ، محنت کش خواتین کی بہت بڑی جدوجہد ہے، انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ میں موجود خواتین کو دھمکیاں بھی ملتی رہیں، انہیں ہراس بھی کیاگیا، وہ سڑک پر پٹتی رہیں ، جیل بھی گئیں مگر انہوں نے پاکستان کے آئین کے مطابق جائز اور برابری کے حقوق کے لیے ہمیشہ اپنی آواز بلند کی، انہوں نے کہاکہ خواتین چاہے کسی بھی مذہب یا رنگ و نسل سے تعلق رکھتی ہو بنیادی طور پر اس کے حقوق ملنے چاہئیں جس میں روزگار ،تعلیم اور صحت کے مسائل شامل ہیں، بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا، پاکستان میں عورت کو ووٹ کا حق پہلے ملا ہے، جب امریکہ میں سیاہ فام عورتوں اور بچوں کو بسوں میں بیٹھنے نہیں دیتے تھے تب پاکستان کی خواتین کو ووٹ تک کا حق حاصل تھا، اگر ہم عورتوں کے حقوق نہیں دلوا سکتے تو مہذب قوم کہلانے کے لائق ہی نہیں، آج بھی گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو معقول تنخواہ نہیں دی جاتی، مذہب کے نام پر بھی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، میں خواتین کی جدوجہد کوسلام پیش کرتا ہوں، مردوں کو خواتین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔صوبائی وزیر ترقی نسواں سیدہ شہلا رضا نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ خواتین کو اپنے تحفظ کی جنگ خود لڑنا پڑے گی، قانون وہ ہتھیار ہے جس کو آپ مصیبت کے وقت استعمال کرسکتے ہیں، سوسائٹی کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اسے کب اور کیسے اس ہتھیار کو استعمال کرنا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خواتین کو پتا ہی نہیں کہ ان کے تحفظ کے لیے قانون بھی ہے، انہوں نے کہاکہ بچہ ہو مرد ہو ، عورت یا بوڑھا جوان قانون سب کا تحفظ کرتا ہے ، یہ غلط لوگ ہیں جو آپ کی بچیوں کو گھر سے نکلنے پر مجبور کررہے ہیں ، ان لوگوں سے نہ ڈریں، انہیں سامنے لائیں، عورتوں کو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا، جب تک خواتین اپنی آواز بلند نہیں کریں گی کچھ نہیں ہوسکتا ، خواتین کو اس تشدد کو خود روکنا پڑے گا۔کی نوٹ اسپیکر اور معروف ادیبہ نورالہدی شاہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم اپنی عورت کو دنیا سے غافل رکھتے ہیں باہر کی دنیا کیا ہے اسے پتا ہی نہیں،مجھے خوشی ہے کہ آج وومن کانفرنس میں محنت کش خواتین کی اکثریت موجود ہے، انہوں نے کہاکہ جب بلند آواز سے بات ہوتی ہے تو آدھی خواتین خود سسٹم کا حصہ ہوتی ہیں، جب کبھی مزاحمت کی تحریک لے کر آتے ہیں تو ہماری تعداد کم ہوتی ہے، جاگیر دار وہ نہیں جس کے پاس بہت ساری زمین اور جائیداد ہے یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے، جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ اور نظام کو طاقت ور بنانے کے لیے مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے، انہوں نے کہاکہ عورت سماج کی جڑ ہے، ہماری عورت بے خبر ہے، وہ سامنے کا چہرہ دیکھ کر الفاظ سن کر سمجھتی ہے کہ میں اسی کے لیے ہوں، عورت جب دباﺅ میں ہوگی تو دبی ہوئی نسلیں ہی اس ملک کو دے گی۔ وومن کانفرنس کے پہلے روز ”قدرتی آفات، آب و ہوا کی تبدیلیاں اور خواتین“، یوتھ سیشن۔کوئی دیکھے تو چراغوں کا فروزاں ہونا، ”ہماری زندگیوں کا جشن منانا“، ”تشدد اور ہمارا انصاف کا نظام“ پر سیشن منعقد ہوئے جس میں شرکاءنے سیرحاصل گفتگو کی، ”سلطانہ صدیقی کے ساتھ بات چیت“ پر سیشن منعقد ہوا، آخر میں مشاعرہ پیش کیاگیا جس کی نظامت عنبرین حسیب عنبر نے کی

Two days 4th women conference kicks off with full swing at Arts council of Pakistan Karachi

If we cannot give rights to women, then we do not deserve to be called a civilized nation, Muhammad Ahmad Shah

Women will have to fight for their own protection, Provincial Women Development Minister Syeda Shehla Raza

Karachi ( ) 4th Women’s Conference organized by Arts Council of Pakistan Karachi was grandly inaugurated with a drum circle performance. Provincial Minister for Women Development Shehla Raza along with Anees Haroon, Noor ul Huda Shah, Qudsia Akbar, Dr. Jafar Ahmad, Fatima Hassan, Ghazi Salahuddin, Ejaz Farooqui, Kishwar Zahra, were present at the women conference. Keynote Speaker Dr. Jafar Ahmed spoke on the topic of “Global Feminist Movement. An Overview” while Huma Mir performed the duties of Moderator, President Arts Council Muhammad Ahmad Shah said that women realize that begging will not get anything, they will have to struggle for it, Fatima Jinnah. Benazir was a role model. There is a great struggle for working women. She went to jail, but she always raised her voice for legitimate and equal rights according to the constitution of Pakistan. which includes employment, education and health issues, unfortunately this did not happen, women in Pakistan got the right to vote first, when black women and children were not allowed to sit on buses in the United States, then the women of Pakistan had the right to vote, if we can’t get the rights of women, then we don’t deserve to be called a civilized nation. Obstacles are also put in the name of religion, I salute the struggle of women, men should stand by the side of women and play their role. Provincial Minister for Women Development Syeda Shehla Raza Expressing that women will have to fight for their own protection, law is the weapon that you can use in times of trouble, society should know when and how to use this weapon. It seems that women do not know that there is a law to protect them, she said child, man, woman or old, the law protects everyone, these are the wrong people who take your girls away from home. They are forcing to leave, don’t be afraid of these people, bring them forward, women have to stand up for their rights, nothing can happen until women raise their voice, women have to stop this violence themselves. Key Note speaker and well-known writer Noor ul Huda Shah while speaking said that we keep our women oblivious to the world, she does not know what the outside world is. I am happy that today the majority of working women are present in the Women’s Conference. she said that when we speak loudly, half of the women are part of the system. Yes, a feudal lord is not one who has a lot of land and property, it is a mind set, religion is used to strengthen the feudal mind set and system, she said that women are the root of society, our women. Unaware, On the first day of the Women’s Conference, sessions were held on “Natural Disasters, Climate Change and Women”, Youth Sessions, Lighting of Lamps If You See, “Celebrating Our Lives”, “Violence and Our Justice System”. The participants had a lively discussion, a session was held on “Conversation with Sultana Siddiqui”, and at the end a mushaira was presented which was moderated by Ambareen Haseeb Ambar


9 March 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے منعقد کی جانے والی چوتھی

وومن کانفرنس کا افتتاح 10مارچ کو کیا جائے گا

جب تک مرد اور عورت مل کر کام نہیں کریں گے گھر نہیں چل سکتا، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

جب تک خواتین کا ملازمتوں میں کوٹہ کم رکھیں گے معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی،انیس ہارون

سماج کے زوال پذیر ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کا راستہ روکا جارہا ہے، نورالہدیٰ شاہ

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں چوتھی وومن کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے پریس کانفرنس آڈیٹوریم IIمیں کی گئی، جس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ ، انیس ہارون اور نور الہدیٰ شاہ نے بریفنگ دی۔ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ ہم گزشتہ چار برس سے وومن کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں، پاکستان میں عورتوں کا دن فعال طریقے سے منایا جا رہا ہے، ہم اس مسئلے کو ایک دن کا مسئلہ نہیں سمجھتے، یہ ایک دن یا ایک ہفتے کا موضوع نہیں، اس مسئلے پر سنجیدہ مباحثے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہاکہ ایسا نہیں ہے کہ عورتوں نے کم جنگ لڑی، ہماری کانفرنس میں جن عورتوں نے سماج کو یہاں تک لانے میں کردار ادا کیا ان پر سیشن ہیں، سو فیصد عورتیں ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں، عورتوں کو اپنی رائے دینے کا حق نہیں ہے، آزادی کا مطلب کیسے کپڑے پہننے ہیں، کس شعبے میں جانا ہے، یہ بھی آزادی ہے، انہوں نے کہاکہ جس معاشرے میں آپ رہتے ہیں بچپن میں یہ بات دماغ میں ڈالی جاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، یہ سراسر غلط ہے، دیہات میں بھی عورت مرد سے زیادہ کام کرتی ہے، شہر میں بھی عورت مرد سے زیادہ کررہی ہے، انہوںنے کہاکہ کراچی میں لڑکے میٹرک نہیں کر پاتے ان کی نسبت لڑکیاں ماسٹرز تک پڑھائی کر کے گھر چلا رہی ہیں، اگر عورت کو برتر نہیں سمجھتے تو مطلب تم اپنی ماں کی عزت نہیں کرتے، تمہیں پیدا کرتے ہوئے مائیں جان کی بازی ہار جاتی ہیں، عورت مارچ سے ایک کاﺅنٹر لڑائی شروع ہو گئی ہے، معاشرے میں کچھ اصول ہیں جو کہ مرد کے بنائے ہوئے ہیں وہ توڑیں گے تو لڑائی ہو گی، جب تک مرد اور عورت مل کر کام نہیں کریں گے گھر نہیں چل سکتا، بے شمار مرد عورتوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ملائیشیا میں خواتین کا نوکریوں میںپینتیس فیصد کوٹہ ہے ، عورت کو روزگار اس کے گھر کے قریب ملتا ہے، اس کے دفتری اوقات ایسے ہیں کہ وہ تین گھنٹے کے لیے گھر جا کر اپنا کام نمٹا کر آئے، آدھی آبادی کو گھر بٹھا کر معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہیں، میڈیکل میں 85فیصد لڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں، تھر میں خواتین ٹرک چلا رہی ہیں، عورت کی قوت مرد سے ہر لحاظ میں زیادہ ہے، انیس ہارون نے کہاکہ اگر کسی ملک کی آبادی 50فیصد خواتین پر مشتمل ہے ، تو آپ کو ایک بڑی تعداد کالج ، یونیورسٹی میں نظر آتی ہے، پڑھائی میں ان کا رجحان زیادہ ہے، وہ جس شعبے میں قدم رکھ رہی ہیں آگے بڑھ رہی ہیں تو آپ اگر ان کا ملازمتوں میں کوٹہ کم رکھیں گے تو آپ کی معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی، خواتین کو کام کرنے کے مواقع فراہم نہیں کیے جائیں گے تو ترقی ممکن نہیں، آپ کو باپ بننے کے لیے اس درجے پر فائز ہونے کے لیے قربانی دینی پڑے گی، ہمارے معاشرے کی ذینیت کی وجہ سے معاشرے کی سوچ سو سال پیچھے ہے، اب فوکس قوانین بنانے پر نہیں ان پر عمل کرانے پر ہو گا، نور الہدیٰ شاہ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ یہ کانفرنس عورت مارچ ایک لازمی چیز ہے، آپ سماج کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں، سماج زوال پذیر ہو رہا ہے، اس کی بڑی وجہ خواتین کا آج کی بچیوں کا راستہ روکا جا رہا ہے، ان کے حقوق کی بات آتی ہے، مذہب کا ریفرنس دے دیا جا تا ہے، اس کانفرنس کا مقصد ذہنی شعور اور بیداری کے لیے کام کرنا ہے، انہوں نے کہاکہ خاص کر بچیوں کے بھائیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے، خواتین کی زندگیاں جتنی تنگ کریں گے اتنی تباہی ہو گی، آج کی بچیوں کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کو لینی پڑے گی، کانفرنس میں باپ، بھائی، شوہر سب شریک ہوں، دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور ہم بہت پیچھے جا رہے ہیں، ماحولیاتی تبدیلی نے جس طرح عورت کو متاثر کیا ہے اس پر بھی بات کی جائے گی۔واضح رہے کہ دو روزہ چوتھی وومن کانفرنس کا افتتاح 10مارچ کو آرٹس کونسل میں کیا جائے گا۔

4th women’s conference organized by the Arts Council of Pakistan Karachi will be held on March 10.

