November 2018: Press Release

Arts Council of Pakistan Karachi, Press releases during November 2018

Press Release

November 2018


 

25th November 2018

کراچی (  ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے آخری روز حاضرین اور دنیا بھر سے آئے ہوئے دانشوروں نے اُردو کی ترقی و ترویج کے لئے متعددقراردادیں منظور کیں، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے قراردادیں پڑھ کر سنائیں جوحاضرین نے ہاتھ کھڑے کرکے منظور کیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں: اعلان کیا گیا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرے گی کہ عدالت حکومت کو اپنے فیصلے کے مطابق اردو کو ملک میں بطور سرکاری زبان کے نافذ کرنے کی ہدایت کرے۔(1) امن انسانی معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے اور آج د ±نیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ہم اہلِ قلم یقین رکھتے ہیں کہ جنگیں ،دہشت گردی اور اسلحے کی دوڑ، یہ سب انسانی سماج کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ سو ہم قیامِ امن کی بات کرتے اور اس کے حق میں آواز بلندکرتے ہیں۔(2) جنوبی ایشیا کے بین الملکی مسائل کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کے سوااور کو ئی صورت ممکن نہیں ہے۔اس لئے بات چیت کے عمل کوفوری اور مو ¿ثر سطح پر شروع کیا جائے۔(3) ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ادیبوں، شاعروں ، دانشوروں اور فنکاروں سے روابط کے فروغ پر اصرار کرتے ہیں۔ ان روابط کو مضبوط بنانے کے لئے مختلف ملکوں کے درمیان آمدورفت کے مسائل حل کئے جائیں اور ویزا کے حصول کو آسان بنایا جائے۔ (4)ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ذرا ئع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا زبان کی درستی اور تہذیبی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے۔مزید یہ کہ خصوصاً جنوبی ایشیا کا الیکٹرانک میڈیا خطے میں امن اور عوام کی خوشحالی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔(5)نوجوانوںکو اپنی تہذ یبی اور ثقا فتی اقدار اور مظاہر سے روشناس کرا نے کے لیے حکو متی سطح پر خصوصی اقدا مات کئے جائیں تا کہ نئی نسل کے دلوں میں ثقا فتی ورثے کا افتخار اور یقین جگہ پا سکے۔(6) ملک میں ہم آہنگی کے فروغ کے لئے اُردو اور دوسری قو می زبانوں کے ادیبوں، شاعروں کا میل جول بڑھایا جائے، صوبوں کے مابین ادیبوں اور فن کاروں کے وفود کے دورے کرائے جا ئیں اور ان سب زبانوں میں ادب، فلسفہ، فنون ، اقتصادیات اور سائنس سمیت دوسرے شعبوں کی کتا بوں کے تراجم کا اہتمام کرا یا جائے۔علاوہ ازیں پرائمری تک مادری زبان میں تعلیم کے لئے اقدامات کئے جائیں۔(7)غیر ملکی زبانوں میں ا ±ردو ادب کے تراجم کے سلسلے میں تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں تاکہ ہمارے ادب اور ادیبوں کو عالمی سطح پر شناخت کے مو ¿ثر مواقع فراہم ہوں۔(8) اُردو کوسرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کیا ہے اوروزیر اعظم نے بھی اس کا اعلان کیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کا ماحول اب تک نہیں بن سکا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیںکہ اس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ضروری اور سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔

کراچی (   )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے چوتھے دن ”یادِ رفتگاں“کے عنوان سے منعقدہ تیسرے اجلاس کے موقع پر ملک کے معروف شعراءاور ادباءنے اس جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والے شعراءکی یاد میں اظہارِ خیال کیا، اجلاس کی نظامت خرم سہیل نے کی، معروف شاعر افتخار عارف نے ساقی فاروقی مرحوم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ساقی فاروقی 1965ءمیں پاکستان چھوڑ کر باہر ملک چلے گئے تھے، میں نے ان کو دیکھا نہیں تھا مگر جس طرح کی باتیں ان سے منسوب تھیں تو ان انہیں دیکھنے اور ملنے کی خواہش بیدار ہوئی، اس زمانے میں اچھا شعر سن کر ہمیں رونا بھی آجاتا تھا، ساقی فاروقی بہت دنوں تک مذہب سے بیزار بھی رہے لیکن خود کشی کی ناکام کوشش کے بعد اپنے دوستوں کو لاکر بٹھایا اور کہاکہ میں مسلمان ہوں اور میری نماز عدیل صدیقی پڑھائیں گے، انہوں نے کہاکہ موت بہت سے فاصلوں کو خاموش کردیتی ہے، اگر خاموش نہیں کرتی تو انسان کو خود سوچنا چاہئے کہ وہ دوسروں کو معاف کرے یا نہ کرے خود کو تو معاف کرلے، ساقی فاروقی رومانوی شاعروں سے بہت چڑتے تھے اور باقاعدہ محاذ آرائی کرتے تھے، میں نے ساقی فاروقی سے بہت کچھ سیکھا ہے ان کی سوچ یہ تھی کہ اگر انہیں رومانوی شاعری پسند نہیں ہے تو مجھے بھی کوئی حق نہیں کہ میں فراز کو پسند کروں، ساقی فاروقی کبھی کسی غیر سے جھگڑا نہیں کرتے تھے جب بھی کرتے دوستوں سے کرتے تھے، اسی طرح انہوں نے کبھی بڑے نقاد سے جھگڑا نہیں کیا ہمیشہ کمزور آدمی سے جھگڑتے تاکہ وہ انہیں کچھ کہہ نہ سکے، انہیں جانوروں سے بہت محبت تھی اسی لئے جانوروں پر ان کی کئی نظمیں بھی موجود ہیں، سید نعمان الحق نے معروف افسانہ نگار ، نقاد اور مترجم محمد عمر میمن مرحوم کے بارے میں اظہارِ خیال کیا، انہوں نے بتایا کہ ان کے والد مولانا عبدالعزیز میمن اس وقت بہت بڑے عالم کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور برصغیر میں عربی لغت کا جاننے والا ان سے بڑا نام کوئی نہیں تھا، انہوں نے بتایا کہ محمد عمر میمن کی زیادہ تر توجہ تفسیر پر ہی رہی، وہ بہت ذہین ، محنتی اور باصلاحیت تھے جب ان کے انتقال کی خبر مجھے ملی تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے اپنے ہی گھر میں کوئی حادثہ ہوگیا ہے، ڈاکٹر فاطمہ حسن نے جمہوریت کی علمبردار اور عورتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض مرحومہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے خواتین سے متعلق صدیوں سے وابستہ باتوں کو اپنی شاعری سے رد کیا، ان کی شاعری میں عورت کے وجو د کا بھرپور ادراک موجود ہے، فہمیدہ نے تلخ موضوعات پر بھی لکھا ہے اور یہ بتایا کہ عورت انسان ہے کوئی اثاثہ نہیں جسے تقسیم کردیا جائے یا کسی کو تحفے میں دے دیا جائے، ان کی نظم عام معاشرتی رویوں کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہے، شاعری کے سفر میں انہوں نے خود کو زبان ومکاں کی قید سے ہمیشہ آزاد جانا ہے، ایوب خاور نے نامور ڈرامہ اور کالم نگار منو بھائی کے حوالے سے تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ منو بھائی ان شخصیات میں ہیں جن کی بدولت پاکستان کی ادبی، سیاسی اور صحافتی اقدار ترتیب پاتی ہیں، منو بھائی ایک روشن خیال اور