Karachi ( ) Arts Council of Pakistan Karachi held a press conference in Auditorium II regarding the 4th Women’s Conference in Karachi, in which the President of the Arts Council Muhammad Ahmad Shah, Anees Haroon and Noor ul Huda Shah gave Media briefing. President Arts Council Muhammad Ahmad Shah while giving a media briefing said that we have been organizing women’s conference for the last four years, women’s day is being celebrated actively in Pakistan, we do not consider this issue as a one day issue. It is not a topic of a day or a week, there is a need for a serious discussion on this issue, he said, it is not that women have fought less, in our conference there are sessions on the women who have played a role in bringing the society to this point. , 100% women are suffering from mental illness, women do not have the right to express their opinion, freedom means how to wear clothes, which field to go to, this is also freedom, he said that in the society you live in childhood. It is put in the mind that what people will say, it is completely wrong, even in villages women work more than men, in cities women are doing more than men, he said that in Karachi, boys are not able to do their matriculation. On the other hand, girls are running the house after studying up to masters, if you don’t consider women as superior, it means you don’t respect your mother. A counter fight has started from the woman march, there are some rules in the society which are made by men, if they are broken, there will be a fight, unless men and women work together, the house cannot run. Women have a thirty-five percent quota in jobs in Malaysia, women get jobs close to their homes, their office hours are such that they go home for three hours and do their work. How can the economy improve by keeping half the population at home, 85% of girls are becoming doctors in medicine, women are driving trucks in Thar, women are more powerful than men in every way, Anees Haroon said that if a country 50% of the population is women, so you see a large number of them in college, university, they tend to study more, they are advancing in the field they are entering, if women are not given opportunities to work, development is not possible, you have to sacrifice to reach this level to be a father. Due to the sophistication of our society, the thinking of the society is a hundred years behind, now the focus will be not on making laws but on implementing them. While giving a briefing, Noor ul Huda Shah said that this conference, Awrat March is a necessary thing, you are preventing the society from progressing, the society is declining. The main reason for the decline of the society is that the way of women is being blocked. When it comes to their rights, the reference of religion is given. The purpose of this conference is to work for mental awareness. There will be so much destruction, the state will have to take responsibility for the protection of today’s girls. Fathers, brothers, husbands should all participate in the conference, the world has come a long way and we are going back a long way. The two-day Fourth Women’s Conference will be inaugurated on March 10 at the Arts Council


Three-day Sindh Literature Festival at Arts Council of Pakistan Karachi is going on in full swing

We are not producing intellectuals in universities and other educational institutions, but we are producing robots, President of Arts Council Muhammad Ahmad Shah

KARACHI ( ) Three-day Sindh Literature Festival at Arts Council of Pakistan Karachi is going on in full swing While speaking in the second day program of the ongoing three-day Sindh Literature Festival in Arts Council of Pakistan, “Tradition of Public Knowledge”, the country’s leading intellectuals said that with the increase in universities in the country, ignorance is also increasing. Our educational system is such that intellectuals have stopped coming out of the universities. Today, the tradition of public knowledge has ended due to which the society has fallen. In the session, the president of Arts Council Muhammad Ahmad Shah, well-known poet Iftikhar Arif, writer Noor ul huda Shah, Ghazi Salahuddin and Dr. Jafar Ahmed spoke while Hasnain Jamal performed the duties of Moderater . Iftikhar Arif said that in the past intellectuals guided the people due to which the society moved forward. It is not necessary for a man to be a good historian, he is also a public intellectual. Everyone has his own priorities. Today, as many educational institutions are increasing, so much ignorance is increasing, intellectuals are not coming out of our universities, Ibrahim Joyo has a great role in awakening Sindh, and public knowledge is what awakens the people by its spread. Muhammad Ahmad Shah said that in the recent past, many people were intellectuals in their own right, where the youth used to learn from them. These were the traditions of public knowledge that were passed down from generation to generation. Those public intellectuals are extinct or less today, there is a need to revive these traditions to prevent ignorance from the society and to spread knowledge. Our students have to stand up to raise their voices, bring out their inner strength, he said that in our religion we have been given the right to raise questions. Dr. Jafar Ahmed said that public knowledge demands sacrifice, courage and bravery are needed to speak the truth and call the wrong . It is difficult to get our point across because sometimes the ruling time does not like the process, we have to decide how to get our point across. He said that knowledge is that which awakens the consciousness in the society by its spread, unfortunately, there are not those people who can face resistance in our educational institutions and the people who graduate from educational institutions do not have enough knowledge that they can contribute to the society. Noor ul Huda Shah said that after the establishment of Pakistan, our intellectuals did not encourage people to connect with the land, due to which even after 75 years we do not know which areas are in Balochistan. If the youth of Sindh is active on public issues and prevents fundamentalism with arguments, people like Rasool Baksh Plaju, Sheikh Ayaz, Gian Chand have given him mental training. Because of the seed that he sowed, young people stand up to save the temple even today in Sindh, She said that first intellectuals make generations, then generations make intellectuals. Ghazi Salahuddin said that the intellectual is the one whose writing and speech bring change in people, in the past, the tradition of public knowledge was very strong in our society. Our real war is against hatred. Only intellectuals destroy hatred on the basis of knowledge. The conversation with the people should be such that your positive words reach the people, we need to learn a lot.


آرٹس کونسل آف پاکستان میں جاری تین روزہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روز ”عوامی دانش کی روایت“ پر سیشن کا انعقاد

ہم یونیورسٹیوں اور دوسری درسگاہوں میں دانشور پیدا نہیں بلکہ روبوٹ تیار کررہے ہیں، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہے کہ یونیورسٹیوں سے دانشور نکلنا بند ہو چکے، معروف شاعر افتخار عارف

کراچی( )آرٹس کونسل آف پاکستان میں جاری تین روزہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روز کے پروگرام “عوامی دانش کی روایت” میں خطاب کرتے ہوئے ملک کے معروف دانشوروں نے کہا کہ ملک میں یونیورسٹیوں میں اضافہ کے ساتھ جہالت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہے کہ یونیورسٹیوں سے دانشور نکلنا بند ہو چکے۔آج عوامی دانش کی روایت ختم ہو چکی جس سے معاشرہ زوال کا شکار ہو چکا۔ سیشن میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، معروف شاعر افتخار عارف، ادیبہ نورادلہدیٰ شاہ، غازی صلاح الدین اور ڈاکٹر جعفر احمد نے گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض حسنین جمال نے انجام دیے۔ افتخار عارف نے کہا کہ ماضی میں دانشوروں نے لوگوں کی راہنمائی کی جس وجہ سے معاشرہ آگے بڑھا۔ ضروری نہیں کہ کوئی آدمی اچھا مورخ ہو وہ عوامی دانشور بھی ہو، ہر شخص کو اپنی ترجیحات چاہیے ہوتی ہیں ،ہمارے ہاں آج کل جتنی تعلیمی درسگاہوں میں اضافہ ہورہا ہے اتنی جہالت بڑھتی جارہی ہے، ہماری یونیورسٹیوں سے دانشور نہیں نکل رہے، ابراہیم جویو کا سندھ کو بیدار کرنے میں بہت بڑا کردار ہے،اور عوامی دانش وہی ہے جس کے پھیلنے سے عوام بیدار ہو۔محمد احمد شاہ نے کہا کہ ماضی قریب میں بہت سے افراد خود اپنی ذات میں دانش گاہ تھے جہاں نوجوان ان سے سیکھتے تھے وہی ہی عوامی دانش کی روایات تھیں جو نسل در نسل آگئیں بڑھ رہی تھی۔ وہ عوامی دانشور آج ختم یا کم رہ گئے ہیں معاشرے سے جہالت کو روکنے اور دانش کو پھیلانے کے لیے ان روایات کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے طالب علموں کو اپنی آواز بلند کرنے کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا، اپنے اندر کی طاقت کو باہر نکالیں، ، انہوں نے کہاکہ ہمارے مذہب میں بھی سوال اٹھانے کا حق دیا گیا ہے ہم یونیورسٹیوں اور دوسری درسگاہوں میں دانشور پیدا نہیں بلکہ روبوٹ تیار کررہے ہیں۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے کہاکہ عوامی دانش قربانی مانگتی ہے سچ بات کہنے اور غلط کو غلط کہنے لئے جرا ¿ت اور بہادری کی ضرورت ہے۔ اپنی بات عوام تک پہنچانا مشکل ہے کیوں کہ بعض اوقات حاکم وقت کو یہ عمل پسند نہیں ہوتا، ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ اپنی بات کس طرح عوام تک پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ علم وہ ہی ہے جس کے پھیلنے سے معاشرے میں شعور بیدار ہو، بدقسمتی سے ہماری درسگاہوں میں وہ لوگ نظر نہیں آرہے جو مزاحمت کا سامنا کرسکیں اور نہ درسگاہوں سے فارغ ہونے والے افراد کے پاس اتنا علم ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی رہنمائی کر سکیں۔ نورالہدیٰ شاہ نے کہاکہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے دانشوروں نے لوگوں کو زمین کے ساتھ جڑنے کی ترغیب نہیں دی جس کی وجہ سے 75برس بعد بھی ہمیں یہ نہیں پتا کہ بلوچستان میں کون کون سے علاقے ہیں۔ سندھ کا نوجوان عوامی مسائل پر اگر متحرک ہے اور بنیاد پرستی کو دلائل سے روکتا ہے تو اس کی ذہنی تربیت رسول بخش پلیجو، شیخ آیاز، گیان چند جیسے لوگوں نے کی۔ انہوں نے جو بیج بویا اس کی وجہ سے سندھ میں آج بھی مندر کو بچانے کے لیے نوجوان کھڑے ہوجاتے ہیں ، انہوں نے کہاکہ پہلے دانشور نسلیں بناتا ہے پھر نسلیں دانشور بناتی ہیں۔ غازی صلاح الدین نے کہاکہ دانشور وہی ہے جس کی تحریر اور گفتار سے لوگوں میں تبدیلی پیدا ہے،ماضی میں ہمارے معاشرے میں عوامی دانش کی روایت بہت مضبوط تھی۔ ہماری اصل جنگ نفرت کے خلاف ہے دانشور ہی علم کی بنیاد پر نفرت کو ختم کرتا ہے۔ عوام سے گفتگو ایسی ہونی چاہیے کہ لوگوں تک آپ کی مثبت بات پہنچے، ہمیں علم سیکھنے کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں شعور کی کمی ہے، اس وقت ہمیں اپنے اپنے حلقوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ عوامی دانش کی روایت زندہ رہتی ہے تو معاشرہ زندہ رہتا ہے۔ فیسٹیول کے دوسرے روز مختلف سیشنز کا انعقاد کیا گیا جن میں ”قوم پر ست سیاست:حال اور مستقبل“، ”روشنی راھوں“ ،”Story Telling“ ، ”زندگی کی ادھوری کتھا“ ، ”عالمگیریت کی تاریخ اور ارتقائ“ ، ”مشاہد حسین کے مشاہدات ۔ پاکستان :کل آج اور کل “، ”داڑھی والے کے ساتھ سوچتے ہیں“،Meet the Literary Family، Karachi :Glory of the East ، ”عوامی دانش کی روایت“ ، ”سندھی ناول :معیار اور مقدار“، ”مزاح“،” ہم بھی تو ہیں“ Conversation with Living Legend،Bhittai’s Notion of Woman Empowermentاور Poetry Recitation ، ”صوبے اور قومیں“ کے عنوان سے سیشن شامل تھے، آخر میں رجب فقیر اور ایکما بینڈ نے اپنی شاندار پرفارمنس سے فیسٹیول کو چار چاند لگا دیے۔


چھٹا سندھ لٹریچر فیسٹیول 3تا 5 مارچ آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوگا

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں چھٹے سندھ لٹریچر فیسٹیول کے حوالے سے پریس کانفرنس کا انعقاد

ثقافت ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک مرکز پر اکٹھا کر سکتا ہے، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں چھٹے تین روزہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کے حوالے سے پریس کانفرنس کا انعقاد آڈیٹوریم IIمیں کیاگیا ، تین روزہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کا آغاز 3مارچ کو ہوگا جو5مارچ تک جاری رہے گا، کانفرنس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، معروف ادیبہ نور الہدیٰ شاہ،ڈاکٹر ایوب شیخ،نصیر گوپانگ اور ذوہیب کاکا نے بریفنگ دی، صدر آرٹس کونسل محمد احمد نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ فیسٹیولز کا سیزن چل رہا ہے، سب سے پہلے فیسٹیولز کا آغاز سولہ سال پہلے آرٹس کونسل کراچی نے کیا، اس سے قبل کوئی فیسٹیول نہیں ہوتا تھا، اس وقت کراچی کے حالات بہت خراب تھے، انہوں نے کہاکہ ثقافت ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک مرکز پر اکٹھا کر سکتا ہے ، ہماری بنیاد صوبہ سندھ ہے، سندھ کا دارالخلافہ کراچی ہے، ہم نے فیسٹیولز کا آغاز کراچی سے کیا، نامساعد حالات میں بھی ہم نے عالمی اردو کانفرنس کا مشاعرہ جاری رہا، انہوں نے کہاکہ جب کسی قوم کی ثقافت مر جاتی ہے قوم کی شناخت مٹ جاتی ہے، وہ قومیں ختم ہو گئیں جنہوں نے ثقافت کی بنیاد پر خود کو زندہ نہیں رکھا، سندھی پروگرام کرنا شروع کیے تو ہمیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، ابھی بھی ہمیں چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں، ہمارے دوست نادانی میں مخالفت کر رہے ہیں، سندھ لٹریچر فیسٹیول کے منتظم ہمارے دوست ہیں، گزشتہ تین برس سے ہم سندھ لٹریچر فیسٹیول آرٹس کونسل میں منعقد کرا رہے ہیں، انہوں نے کہاکہ پہلے پاکستان اس میں سب سے پہلے سندھ، سندھ دھرتی ہماری ماں ہے، یہ ہماری تہذیب ہے، ہماری ثقافت ہے، ہم پورے پاکستان میں یہ میلے سجائیں گے، ہم پر پابندی پہلے بھی لگتی رہی ہے، نور الہدیٰ شاہ نے کہاکہ مجھے بہت خوشی ہے کہ تسلسل سے یہ فیسٹیول منعقد ہو رہا ہے، مخالفت کے باوجود اس فیسٹیول کا انعقاد خوش آئند بات ہے، احمد شاہ بھرپور ساتھ دیتے ہیں، خوشی ہے کہ نوجوان نسل اس فیسٹیول میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، سندھو دریا کا بہاﺅ پوری سر زمین سے ہوتا ہوا نکلے گا تب ہی سمندر بنے گا، انہوں نے کہاکہ یہ دھرتی آپ کی بھی ہے، یہ زبان بھی آپ کی زبان ہے، ادبی شخصیات اور باشعور لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، اس ملک کے ہر دکھ درد کی ایک ہی دوا ہے وہ ہے شعور اور شعور ایسے ہی ادبی میلوں سے آتا ہے، ڈاکٹر ایوب شیخ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ یہ فیسٹیول باہم مل جل کر بیٹھنا ہے، ایک دن آپ دیکھیں گے کہ جب سائے ختم ہو جائیں گی اور حقیقتیں آشکار ہو نگیں، یہ سب کچھ ہم نئی نسل کے لیے کر رہے ہیں،نصیر گوپانگ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ فیسٹیول کا آغاز تین مارچ سے ہو گا، فیسٹیول تین تا پانچ مارچ آرٹس کونسل میں جاری رہے گا، اس سال فیسٹیول کی تھیم ”ماحولیاتی تبدیلی“ ہے، شیخ ایاز کی سالگرہ بھی منائی جائے گی، نوجوان شعراءکے مشاعرے کا انعقاد بھی ہو گا، تین دن مختلف موضوعات پر نشستیں اور مباحثے ہونگے، زوہیب کاکا نے کہاکہ میڈیا کا شکریہ کہ جن کی وجہ سے ہماری بات سب تک پہنچتی ہے، یہ سندھی لٹریچر فیسٹیول نہیں سندھ لٹریچر فیسٹیول ہے، اس میں آپ کو اُردو، پنجابی، سرائیکی سمیت تمام زبانیں ملیں گی ۔ اس سال ٹرانس جینڈرز پر ایک سیشن ہے، عورتوں کے عالمی دن کی مناسبت سے بھی ایک سیشن ہے، آئی ٹی اسٹارٹ اپ پر بھی ایک سیشن رکھا گیا ہے۔ فیسٹیول کا افتتاح 3مارچ جمعہ کو شام چار بجے کیا جائے جس کا افتتاح وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور صوبائی وزیر تعلیم و ثقافت سید سردار علی شاہ کریں گے، فیسٹیول کے پہلے روز موسمیاتی تبدیلی اور مستقبل، سندھو دریا اور زندگی، ایاز شیخ کی 100ویں سالگرہ اور مشاعرہ ہوگا جبکہ دوسرے روز روشنی راہون، کہانی سنانا، زندگی کی ادھوری کتھا، عالمگیریت کی تاریخ اور ارتقائ، مشاہد حسین کے مشاہدات۔پاکستان کل ، آج اور کل ، داڑھی والا کے ساتھ سوچتے ہیں، Meet The Literary Family، Karachi : Glory o the East پر بات چیت، عوامی دانش کی روایات، سندھی ناول: معیار اور مقدار، Mazaah، ہم بھی تو ہیں، لطیف شناسی، عورت مارچ۔برابری سراسری، شاہ لطیف کی شاعری پر پڑھت، صوبے، قومیں اور پاکستانی میڈیا جبکہ رجب فقیر اور ایکمابینڈ کریں گے، فیسٹیول کے تیسرے اور آخری روز مٹی جو مکتب، کتابوں کی رونمائی، سندھی شاعری کے موضوع اور معیار، خواجہ غلام فرید پر سیشن، بات سے بات وسعت اللہ خان کے ساتھ، Legends of Sindh، یوتھ سیشن، Sugharr Kachahri، contribution of sindhi diaspora ، تھیٹر امر کہانی، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم، سندھی لوک گیت: پیدائش سے شادی تک، نوجوانوں کا مشاعرہ اور آخری میں سیف سمیجو اور وہاب بگٹی پرفارمنس کا مظاہرہ کریں گے۔

6th Sindh Literature Festival will be held on March 3 till 5 at Arts Council Karachi

Culture is the only way that can bring us together at one center, President Arts Council Muhammad Ahmed Shah

Karachi ( ) Arts Council of Pakistan Karachi held a press conference regarding the 6th three-day Sindh Literature Festival in Karachi at Auditorium II. The three-day Sindh Literature Festival will begin on March 3 and continue till March 5. President Arts council Mohammad Ahmed Shah, Well-known writer Noor Ul Huda Shah, Dr. Ayoub Sheikh, Naseer Gopang and Zohaib Kaka gave a briefing. President of Arts Council Muhammad Ahmed while giving a briefing said that the season of festivals is going on. The first festivals were started sixteen years ago by Arts Council Karachi. There was no festival before that, the conditions of Karachi were very bad at that time, he said that culture is the only way that can bring us together at a center, our base is the province of Sindh, the capital of Sindh is Karachi. We started the festivals from Karachi, when we started doing Sindhi programs, we faced resistance, even now We are hearing screams, our friends are opposing in ignorance, the organizers of the Sindh Literature Festival are our friends, for the last three years we have been organizing the Sindh Literature Festival in the Arts Council, Noor Ul Huda Shah said, I am very happy this festival is being organized continuously, despite the opposition, it is a welcome thing to organize this festival, Ahmad Shah is fully supporting it, it is good that the young generation actively participates in this festival, the Indus river flows from the whole earth. She said that this land is also yours, this language is also your language, literary personalities and intellectuals will be taken along, there is only one medicine for every pain and suffering of this country is consciousness and consciousness comes from such literary festivals, Dr. Ayoub Sheikh while giving a briefing said that this festival is to sit together, we are doing all this for the new generation, Naseer Gopang while giving a briefing said that the festival will start from March 3, the festival will continue from March 3 to 5 at the Arts Council, this year the theme of the festival is “Climate Change”, the birthday of Sheikh Ayaz will also be celebrated, a recital of young poets will also be held, there will be three days of sittings and discussions on various topics. The thing reaches everyone, this is not Sindhi Literature Festival but Sindh Literature Festival, in it you will find all languages including Urdu, Punjabi, Saraiki this year, there is a session on transgender, a session on International Women’s Day, a session on IT startups. The festival should be inaugurated on March 3, Friday at four o’clock in the evening, which will be inaugurated by Sindh Chief Minister Syed Murad Ali Shah and Provincial Education and Culture Minister Syed Sardar Ali Shah. 100th birthday anniversary of Shaikh Ayaz and mushaira will be held while on the second day sessions, Roshni Rahoon, Story Telling, The Unfinished Story of Life, History and Evolution of Globalization, Observations of Mushahid Hussain. Pakistan Yesterday, Today and Tomorrow, Thinks with the Bearded Man, Meet The Literary Family, Karachi : Talks on Glory o the East, Traditions of Public Knowledge, Sindhi Novels: Quality and Quantity, Mazaah, Hum Bhi To Hen, Latif Shanasi, Aurat March. Barabari Sarasari, on Shah Latif’s Poetry, Provinces, Nations and Pakistani Media While Rajab Faqir and ACMA band will perform, on the third and last day of the festival, Mati Jo Maktab, book launch, theme and quality of Sindhi poetry, session on Khwaja Ghulam Farid, Baat Se Baat with wusatullah Khan, discussion on a book “Forts of Sindh”, Legends of Sindh, youth session. Sugharr Kachahri, Contribution of Sindhi Diaspora, Theater Amar Kahani, Milnay Kay Nahin Nayab Hen Hum, Sindhi folk songs: From birth to marriage, the youth mushira and the finale will feature performances by Saif Samejo (The Sketches) and Wahab Bugti.