بہترین شاعر تھے ان کی نظم ”ابھی قیامت نہیں آئی“ اُردو کی بہترین نظم ہے، منو بھائی کادل، ذہن اور قلم ایک ایسی تکون ہی پر رہے جس کی ایک ہی نوک تھی اور وہ تھی سچ کی نوک ، اس نوک سے انہوں نے اپنی شاعری کی اور کالم تحریر کئے، منو بھائی ایک کردار ساز ڈرامہ نگار تھے، انہوں نے بے شمار ڈرامے پی ٹی وی کے لئے لکھے تھے، یہ حقیقت ہے کہ منو بھائی اب ہم میں نہیں ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ موجود رہیں گے۔عرفان جاوید نے احمد بشیرمرحوم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ احمد بشیر کا روسی انقلاب اور سوشلزم پریقین اور جذبہ بوڑھے انقلابی کے سینے میں آخری وقت بھی دھڑک رہا تھا، احمد بشیر نظریاتی اور عملی طور پر انسانیت کے خیرخواہ تھے۔ انہوں نے سردیوں میں اپنا ایک ہی کوٹ ایک غریب آدمی کو دے دیا اور ایک دفعہ تین ہزار روپے ایک شخص کو اس لئے دے دیئے کہ اس نے کہاکہ اس کی بیوی کی طبیعت خراب ہے، وہ اُردو اور انگریزی دونوں پر مہارت رکھتے تھے، ان کا خیال تھا کہ ان کی وہ تحریریں زیادہ مشہور ہوئیں جو سطحی نوعیت کی تھیں، مبین مرزا نے معروف شاعر رسا چغتائی مرحوم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ رسا چغتائی ہر ایک سے بہت گرم جوشی سے ملنے والے اور ملنسار تھے وہ بہت زیادہ مذہبی تو نہیں تھے مگر اُن کے ایک دوست نے ان کو ایک بار نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کیا آپ ساری نمازیں پڑھتے ہیں تو انہوں نے کہاکہ جب پڑھنی ہوتی ہے تو پڑھ لیتا ہوں اور نماز پڑھنے کے بعد اللہ سے باتیں کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یا اللہ میں تیرا باغی تھوڑی ہی ہوں، میں تو تیرا بندہ ہوں اور بس، رسا چغتائی نے دُنیا داری سے کبھی شغف نہیں رکھا اُن کا مزاج قلندرانہ تھا، کورنگی میں ایک مکان میں اپنی زندگی کا پچاس سال سے زائد عرصہ گزار دیا اور موت سے قبل ڈیڑھ سال پہلے وہ مکان اس لئے فروخت کردیا کہ اولاد وں کو جائیداد میں حصہ اُن کی زندگی ہی میں مل جائے، وہ فقیرانہ طبیعت کے شخص تھے ، باہر ممالک سے جب انہیں مشاعرہ پڑھنے کے لئے بلایا جاتا اور بہت زیادہ معاوضہ کی پیشکش کی جاتی تو وہ طبیعت نہ ہونے کے باعث منع کردیا کرتے تھے اور اگر شہر کراچی میں کوئی انہیں مشاعرے میں بلائے اور نذرانہ بھی کم پیش کرتے تو وہ طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھی اپنے سامعین کی محبت میں چلے جایا کرتے تھے، رسا چغتائی نے خود پر کبھی تھکن نہیں چڑھائی جب وہ پاکستان آنے لگے تو انہوں نے اپنی بیوی سے یہ پوچھا کہ میں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا ہے اگر تم چلنا چاہو تو چلو اور وہیں رُکنا چاہو تو رُک جاﺅ، جس پر ان کی بیوی نے کہاکہ اب تو مرنا اور جینا آپ ہی کے ساتھ ہے لہٰذا میں بھی آپ کے ساتھ پاکستان چلوں گی، رسا چغتائی 1950ءمیں پاکستان کے لئے ہندوستان سے چلے مگر کیمپ میں کافی عرصہ رہنے کے بعد 1951ءمیں پاکستان آنے کا موقع ملا، یہاں آکر انہوں نے شعبہ مالیات میں ملازمت کرلی، بعد ازاں 1977ءمیں ریٹائرمنٹ لے لی اور 1989ءتک حریت اخبار میں کام کیا، اس کے بعد انہوں نے ملازمت مکمل طور پر چھوڑ دی اور مشاعروں میں شرکت کرنے کے نتیجے میں جو نذرانہ انہیں ملتا اُسی پر انہوں نے اپنی گزربسر کی۔