فروری 6، 2023

پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023۔لاہور کا شیڈول جاری کردیاگیا

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور الحمرا آرٹس کونسل کے تعاون سے تین روزہ ”پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023 ۔لاہور“ کا آغاز 10فروری کو ہوگا

فیسٹیول میں یوکرینی گلوکارہ کمالیہ، علی ظفر،علی عظمت، سائیں ظہور،ساحر علی بگا، نتاشہ بیگ، ایکما دی بینڈ، احسن باری سمیت معروف گلوکار اپنی آواز کا جادو جگائیں گے

افتخار عارف، انور مقصود، حامدمیر، سہیل احمد، مستنصر حسین تارڑ، سہیل وڑائچ، جسٹس (ر) ناصرہ اقبال، بشریٰ انصاری، ناصر عباس نیئر، غازی صلاح الدین، زارا نور عباس، صنم سعید،علی زریون، فلمسٹار شان شاہداور علی ظفر سمیت دیگر شرکاءفیسٹیول کی رونق بنیں گے

کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور الحمرا آرٹس کونسل کے تعاون سے تین روزہ ”پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023 ۔لاہور“ کا آغاز 10فروری کو الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں کیا جائے گا، پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023۔لاہور کا شیڈول جاری کردیاگیاہے، فیسٹیول میں فتح محمد ملک، افتخار عارف، خورشید رضوی، نیئر علی دادا، میاں اعجاز الحسن، جسٹس (ر) ناصرہ اقبال، سلیمہ ہاشمی، مستنصر حسین تارڑ، کشور ناہید، عطاءالحق قاسمی، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، امجد اسلام امجد، منور سعید، حامد میر، کامران لاشاری، ظفر مسعود، رضی احمدافتتاحی تقریب سے خطاب کریں گے جبکہ صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ(ستارہ امتیاز) خطبہ استقبالیہ جبکہ معروف ادیب و مزاح نگار انور مقصود اور فقیر اعجاز الدین کلیدی خطبہ پیش کریں گے۔ پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں علی ظفر، یوکرینی گلوکارہ کمالیہ، علی عظمت، سائیں ظہور،ساحر علی بگا، نتاشہ بیگ سمیت معروف گلوکار اپنی آواز کا جادو جگائیں گے، فیسٹیول کے پہلے روز ”اکیسیویں صدی کے تہذیبی چیلنج، پاکستان اور فکر اقبال“، ”سہیل احمد(عزیزی) کی باتیں احمد شاہ کے ساتھ “ ہوں گی، دوسرے روز کا آغاز ”اُردو فکشن میں نیا کیا؟“ہوگا جبکہ ”اکیسویں صدی میں پنجابی ادب“، ”فرید سے فرید تک“ اور ”عوامی دانشوری کی روایت“،عاصمہ شیرازی کی کتاب ”کہانی بڑے گھر کی“ تقریب رونمائی ،An Ancient Land & It’s Modern Storytellers” ، ”بچوں کا ادب“، ”احمد بشیر کا کنبہ“، ”نوجوانوں کے نام“ حامد میر سے گفتگو، مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ”میں بھناں دلی دے کنگرے“ پر گفتگو، ”لاہور پُرکمال“، ”کتابوں کی رونمائی“، ”نئے زمانے کا شاعر علی زریون“، سپراسٹار ”شان شاہد سے ملاقات“، ”مشرقی پاکستان، ٹوتا ہوا تارا“اور ”نئے نقاد کے نام خطوط“ کی رونمائی، ”ٹی وی۔۔۔ پاکستان سماج کا ترجمان؟“، ”یادگارِزمانہ ہیں یہ لوگ“، ”پاکستانی آرٹ کے پچھتر برس“ اور ”مشاعرے“ کے بعد یوکرینی گلوکارہ کمالیہ اور علی ظفر اپنی پرفارمنس کا مظاہرہ کریں گے، تیسرے دن ”نئی شاعری نئے امکانات“، ”پنجاب کی لوک داستانیں“، “Pakistan`s Deep Air Quality Crisis: Next Steps & Imperatives” ، ”میری دھرتی میرے لوگ، سوانح عمری، آدمی، پوٹھوہار، خطہ ¿ دل ربا کی رونمائی“، ”تعلیم کا سفر آگے یا؟“، ”گریز پاموسموں کی خوشبو“،” کُنجِ قفس“، ”ہم دیکھیں گے“، سخنِ افتخار کی تقریب رونمائی، ”سرائیکی زبان و ادب۔ امکانات ورجحانات“ سپراسٹار علی ظفر سے ملاقات، State of Economy in Pakistan & way Forward، ”امجد اسلام امجد“، ”بُری عورت کی کتھا اور تازہ نظمیں“، “Future Fest Arts/ Literature/ Cultural Track Agenda Suggestions for Pakistan Literature Festival 2023″، ”آرٹ میں نیا کیا؟“” انور مقصود کا پاکستان“، ”اختتامی اجلاس، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، قراردادیں“، میم رقصم….ناہید صدیقی اور آخر میں ساحر علی بگا، نتاشہ بیگ سمیت دیگر گلوکار اپنی پرفارمنس کا مظاہرہ کریں گے۔


فروری 4، 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ممبر زلائژن کمیٹی کے زیر اہتمام ارشد رضوی کی علامتی خود نوشت ”زرد موسم کی یادداشت“ کی تقریب رونمائی

”زرد موسم کی یادداشت“ ناگہانی حادثے سے پیدا ہونے والی اداسی ہے، انور سن رائے

کتاب میں بہت درد ہے، ناول سمجھ کر پڑھا تو بہت لطف آیا، خالد معین

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ممبر زلائژن کمیٹی کے زیر اہتمام ارشد رضوی کی علامتی خود نوشت ”زرد موسم کی یادداشت“ کی تقریب رونمائی حسینہ معین ہال میں کی گئی۔ تقریب کی صدارت انور سن رائے نے کی جبکہ اقبال خورشید ، سید کاشف رضا ، خالد معین اور زیب اذکار حسین نے اظہار خیال کیا۔نظامت کے فرائض حناامبرین طارق نے انجام دیے۔ صدارتی خطبے میں انور سن رائے نے کہا کہ میں اس کتاب کو پڑھتے ہوئے محسوس کیاکہ اس کا بنیادی موضوع ایک ناگہانی حادثے سے پیدا والی ایک ایسی اداسی ہے جو اکثر ہمارے اندر بیٹھ جاتی ہے پھر جو بھی واقعہ پیش آتا ہے وہ نئے سرے سے ایک نیا رخ اختیار کرتی اور جنم لیتی ہے، انہوں نے کہاکہ میں اگر ان کی کتاب پر بات کروں تو الفاظ کم پڑ جائیں گے، انہوں نے زردموسم کی یادداشت کے حوالے سے مضمون بھی پڑھ کرسنایا۔ خالد معین نے کہا کہ میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بہت قوت کے ساتھ درد سہا ہے ۔ میں نے کتاب کو ناول سمجھ کر پڑھااور لطف لیا۔ اقبال خورشید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے یہ خوشگوار لمحہ ہے یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے ساتھ میں نے وقت گزارا ہے۔ میرے نزدیک یہ اداسی کی کتاب ہے ارشد رضوی اداسی کو قلم کی صورت میں سامنے لائے ہیں۔ اس موقع پر کتاب کے مصنف ارشد رضوی نے کہا کہ ایک واقعہ ایسا ہوا جس کی وجہ سے میں کہانی کی طرف آیا اگر میں یہ نہ لکھتا تو شا ید میں معذور ہوتا۔ میں زندہ رہنا چاہتا تھا اس لیے کتاب لکھی۔ اداسی مجھے اچھی لگتی ہے اسی لیے اسے کتاب کی صورت میں بند کرلیا، یہ کتاب میری سچائی ہے، تقریب میں فوزیہ خان اور سمان زیب اذکار حسین نے اقتباسات پیش کیے جبکہ حنا امبرین طارق اور کاشف رضا نے مکالے پڑھے

خبر نمبر 2

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں تاج علی رعنا کے شعری مجموعے ”تیرے شہر میں“ کی تقریب رونمائی اور مشاعرے کا انعقاد

تاج علی رعنا کی شاعری بہت عمدہ ہے، افتخار احمد ملک ایڈووکیٹ

تاج رعنا کے کلام میں موسیقی اور نغمگی بھرپور انداز میں پائی جاتی ہے، سید امجد حسین شاہ