Karachi: The third session of the 4th day of international Urdu conference was title “Yad e Raftagan” (Remembering the departed). The discussant was Iftikhar Arif, Syed Noman ul Haq, AyubKhawar, Mubin Mirza, ArfanJaved, and Fatima Hassan where hosted by KhurramSohail they discussed the life of Saqi Farooqi, Muhammad Umar Memon, Mano Bhai, Rasa Chughtai, Ahmed Basher and Fahmida Riaz Respectively. While Discussing Mano Bhai, AyubKhawar said that Mano Bhai was a great figure or our time, his poetry and columns were reflecting his true life and struggle in life. ArfanJaved said that Ahmed Bashir was a great and committed communist and after the decline of USSR once he said to me that Communism is the only way of survival for all the people beyond the classes. Once he gives her a single coat to the man who asked for it.

Mubeen Mirza talked about the Rasa Chagatai, he said that he did a great work for Urdu. He was born in 1928 in a middle-class family. He indulges in the drinking wine but one day he decided to get rid of it and move to Pakistan. He and his wife moved to Pakistan after partition, initially, he got a job in the finance department and in 70 he left the job and joined a newspaper as an editor. He was a great poet of his time and all the time. He usually avoidsattending the Mushairas.  He spent a great and successful life and he often uses the make other easy with him.

Fatima Hassan discussed the life of veteran writer Fahmida Riaz’s life, she said that Fahmid Riaz Used to writer from the beginning to end. Fahmidacomes out with the poetry on the diverse subjects including the most taboo considered in our society. Her poetry reflects the feminist aspect of the society and breaking all the man dominated rules of society. Syed Noman ul Haq talked about the famous writer Muhammad UmerMemon, he said that He had done his MA from the University of Karachi, from where he stands unique from the other students. He was a great critic, short stories writer,and translator. He had a great grip on the Arabic dictionary. Iftikhar Arif discussed the legacy of Saqi Farooqi, he said Saqi Farooqi was one of the greatest writers of our time, his piece of writing was considered for the nomination of the noble prize. He said that we should not carry the rivalry and hate. I have learned a lot from him Said Iftikhar Arif.

Karachi: in the 4th session of the 4th day of international Urdu conference Arts council remembered the veteran writer and translator Razia Sajjad Zaher. The discussant was Nadira Zaheer Babar, Noor Zaheer, Syed Mazhar Jameel, Arif Naqvi, Muslim Shamim, Iqbal Haider, Bushra Iqbal, Rahat Saeed and hosted by Anees Zaidi. Mazhar Jameel said Razia Sajjad Zaher is a great name or Urdu fiction she did a great great job on Urdu short stories, she was not an only story teller but also a novelist and translator, she writes six novels, 3 short stories books, and 42 books of translation. Rashid Saeed said Her writing reflects the life of the common day, she was different in all ways. Iqbal Haider said Sajjad Zaheer was a great leader of the left but he was great because of Razia Sajjad. Noor Zaher said I always enjoyed coming to Pakistan. She shared the stories of her mother.

Bushra Iqbal Said that Razia Zaher supported his husband and without her, Sajjad Zaheer might not be a great man today we say him. Muslim Saleem said that she marked a special place in the progressive movement. The story of his life started with his life in 1917 when the Russian revolution takes place. This even influence her life greatly then she married to one of a great left figure Sajjad Zaheer. Their couple can be compared with a couple of Faiz and Elis. Basically, she was a short story writer however she used to write novel and translation in which she developed skills. Arif Naqvi said I was lucky to spend some time with in the ’50s and tries to understand her as well. While she was busy in the domestic chores and her children were growing, she used to attend the conferences of Anjaman Taraqi Pasand Musanafeen. She never lost courage and dedication and commitment to life. She was not progressive because of her husband but she was progressive because she uses to read the progressive literature herself.

Nadira Zaheer Babar, the daughter of Razia Sajjad Zaher discussed her life and her childhood stories. She said that her love and struggle for her children is unexplained. She was the fan of Dalip Kumar and whatever the situation was she used to watch the film in the cinema. She gives us what all she had and in the lifelong struggle she used to laugh every time.