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں تاج علی رعنا کے شعری مجموعے ”تیرے شہر میں“ کی تقریب رونمائی اور مشاعرے کا انعقاد گل رنگ ہال میں کیاگیا جس کی صدارت افتخار احمد ملک ایڈووکیٹ نے کی جبکہ مہمان خصوصی سید امجد حسین شاہ، ڈاکٹر عابد شیرانی ایڈووکیٹ تھے، حمیدہ کشش، سہیل احمد، فرحت اللہ قریشی، عروسہ علی، غلام علی وفا، ریحانہ روحی، مبارک علی ناز اور تاج علی رعنا کے علاوہ دیگر مقررین نے بھی اظہارِ خیال کیا، محمد علی گوہر نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا، تقریب کی نظامت کے فرائض تنویر سخن نے سرانجام دیے، شاعر ادیب افتخار احمد ملک ایڈووکیٹ نے صدارتی خطبہ میں کہاکہ ”تیرے شہر میں“ ایک مکمل کتاب ہے جس میں حمد، نعت، غزل اور مضامین سمیت تمام چیزیں بھرپور انداز میں موجود ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے، تاج رعنا نے مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، ساحر لودھیانوی، کیفی اعظمی، سیف الدین سیف اور مسرور انور کے ساتھ فنون لطیفہ میں کام کیا ،انہوں نے کہاکہ ان کی شاعری بہت عمدہ ہے، میں کتاب کی رونمائی پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں، سید امجد حسین شاہ نے کہاکہ تاج علی رعنا ایک اچھے موسیقی کار بھی ہیں جن کو شاعری کی ناپ تول بخوبی آتی ہے، آپ کے کلام میں موسیقی اور نغمگی بھرپور انداز میں پائی جاتی ہے تو میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں، عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے اتنی شاندار کتاب لکھنے پر تاج علی رعنا کو مبارکباد پیش کی اور کہاکہ ”تیرے شہر میں“ لکھے مضامین حقیقت سے آشنا ہیں، ان کی شاعری میں حسن خیال کی پختگی اور بلندی نظر آتی ہے، خیال اور الفاظ کا چناﺅ پائیدار بنیادوں پر کیاگیا ہے، ان کی شاعری انسان کے جمالی احساسات کو پرورش کرنے اور زندہ رکھنے میں ایک مو ¿ثر ذریعہ ہے، سہیل احمد نے کہاکہ شاعری ہمیشہ زندہ رہتی ہے، تاج علی رعنا علم کے خزانے سے مالا مال اور معصوم انسان ہیں، ان کی شاعری میں بھی معصومیت جھلکتی ہے، میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں، شاعرہ ریحانہ روحی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ایسے میں ادب کو ترجیح دینا بہت بڑی بات ہے، سوشل میڈیا کا دور ہے انسان بہت آگے نکل چکا ہے، ہمیں وقت کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے، تاج علی رعنا نے کہاکہ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے تمام ادیب، شاعر اور فنکاروں کو اکٹھا کرنے کی بہترین روایت قائم کررکھی ہے، میں آرٹس کونسل سمیت تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے اتنی شاندار تقریب کا انعقاد کیا، آخر میں انہوں نے اپنا کلام حاضرین کے گوش گزار کیا۔دوسرے مرحلے میں مشاعرہ ہو جس کی صدارت جسٹس توقیر اے خان نے کی جبکہ جاوید اقبال، صدیق ایڈووکیٹ، صدام سومرو، فرحت کلثوم، کامران صدیقی سمیت مختلف شعراءنے اپنا کلام پڑھ کر سنایا


27th January 2023

The spectacular performance of special children stole the show at ongoing Pakistan Youth Festival in Arts Council of Pakistan Karachi.

Karachi ( ) On the fifth day of the ongoing Pakistan Youth Festival in Karachi, a special children’s festival for special children was organized in the open-air theater. The students of schools, colleges and universities participated in the Pakistan Youth Festival from the morning while the boys and girls participated in the dance workshop. Hadi Bux Kalhoro, Prof. Dr. Shagfat Shahzadi spoke, during the final results of the speech competitions, President Arts Council Muhammad Ahmed Shah said that love and fear are two emotions that drive a person forward, if you do something with open mind then the whole world will be at your feet, we can go far in the world by controlling ourselves, he said, first of all we have to become a better person, father, son and a better husband, a breath of fresh air in our mind. Give, keep your ears and eyes open too, so get the blessings from wherever you get and move forward to acquire new knowledge. Secretary Special Education Hadi Bux Kalhoro expressed his views and said that President of Arts Council Muhammad Ahmed Shah always does something different, I congratulate him on the successful festival in Pakistan Youth Festival Battle of the Bands, singing, instrument, dance and acting finals will be held on January 28, while the musical program will be performed by Komail Anam and AUJ band.

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری پاکستان یوتھ فیسٹیول کے پانچویں روز خصوصی بچوں کی شاندار پرفارمنس نے میلہ لوٹ لیا

محبت اور خوف انسان کو آگے بڑھاتے ہیں ،صدر آرٹس کونسل محمد احمدشاہ

خصوصی بچوں کے لیے اسپیشل چلڈرن فیسٹیول کا انعقاد خوش آئند ہے،سیکریٹری اسپیشل ایجوکیشن ہادی بخش کلہوڑو

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری پاکستان یوتھ فیسٹیول کے پانچویں روز خصوصی بچوں کے لیے اسپیشل چلڈرن فیسٹیول کا انعقاد اوپن ایئر تھیٹر میں کیا گیا، خصوصی بچوں کی پینٹنگ ، تقریر ، ڈانس، اداکاری اور گلوکاری نے فیسٹیول میں شرکاءکے دل جیت لیے، پاکستان یوتھ فیسٹیول میں صبح سے ہی اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات نے شرکت کی جبکہ لڑکے اور لڑکیوں نے ڈانس ورکشاپ میں بھرپور انداز میں حصہ لیا، پاکستان یوتھ فیسٹیول میں صدرآرٹس کونسل محمد احمد شاہ، اسپیشل ایجوکیشن کے سیکریٹری ہادی بخش کلہوڑو، پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ شہزادی نے گفتگوکی، تقریری مقابلوں کے فائنل نتائج کے دوران صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ محبت اور خوف دو ایسے جذبے ہیں جو انسان کو آگے بڑھاتے ہیں جس دن آپ نے دماغ کی بندگراہ کو کھول لیا تو پوری دنیا آپ کے قدموں میں ہوگی، ہم خود پر قابو پاکر دنیا میں بہت آگے بڑھ سکتے ہیں، انہوں نے کہاکہ ہمیں سب سے پہلے بہتر انسان، باپ ، بیٹا اور بہترین شوہر بننا ہوگا ، اپنے دماغ میں تازہ ہوا کا جھونکا آنے دیں ، کان اور آنکھ بھی کھلے رکھیں ، ہمیں بڑے لوگوں کو فالو کرنا چاہیے مگر کسی ایک انسان کو نہیں، قائداعظم سے پاکستان اٹھا، آئن اسٹائن سے سائنس اور غالب سے شاعری تو جہاں سے جو فیض ملتا ہے وہ فیض حاصل کریں اور نئے علم کے حصول کے لیے آگے بڑھیں، اسپیشل چلڈرن فیسٹیول میں اسپیشل ایجوکیشن کے سیکریٹری ہادی بخش کلہوڑونے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ خصوصی بچوں کے لیے اسپیشل چلڈرن فیسٹیول کا انعقاد خوش آئند ہے، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ ہمیشہ کچھ الگ کرتے ہیں، میں کامیاب فیسٹیول پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پاکستان یوتھ فیسٹیول میں Battle of The Bands، گلوکاری، انسٹرومنٹ، ڈانس اور اداکاری کے فائنل 28جنوری کو ہوں گے جبکہ میوزیکل پروگرام میں کومیل انعم اور AUJ بینڈ پرفارم کریں گے


26th January 2023

پاکستان یوتھ فیسٹیول میں جمعہ کے روز اسپیشل چلڈرن فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے گا

مصوری،فوٹو گرافی، مضمون نویسی، کوئز اور تقریری مقابلوں کا فائنل 27جنوری کو ہوگا

صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کا شاندار بیٹ باکسنگ کرنے پر عبدالحادی کو 10ہزار روپے کیش انعام دینے کا اعلان

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام پاکستان یوتھ فیسٹیول میں اسپیشل چلڈرن فیسٹیول کا انعقاد جمعہ کے روز کیا جائے گا جس میں مختلف اسکول اور کالجز کے بچے پینٹنگ، اداکاری، ڈانس اور گلوکاری میں اپنی مہارت دکھائیں گے جبکہ 23جنوری سے مصوری،فوٹو گرافی، مضمون نویسی، کوئز اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والے امیدواروں کے نتائج کا اعلان 27جنوری کو کیا جائے گا ، شام 4بجے میوزک کانسرٹ ہوگا جس میں AUJبینڈ سمیت معروف گلوکار پرفارم کریں گے۔ پاکستان یوتھ فیسٹیول میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے شاندار بیٹ باکسنگ کرنے پر عبدالحادی کو 10ہزار روپے کیش انعام دینے کا اعلان کردیا، انہوں نے کہاکہ کراچی سمیت دیگر شہروں کے نوجوانوں پاکستان یوتھ فیسٹیول میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، مصوری اور فوٹو گرافی کے مقابلوں میں جیتنے والے خوش نصیبوں کو پچیس ہزار روپے کا انعام دیا جائے گا، فیسٹیول میں Battle of The Bands، تقریر، اداکاری، گلوکاری انسٹرومنٹ کے مقابلے، فوٹو گرافی اور لائیو مصوری کے دوخصوصی مقابلے جبکہ تھیٹر کی ورکشاپ بھی ہوئی۔ صبح 10بجے سے آرٹس کونسل میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ کے علاوہ مختلف کیٹیگریز میں حصہ لینے والے امیدواروں کا رش لگ گیا، ہر طرف نوجوان نسل فیسٹیول سے لطف اندوز ہوتے رہے جبکہ رقص کے سیمی فائنل میں مختلف ڈانس گروپ اور امیدواروں کی سولو پرفارمنس نے فیسٹیول کو چار چاند لگا دیے

A special children’s festival will be held on Friday in the Pakistan Youth Festival

The finals of painting, photography, essay writing, quiz and speech competitions will be held on January 27.

President of Arts Council Muhammad Ahmad Shah announced to award 10,000 rupees cash prize to Abdul Hadi for his excellent beat boxing.

KARACHI ( ) A special children’s festival will be organized in the Pakistan Youth Festival organized by the Arts Council of Pakistan Karachi on Friday, in which children from different schools and colleges will show their skills in painting, acting, dancing and singing, while painting will be held from January 23. The results of the candidates participating in painting, photography, essay writing, quiz and Declamation (Urdu-English) competitions from January 23 will be announced on January 27. There will be a music concert at 4pm in which famous singers including AUJ band will perform. In the Pakistan Youth Festival, President Arts Council Muhammad Ahmad Shah announced a cash prize of Rs 10,000 to Abdul Hadi for doing excellent beat boxing. He said that the youth of other cities including Karachi are actively participating in the Pakistan Youth Festival, painting Winners of the photography competitions will be awarded a prize of Rs.25,000.The festival will feature Battle of the Bands, speech, acting, singing and instrument competitions, two special competitions of photography and live painting, while a theater workshop will also be held. From 10 o’clock in the morning, there was a rush of candidates participating in various categories in addition to the students of schools, colleges and universities in the Arts Council, the young generation from all sides continued to enjoy the festival while in the semi-finals of the dance, various dance groups and solos of the candidates. The performance capped off the festival


25th January 2023

Arts Council of Pakistan Karachi announces free training for young people interested in IT. President Arts Council Karachi Muhammad Ahmad Shah.

Karachi  ( ) Pakistan Youth Festival is going on in full swing at the Arts Council of Pakistan Karachi. On the third day of the festival, bands from all over the city took part in the auditions of the Battle of the Bands Audition For 7 Different  Categorize were took place, In which Instrumentalist, Acting, Dance, Singing, Speech, Quiz and Painting Were included. On this occasion, two special contests of live painting and photography were organized, in which, 25,000 was announced for the lucky winners. Speaking at the festival, President Arts Council Muhammad Ahmad Shah said that education and training of the youth and learning modern technology are very important to make Pakistan strong and stable. Arts Council of Pakistan Karachi  will provide free IT learning facilities for the youth. He said that Pakistan is currently suffering from economic difficulties. Arts Council is announced to provide free training facility for youth. In which as many young people from wherever they belong they will be able to participate in this training program. Mohammad Ahmad Shah said that India is earning one hundred and seventy five billion dollars from IT. Pakistan’s youth are more intelligent than India’s. but unfortunately they do not get opportunities. Arts Council today announces that along with arts and other education and training, we are also providing IT learning opportunities for young people who do not have the resources to continue their education and are interested in the IT sector. After the Youth Festival, they can get registered at the Arts Council of Pakistan, Ahmed Shah Building, Ground Floor, Karachi. We will start training soon and organize training by calling international trainers. People of the city want us to contribute to the development of the country

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی آئی ،ٹی میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کے لئے مفت ٹریننگ کا اعلان ، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کا آرٹس کونسل کراچی میں جاری پاکستان یوتھ فیسٹیول میں نوجوانوں سے خطاب

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نوجوانوں کو آئی ، ٹی کی تربیت دینے کے لئے جلدی انتظام کر رہی ہے جہاں بین القوامی سطح کے ٹرینر کی خدمات حاصل کی جائیں گی ۔ ان خیالات کا اظہار صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے یوتھ فیسٹیول کے تیسرے روز نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ یوتھ فیسٹیول2023 کے تیسرے روز بھی گہما گہمی کا سلسلہ جاری رہا۔ فیسٹیول میں مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباءو طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی،فیسٹیول میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لئے نوجوانوں کی تعلیم وتربیت اور جدید ٹیکنالوجی کو سیکھانا بہت ضروری ہے ۔آرٹس کونسل آف پاکستان نوجوانوں کے لئے آئی ، ٹی سیکھنے کی سہولیات مفت فراہم کرے گی انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت اقتصادی مشکلات کا شکار ہے ۔ایک ایک ملین ڈالر کے لئے ہم پریشان ہیں اس صورت حال سے نکلنے کے لئے نوجوانوں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل نوجوانوں کے لئے فری ٹریننگ کی سہولت مہیا کرنے کا اعلان کیاجاتا ہے۔ جس میں جتنے نوجوان جہاں سے بھی ان کا تعلق ہو ۔ وہ اس تربیتی پروگرام میں حصہ لے سکیں گے ۔ محمد احمد شاہ نے کہا کہ بھارت آئی، ٹی سے ایک سو پچھتر بلین ڈالر کمارہا ہے ۔ہمارے پاس بھارت سے اچھے ذہین نوجوان ہیں ۔لیکن ان کو بد قسمتی سے مواقع نہیں ملتے ۔ آرٹس کونسل آج یہ اعلان کرتی ہے کہ فنون لطیفہ اور دیگر تعلیم و تربیت کے ساتھ ہم نوجوانوں کے لئے آئی ، ٹی سیکھنے کی سہولت بھی مہیا کر رہے ہیں جن نوجوان کو تعلیم جاری رکھنے کے لئے وسائل نہیں ہیں آئی ، ٹی کے شعبے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ یوتھ فیسٹیول کے بعد آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی احمد شاہ بلڈنگ گراونڈ فلور میں رجسٹریشن کرواسکتے ہیں ۔ہم جلد ہی ٹریننگ شروع کریں گے اور انٹر نیشنل ٹرینز کو بلا کرتربیت کا اہتمام کریں گے ۔انہوں نے مزید کہا کہ میں اور اس ملک اور شہر کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ملک کی ترقی میں حصہ ڈالیں اورنوجوانوں کوٹریننگ کے لئے کمپیوٹرفراہم کریں ۔ہم کوشش کریں گے کہ ان کو مفت میں کورس کروائیں ۔روز گار کمانا مشکل ہے اسلئے ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان گھر بیٹھ کرروز گار کمانا شروع کریں ۔اس سے نوجوان اپنے گھر والوں کی کمائی میں حصہ ڈال سکتے ہیں ،گھر کو خوشحال کر سکتے ہیں ۔ اس ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں ۔ملک کے جو مسائل ہیں ۔ اس میں نوجوان خود ہی اپنے آپ کواور اس ملک کو بھی آگے بڑھا سکتے ہیں ۔ یوتھ فیسٹیول کے تیسرے روزبھی مختلف کیٹیگریز کے مقابلے جاری رہے جن میں Battle of The Band،Instrumentalist،اداکاری، ڈانس، گلوکاری، تقریر،کوئزاور مصوری بھی شامل ہیں ، فیسٹیول میںInstrumentalistورکشاپ ،تھیٹر ورکشاپ ، ڈانس ورکشاپ ، گلوکاری ورکشاپ، تقریری ورکشاپ کا بھی انعقاد کیاگیا ۔ اس موقع پر لائیو مصوری اور فوٹو گرافی کے دو خصوصی مقابلوں کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں جیتنے والے خوش نصیبوں کے لئے 25,25ہزار نقد رقم دینے کا اعلان کیا گیا


24th January 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں پاکستان یوتھ فیسٹیول زوروشور سے جاری

پلیٹ فارم مہیا کرنے پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں، فیسٹیول میں شریک نوجوان نسل کے تاثرات

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں پاکستان یوتھ فیسٹیول زوروشور سے جاری ہے ، فیسٹیول کے دوسرے روز بھی مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباءو طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی، پاکستان یوتھ فیسٹیول میں مختلف کیٹیگریز کے مقابلے جاری رہے جن میں اداکاری، ڈانس، گلوکاری، تقریر، مضمون نویسی شامل ہیں ، تھیٹر ورکشاپ کا بھی انعقاد کیاگیا جس میں آرٹس کونسل کے مینٹورز اسد گجر، راحیل صدیقی، مظہر نورانی، اور فرحان عالم نے امیدواروں کو اداکاری کے گُر سکھائے، مقابلوں میں حصہ لینے نوجوانوں نے اتنا بڑا پلیٹ فارم مہیا کرنے پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کا شکریہ ادا کیا جبکہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں فوڈکورٹ کا بھی اہتمام کیاگیا، واضح رہے کہ پاکستان یوتھ فیسٹیول 29 جنوری 2023ءتک جاری رہے گا اور مقابلے میں جیتنے والے خوش نصیب کو 2لاکھ روپے انعام دیا جائے گا

Pakistan Youth Festival continues in full swing at the Arts Council of Pakistan Karachi

Contestant thanks Arts Council`s President Mohammad Ahmad Shah for providing platform.

Karachi ( ) Arts Council of Pakistan Pakistan Karachi Youth Festival is going in full swing, on the second day of the festival, a large number of male and female students from different colleges and universities participated in the Pakistan Youth Festival. Dance, singing, speech, essay writing are included. A theater workshop was also organized in which Arts Council mentors Asad Gujjar, Raheel Siddiqui, Mazhar Noorani and Farhan Alam taught the candidates the tricks of acting. Contestant thanked President Arts Council Muhammad Ahmad Shah for providing a big platform, while a food court was also organized in Arts Council of Pakistan Karachi. A prize of Rs 2 lakh will be awarded to the lucky winner of the competition. Festival will till 29th January 2023


23rd January 2023

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے 7روزہ ”پاکستان یوتھ فیسٹیول 2023“ کا رنگا رنگ افتتاح کردیاگیا

خود راستے تلاش کریں منزلیں آپ کے سامنے ہونگیں،معروف ادیب و دانشور انور مقصود

پاکستان یوتھ فیسٹیول نوجوانوں کا ہے، آپ نے ملک کا نام روشن کرنا ہے، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

ہمیں مشکلات سے ڈرنا نہیں چاہیے ایک بار ٹھان لیں تو سب کرسکتے ہیں، وائس چانسلر جامعہ کراچی خالد عراقی

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے 7روزہ ”پاکستان یوتھ فیسٹیول 2023“ کا رنگا رنگ افتتاح معروف ادیب و دانشور انور مقصود نے کردیا ، اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اور جامعہ کراچی کے وائس چانسلر خالد عراقی بھی ان کے ہمراہ تھے، معروف ادیب و دانشور انور مقصود نے کہاکہ سب سے بڑا عہدہ کسی جامعہ کا وائس چانسلر ہونا ہے اس سے بڑا کوئی مقام نہیں ہوتا، آپ لوگ پاکستان کا مستقبل ہیں، خواتین پاکستان کا مستقبل ہیں جن کا صرف آدھا چہرہ نظر آتا ہے، پاکستان کے ہر شعبے میں آپ کو خواتین نظر آئیں گی، انہوں نے کہاکہ میں یہاں آپ کے لیے آیا ہوںآپ اس سرزمین کے بچے ہیں، خود راستے تلاش کریں منزلیں خود آپ کے سامنے آئیں گی، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کا افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کووڈ کی وجہ سے یوتھ فیسٹیول گزشتہ پانچ برسوں سے نہیں ہو سکا، پانچ سال بعد اس فیسٹیول کا انعقاد کر رہے ہیں، اس فیسٹیول میں تیس ہزار طلبا نے رجسٹریشن کرائی ہے، جامعہ کراچی جہاں سے انور مقصود،احمد شاہ،ہما میر اور بہت سی ہستیاں پاس آوٹ ہوئیں، کراچی یونیورسٹی سب کالجز کو ساتھ لے کر چلتی ہے، یہ یوتھ فیسٹیول آپ نوجوانوں کا ہے، آپ نوجونوں نے اپنا نام روشن کرنا ہے، آپ کا نام روشن ہو گا تو ملک کا نام روشن ہو گا، اس ملک نے بہت دکھ دیکھے ہیں، آپ طلبائ نے کسی چیز سے ہمت نہیں ہارنی، ملک کے حالات کو ہم بدلیں گے ، تم سب بدلو گے، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر خالد عراقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ یوتھ فیسٹیول میں دعوت پر آرٹس کونسل کا بے حد شکر گزار ہوں، انور مقصود پاکستان کا بہت بڑا نام ہے، انہوں نے بتایا کہ جب میں میٹرک میں زیر تعلیم تھا تب سے انور مقصود کو سنتا اور پڑھتا آ رہا ہوں، ہم اکثر مشکلات سے ڈر جاتے ہیں جبکہ ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے، جب آپ کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو کر سکتے ہیں۔واضح رہے کہ آرٹس کونسل کراچی میں جاری پاکستان یوتھ فیسٹیول کے افتتاحی روز 4مختلف کیٹیگریز کے آڈیشنز منعقد کئے گئے جس میں ہزاروں طلبہ وطالبات نے حصہ لیا ۔ بقیہ 6کیٹیگریز کے مقابلے 28 تاریخ تک جاری رہیں گے ۔ جبکہ 29تاریخ کو فیسٹیول کی ا ختتامی تقریب منعقد ہوگی .افتتاحی  تقریب میں معروف گلوکار عاصم اظہر ، کشمیر بینڈ ، جیمبروز ، مصطفی بلوچ نے اپنی پرفارمنس سے میلہ لوٹ لیا

Arts council of Pakistan Karachi ‘s Pakistan youth festival  2023  kicked off with full swing

Find your own way, the destination will be in front of you, famous writer and intellectual Anwar Maqsood

Karachi ( ) Pakistan Youth Festival  2023 was grandly inaugurated by the Arts Council of Pakistan Karachi. A large number of youth participated in the Festival. Festival was inaugurated by the well-known intellectual and writer Anwar Maqsood. President of the Arts Council Muhammad Ahmad Shah and Vice-Chancellor of University of Karachi Khalid Iraqi also accompanied him, the famous writer and intellectual Anwar Maqsood said that I have come here for you, you are the children of this land, find your own way, the destinations will come before you, President of Arts Council Muhammad Ahmad Shah  While addressing the opening ceremony, he said that due to Covid, the Youth Festival could not be held for the last five years. After five years, we are organizing this festival. Thirty thousand students have registered in this festival. University of Karachi, from where Anwar Maqsood, Ahmed Shah, Huma Mir and many other personalities have passed out, you youths have to make your name bright, if your name is bright then the name of the country will be bright, this country has seen a lot of suffering, you students do not lose heart from anything, the conditions of the country We will change, you will all change, Vice Chancellor of University of Karachi, Khalid Iraqi, expressed his gratitude to the Arts Council for inviting him to the Youth Festival, he Said  Anwar Maqsood is a great name of Pakistan, he said that I have been listening and reading Anwar Maqsood since I was studying in matriculation. We often get afraid of difficulties while we should not be afraid. When you decide to do something, you can do it. On the opening day of the ongoing Pakistan Youth Festival, auditions of 4 different categories were held in which thousands of male and female students participated.   Audition  of the remaining 6 categories will continue till 28 January . While the  Closing  ceremony of the festival will be held on 29th, the famous singer Asim Azhar, Kashmir Band, Jambrooz, Mustafa Baloch stole the festival with their performances 


15 January 2023

Arts Council of Pakistan Karachi pays tribute to screen and dialogue writer and playwright Javed Siddiqui.

Karachi ( ) Arts Council of Pakistan Karachi pays tribute to screen and dialogue writer and playwright Javed Siddiqui  at  Auditorium  II  on Friday evening . In which President Arts Council   Mohammad Ahmad Shah, Famous broad caster Zia Mohiuddin , famous poetess Zehra Nigah  and  Fatima Hasan  were participated . Talking to the   event Subcontinent’s famous writer Javed Siddiqui said that I was a journalist but suddenly started writing films. I got married with the help of comrades but what happened was good that wife got very good, children are all talented but Sameer is my extension. Javed Siddiqui said that it is said on our side that the children would have divided the angels. So I wrote that what came into the heart of the angels brought me into this family like Muhammad Ali Johar, Shaukat Ali Johar my grandfather and many great people in whose company, I trained and am here before you today. said that “Dil Wale Dulhania Le Jayenge” has become my identity but I want to make my identity something else. He said that there was no thought of writing the story of the film, today I think that life does not go by our will but by the will of some other force. I was in journalism. During the emergency in India, there was a need to write the story of a film, so a film writer would write it, so my name was suggested, but I was selected in a three-minute meeting. At that time my hands and feet became cold. I wrote the dialogues and you liked them. Javed Siddiqui said that my prose is unconscious, poetry emerges from the best prose. He said that whatever  I wrote for myself. My sketches are my own story. Many people say that one should not write like this, but I think that a writer should not be small. He said that when I arrived in Delhi in 1960, the progressive movement was not so active, but with it there were great people who did not discriminate against anyone. When I got married, Sultana Apa had 700 rupees in her account, out of which she gave 600 rupees to me. All the comrades helped, thus the marriage took place in Chande, but what happened was good, the wife was very good. About his children, Javed Siddiqui said that all are talented, but Sameer is my extension. Farida Javed said that Javed is not only a writer but also a very good person, I liked him and got married, on which my brother was angry for two years. Zahra Nigah   said that when I read Javed Siddiqui’s writing, I was sure that one day I would meet him. Javed wrote a lot but people don’t forget “Dil Wale Dilhaniyale  Jayenge”.  she said that the language was inherited from Muhammad Ali Johar. There are many achievements of human beings which even death cannot annihilate, including Javed. Javed’s work is solitary work, not teamwork. she asked about “Shatranj”, how much trouble did you have to take in writing its dialogues, Zahra Nigah said that Javed Siddiqui converted the prose into poetry. In some sentences, the poetry of Ghazal is known. Prayers and blessings for him, Fatima Hasan asked about specific words in Javed Siddiqui’s prose, whether this perfection is conscious or unconscious. Speaking earlier, Zia Mohiuddin said that we have not read such prose before. Let me read a chapter from his book Langar Khana. President of Arts Council Ahmed Shah said that I wanted this great personality   of our era. The man visited the Arts Council. Today on our stage are sitting the great men of the subcontinent who are the chain of communication of a divided India. He said that the relationship of love with Javed Siddiqui cannot be described in words. He hoped that the conditions of both the countries will be good and the writers of both the countries will be able to meet with the people of these countries. Earlier, Javed Siddiqui cut the birthday cake along with wife Farida and son Sameer, niece Anaya, Zia Mohiuddin, Zahra Nigah, Fatima Hassan and Muhammad Ahmed Shah. The audience in the packed hall gave him a standing ovation and wished him a happy birthday

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام اسکرین و ڈائیلاگ رائٹر و ڈرامہ نگار جاوید صدیقی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تقریب کا انعقاد

انسانوں کے بہت سارے کارنامے ایسے ہیں جسے موت بھی فنا نہیں کر سکتی ان میں جاوید بھی شامل ہیں،زہرا نگاہ

میرے خاکے میری اپنی کہانی ہیں، بہترین نثر سے نظم نکلتی ہے، معروف اسکرین و ڈائیلاگ رائٹر و مصنف جاوید صدیقی

جاوید صدیقی کے ساتھ محبت کے جو رشتے ہیں ان کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے،صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

جاوید صدیقی جیسی نثر ہمیں پہلے پڑھنے کو نہیں ملی، ضیاءمحی الدین

کراچی( ) برصغیر کے نامور ادیب جاوید صدیقی نے کہا کہ میں تو صحافی تھا لیکن اچانک فلمیں لکھنے لگا۔ میری شادی کامریڈوں کے چندہ سے ہوئی لیکن جو ہوا اچھا ہوا کہ بیگم بہت اچھی مل گئی بچے سارے باصلاحیت ہیں لیکن سمیر میری ایکسٹینشن ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے لیے منعقدہ تقریب سے کیا۔ اس موقع پر زہرا نگاہ، ضیاءمحی الدین، فاطمہ حسن اور صدرآرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے بھی گفتگو کی۔ جاوید صدیقی نے کہا کہ ہماری طرف کہا جاتا ہے کہ بچے فرشتے تقسیم کر دیتے۔ اس لیے میں نے لکھا کہ فرشتوں کے دل میں کیا آئی مجھے اس گھرانے میں پیدا کیا جیسے محمد علی جوہر، شوکت علی جوہر میرے دادا اور کئی بڑے لوگ جن کی صحبت میں، میں نے تربیت حاصل کی اور آج آپ کے سامنے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ میری شناخت بن گئی ہے لیکن میں اپنی شناخت کچھ اور بنانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ فلم کی کہانی لکھنے کا سوچا بھی نہیں تھا، آج سوچتا ہوں کہ زندگی ہماری مرضی پر نہیں بلکہ کسی اور قوت کی مرضی سے چلتی ہے۔ میں صحافت میں تھا۔ بھارت میں ایمرجنسی کے دوران ضرورت پڑی کہ ایک فلم کی کہانی لکھنی ہے وہ لکھے گا جو فلمی لکھاری ہو، تو میرے نام کی تجویز ہوئی لیکن تین منٹ کی ملاقات میں میرا انتخاب ہو گیا۔ اس وقت میرے ہاتھ پاﺅں ٹھنڈے ہو گئے۔ میں نے ڈائیلاگ لکھے اور آپ کو پسند آئے۔ جاوید صدیقی نے کہا کہ میرے نثر غیر شعوری ہیں، بہترین نثر سے نظم نکلتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جو کچھ بھی لکھا وہ میں نے اپنے لیے لکھا۔ میرے خاکے میری اپنی کہانی ہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں لکھنا چاہیے لیکن میں سمجھتا ہو کہ لکھنے والے کو چھوٹا نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ 1960ءمیں جب میں دلی پہنچا تو ترقی پسند تحریک اتنی متحرک نہیں تھی لیکن اس کے ساتھ لوگ بہت بڑے تھے جو کسی میں امتیاز نہیں کرتے تھے۔ جب میری شادی ہوئی تو سلطانہ آپا کے اکاو ¿نٹ میں 7 سو روپے تھے جس میں سے 6سو روپے مجھے دے دیئے۔ سارے کامریڈ نے مدد کی اس طرح چندے میں شادی ہو گئی لیکن جو ہوا اچھا ہوا، بیوی بہت اچھی ملی۔ اپنے بچوں کے بارے میں جاوید صدیقی نے کہاکہ سب باصلاحیت ہیں تاہم سمیر میری ایکسٹینشن ہیں۔ فریدہ جاوید نے کہا کہ جاوید لکھاری ہی نہیں بہت اچھا انسان بھی ہیں، میں نے ان کو پسند کیا اور شادی ہوئی جس پر میرے بھائی دو سال تک ناراض رہے۔ زہرا نگاہ نے کہا کہ جب میں نے جاوید صدیقی کی تحریر پڑھی تو یقین تھا کہ ایک دن ان سے ملاقات ضرور ہو گی۔ جاوید نے بہت لکھا لیکن ”دل والے دلہنیالے جائیں گے“ لوگ نہیں بھولتے۔ انہوں نے کہا کہ زبان تو ان کو ورثہ میں ملی محمد علی جوہر سے تعلق تھا۔ انسانوں کے بہت سارے کارنامے ہیں جن کو موت بھی فنا نہیں کر سکتی ان میں جاوید بھی شامل ہیں۔ جاوید کا کام تنہا کام ہے ٹیم ورک نہیں۔ انہوں نے ”شطرنج“ کے بارے میں سوال کیا کہ اس کے ڈائیلاگ لکھنے میں آپ کو کتنی تکلیف اٹھانی پڑی، زہرا نگاہ نے کہاکہ جاوید صدیقی نے نثر کو نظم میں ڈھال دیا۔ بعض جملوں میں غزل کا شعر معلوم ہوتا ہے۔ ان کے لیے دعا بھی اور مبارک بھی، فاطمہ حسن نے جاوید صدیقی کی نثر میں سے مخصوص الفاظ کے بارے میں سوال کیا کہ یہ کمال شعوری ہے یا غیر شعوری۔ضیاءمحی الدین نے جاوید صدیقی کے خاکوں کی مخصوص انداز میں پڑھنت کی۔ اس سے قبل گفتگو کرتے ہوئے ضیاءمحی الدین نے کہا کہ ایسی نثر ہمیں پہلے پڑھنے کو نہیں ملی۔ان کی کتاب لنگر خانہ سے ایک باب پڑھ کر سناتا ہوں۔صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے کہا کہ میں چاہتا تھا کہ ہمارے عہد کا یہ بڑا آدمی آرٹس کونسل تشریف لائے۔ آج ہمارے اسٹیج پر برصغیر کے بڑے لوگ بیٹھے ہیں جو منقسم ہندوستان کے رابطہ کی زنجیر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جاوید صدیقی کے ساتھ محبت کے جو رشتے ہیں ان کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔ انہوں نے امید کی کہ دونوں ممالک کے حالات اچھے ہوں گے اور دونوں ممالک کے ادیب ان ملکوں کے عوام کے ساتھ مل سکیں گے۔ اس سے قبل جاوید صدیقی نے بیگم فریدہ اور صاحبزادے سمیر، بھتیجی عنایہ ، ضیاءمحی الدین، زہرا نگاہ ،فاطمہ حسن اور محمد احمد شاہ کے ہمراہ سالگرہ کا کیک کاٹا۔ کچھا کھچ بھرے ہال میں سامعین نے کھڑے ہوکر تالیوں بجا ئیںاور ان کو سالگرہ کی مبارکباد دی


12 January 2023

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام معروف اسکرین و ڈائیلاگ رائٹر اور ڈرامہ نگار جاوید صدیقی کو خراجِ تحسین پیش کرنے لیے جمعہ 13جنوری 2023ءکو ساڑھے 6بجے تقریب کا انعقادآڈیٹوریم II میں کیا جائے گا، جس میں معروف صدا کار و ہدایت کار ضیاءمحی الدین پڑھنت کریں گے جبکہ معروف ادیب و مزاح نگار انور مقصود، زہرا نگاہ، ادیب اسد محمد خان، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اظہارِ خیال کریں گے۔ جبکہ تقریب میں جاوید صدیقی کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا جائے گا۔


Arts Council of Pakistan Karachi organized a dance workshop for the dance lovers by renowned classical dancer “Suhaee Abro “

Karachi ( ) Arts Council of Pakistan Karachi organized a”Dance Workshop” at Studio II for classical and contemporary dance enthusiasts. The trainer   of the dance workshop was renowned classical dancer “Suhaee Abro “. Suhaee Abro taught the participants of the workshop the basic rhymes and Techniques related to classical and contemporary dance. A large number of young people participated in the workshop. On this occasion, the teachers of Dance Academy of Arts Council Karachi Mani Chao and Abdul Ghani were also present. It should be noted that new admission in dance classes are being started again in Arts Council Karachi. The admission date of to dance and theater classes has been extended till January 17


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے رقص کے دلدادہ افراد کے لئے معروف کلاسیکل ڈانسر “سوہائی ابڑو “کی ڈانس ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا

کراچی (  ) کلاسیکل اور کنٹیمپری ڈانس کے دلدادہ افراد کے لئے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے “ڈانس ورکشاپ “کا انعقاد اسٹوڈیو IIمیں کیا گیا ۔ ڈانس ورکشاپ کی ٹرینر معروف کلاسیکل ڈانسر “سوہائی ابڑو “تھی۔ سوہائی ابڑو نے ورکشاپ کے شرکاءکو کلاسیکل و کنٹیمپری رقص سے متعلق بنیادی رموزواقاف سیکھائے ۔ ورکشاپ میں نوجوان نسل کی بڑی تعداد نے حصہ لیا ۔ اس موقع پر آرٹس کونسل کراچی کی ڈانس اکیڈمی کے اساتذہ مانی چاو اور عبدالغنی بھی موجود تھے واضح رہے کہ آرٹس کونسل کراچی میں ڈانس کلاسز کے نئے داخلوں کا آغاز ہو گیا ہے ۔ ڈانس اور تھیٹرکی کلاسز میں داخلے کے تاریخ17جنوری تک بڑھا دی گئی ہے


The 4th Tilism Theater and Dance Festival was grandly inaugurated with the joint cooperation of Arts Council of Pakistan Karachi and Tehrik-e-Niswan.

The festival will continue till 22 January 2023 at Arts Council Karachi

KARACHI ( ) The 4th  17-day Tilism Theater and Dance Festival was grandly inaugurated with the classical performance of well-known classical dancer Sohai Abro, in conjunction with the completion of 45 years of Tehrik-e-Niswan, with the joint cooperation of Arts Council of Pakistan Karachi and Tehrik-e-Niswan. Sheema karmani  presented a great classical dance along with her dance group. Romana Hussain performed the duties of the moderator in the event. The founder of Tehrik-e-Niswan Sheema Karmani said that the journey of Tehrik-e-Niswan is continuing with the hard work of the last forty-five years, we have struggled to convince ourselves. today we are celebrating as the day of our being, I thank Arts Council of Pakistan Karachi who gave the opportunity to organize this festival, theater, dance, music, debates on daily basis in the festival. And games will be presented, the festival will continue till 22nd January 2023 while performances will be presented daily at 7:30 pm, the festival is free for all citizens but children under twelve years of age cannot participate in the festival. It is to be noted that many of the plays presented at the 4Tilism Festival have been significant in the history of theater and dance in Pakistan, while the Mohenjo-daro Puppet Show was a highlight of the festival. It should be noted that many of the plays presented at the 4th Tilism Festival have been significant in the history of theater and dance in Pakistan, including the presentation of the Urdu version of “Light in the Village”, originally written by Scottish playwright “Jo Clifford” wrote who is coming from UK to attend the festival. She will be the keynote speaker at the conference “Building a Theater of Love” on Monday 9 January, followed by 2 performances of her play “Gaon Me Roshni” on Tuesday 10 and Wednesday 11 January, the highlight of the festival being the new production “Andrasbha”. Premiere, it is a delightfully romantic dance and music extravaganza with exquisite costumes, sets and lights, festival comedy drama “Bahrupiya”, historical play “Jinnay Lahore Nahin Vekhya”, Sufi poet, dancer, saint Bhagat Kanwar Ram. Including the story and to mark 100 years of the discovery of Mohenjo-daro, the spectacular dance drama “Mohen-jo-daro” will be presented. The performance integrates dialogue and narrative with dance and music, traditional storytelling techniques and the conventions of sub continental traditions and genres. The movement produced videos, documentaries, serials and music videos, organized seminars and conferences and organized residential youth conventions for cultural appreciation.


آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور تحریک نسواں کے مشترکہ تعاون سے چوتھا طلسم تھیٹر اینڈ ڈانس فیسٹیول کا شاندار افتتاح کردیاگیا

چوتھے طلسم تھیٹر اینڈ ڈانس فیسٹیول میں معروف کلاسیکل ڈانسر شیماکرمانی اور سوہائی ابڑو کی شاندار کلاسیکل پرفارمنس

فیسٹیول 22جنوری 2023ءتک آرٹس کونسل کراچی میں جاری رہے گا

کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور تحریک نسواں کے مشترکہ تعاون سے تحریک نسواں کے 45سال مکمل ہونے کی مناسبت سے چوتھے 17روزہ طلسم تھیٹر اینڈ ڈانس فیسٹیول کا شاندار افتتاح معروف کلاسیکل ڈانسر سوہائی ابڑو کی کلاسیکل پرفارمنس سے ہوا ، فیسٹیول میں شیما کرمانی نے اپنے ڈانس گروپ کے ہمراہ زبردست کلاسیکل رقص پیش کیا۔تقریب میں نظامت کے فرائض رومانہ حسین نے انجام دیے ۔بانی تحریک نسواں شیما کرمانی نے کہاکہ گزشتہ پینتالیس برس کی محنت سے تحریک نسواں کا سفر جاری ہے، ہم نے خود کو منوانے کے لیےبڑی جدوجہد کی ہے ، آج کا دن ہم اپنے ہونے کے دن کے طور پر منا رہے ہیں، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے یہ فیسٹیول سجانے کا موقع دیا، فیسٹیول میں روزانہ کی بنیاد پر تھیٹر، ڈانس، موسیقی، مباحثے اور کھیل پیش کیے جائیں گے، فیسٹیول 22جنوری 2023ءتک جاری رہے گا جبکہ روزانہ ساڑھے سات بجے پرفارمنس پیش کی جائے گی، فیسٹیول تمام شہریوں کے لیے فری ہے جبکہ بارہ سال سے کم عمر بچے فیسٹیول میں شرکت نہیں کر سکتے۔ واضح رہے کہ 4Tilism فیسٹیول میں پیش کیے جانے والے بہت سے ڈرامے پاکستان میں تھیٹر اور رقص کی تاریخ میں نمایاں رہے ہیں، جبکہ فیسٹیول میں موہنجوداڑو کا پیپٹ شو توجہ کا مرکز بنا رہا۔ فیسٹیول میں ”لائٹ اِن دی ولیج“ کے اردو ورژن کی پیشکش بھی شامل ہے، جو اصل میں اسکاٹش ڈرامہ نگار ”جو کلفورڈ“ نے لکھا ہے جوکہ برطانیہ سے فیسٹیول میں شرکت کے لیے آرہی ہیں۔ وہ پیر 9جنوری کو منعقد ہونے والی کانفرنس ”بلڈنگ اے تھیٹر آف لو“ میں مرکزی مقرر ہوں گی جس کے بعد منگل 10اور بدھ11جنوری کو اپنے ڈرامے ”گاﺅں میں روشنی“ کی 2 پرفارمنس ہوں گی، فیسٹیول کی خاص بات نئی پروڈکشن ”اندرسبھا“ کا پریمییئر ہے، یہ شاندار ملبوسات، سیٹس اور روشنیوں کے ساتھ ایک لذت آمیز رومانوی رقص اور موسیقی کا اسراف ہے، فیسٹیول میں مزاحیہ ڈرامہ ”بہروپیا“، تاریخی کھیل ”جنے لاہور نہیں ویکھا“، صوفی شاعر، رقاص، سنت بھگت کنور رام کی کہانی بھی شامل ہے اور موہنجوداڑو کی دریافت کے 100سال مکمل ہونے پر شاندار ڈانس ڈرامہ ”موہنجوداڑو“ بھی پیش کیاجائے گا، تحریک نے 200 سے زیادہ فنکارانہ اور سماجی طور پر متعلقہ پروڈکشنز مختلف شکلوں اور انداز میں تیار کی ہیں۔ پرفارمنس ڈانس اور موسیقی، روایتی کہانی سنانے کی تکنیک اور برصغیر کی روایات اور انواع کے کنونشن کے ساتھ مکالمے اور بیانیہ کو مربوط کرتی ہے۔ تحریک نے ویڈیوز، دستاویزی فلمیں، سیریل اور میوزک ویڈیوز بنائے، سیمینارز اور کانفرنسیں منعقد کیں اور ثقافتی تعریف کے لیے رہائشی یوتھ کنونشنز کا انعقاد کیا


3 January 2023

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور تحریک نسواں کے مشترکہ تعاون سے تحریک نسواں کے قیام کے 45سال مکمل ہونے پر ”چوتھا طلسم تھیٹر اینڈ ڈانس فیسٹیول“ سے متعلق پریس کانفرنس بدھ 4جنوری 2023ءکو دوپہر ایک بجے آرٹس کونسل کراچی کے آڈیٹوریم I میں ہوگی جس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، سماجی کارکن و بانی تحریک نسواں شیماکرمانی اور انور جعفری بریفنگ دیں گے۔