خبر نمبر۔1

کراچی (  ) ملک کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے معروف اساتذہ اور شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہرین نے کہا ہے کہ قومی ترجیحات کی فہرست میں تعلیم ساتویں نمبر پر ہے، سندھ میں ساڑھے 12ہزار اسکول گھوسٹ ہےں، نہ صرف اسکول بلکہ بعض اساتذہ اور پینشررز بھی گھوسٹ ہیں، کراچی میں 136سرکاری اور 180پرائیویٹ کالجز ہیں، تعلیم کے شعبہ کو آگے لے جانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں عدم برداشت کا ماحول پیدا کیا جائے، تعلیم کا شعبہ اپنی قیادت سے پہچانا جاتا ہے، تعلیم سیاسی معاملہ ہے اس کا فیصلہ بڑے ایوانوں میں ہوتا ہے کہ تعلیم کی سطح کو اوپر لے جانا ہے، وہیں رکھنا ہے یا اور نیچے لے جانا ہے، ضرورت صرف فیصلہ کرنے کی ہے، اگر اوپری سطح پر یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ تعلیم کے شعبے کو سب سے آگے لے جانا ہے تو پھر تعلیم کے شعبے کو آگے بڑھانے سے کوئی نہیں روک سکتا،اندرونِ سندھ کے شہروں میں تعلیم کا بہت بُرا حال ہے، سندھ کے اسکولوں میں خاتون ٹیچرز کا فقدان ہے، ملک کی آبادی میں تو اضافہ ہورہا ہے مگر اساتذہ اور طالب علموں میں اضافہ نہیں ہورہا، تعلیم پر ملک بھر کے صوبوں سے درست ڈیٹا جمع کرنا ضروری ہے، تعلیم کا شعبہ اگر زوال پذیری کا شکار ہے تو اس کی وجہ اوپری سطح پر موجود خرابیاں ہیں، چند اینکرز تعلیم کے معاملے پر بھی پالیسی میکرز کے طور پر کام کررہے ہیں، ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے، وہ تعلیم زیادہ بہتر ہے جس میں بچہ خود سیکھے، ان خیالات کا اظہار آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے چوتھے دن پہلے اجلاس کے موقع پر ”معیاری تعلیم سب کے لئے “کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے گفتگو کرتے ہوئے ماہرین نے کیا، جن میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم پروفیسر اجمل خان، ڈاکٹر انوار احمد،قاسم بگھیو، پروفیسر ہارون رشید، صادقہ صلاح الدین، امینہ سید، غازی صلاح الدین اور پروفیسر اعجاز احمد فاروقی شامل تھے، مذکورہ اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر سید جعفر احمد نے انجام دیئے، کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ تعلیم سیاسی معاملہ ہے اس کا فیصلہ بڑے ایوانوں میں ہوتا ہے، چین میں 1975ءمیں یہ فیصلہ ہوا کہ تعلیم کو آگے بڑھانا ہے لہٰذا اس فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور چین میں تعلیم سب سے اوپر کی سطح پر آگئی ہے، انہوں نے کہاکہ یہ ضروری ہے کہ اوپری سطح پر یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ ہمیں تعلیم کو آگے لے کر جانا ہے یا نہیں، جب فیصلے اساتذہ سے لے کر کہیں اور دے دیئے جائیں تو تعلیم کا معیار گرتا ہے، جامعہ کراچی کو آگے ترقی کی طرف لے جانا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بھی اگر اوپر ہوجائے تو معاملہ حل ہوسکتا ہے، بات صرف فیصلہ کرنے کی ہے، ہم میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں اور ہم ہی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ایک پالیسی مرتب کردی جائے، جس میں تعلیم کو نمایاں رکھا جائے اور پھر اس پر کام کرنے کے لئے تعلیم کے شعبہ سے وابستہ افراد کو آزادی دے دی جائے پھر دیکھئے تعلیم کا شعبہ کہاں سے کہاں پہنچتا ہے، انہوں نے کہاکہ ملک میں جامعات کا جال پھیلا ہے ابتدائی ادوار میں ملک میں ڈھائی ہزار جامعات تھیں آج 40ہزار جامعات ہیں، انہوں نے کہاکہ لوگ کام کرنا چاہتے ہیں مگر مواقع نہیں ہیں جامعہ میں کبھی کوئی سسٹم کام نہیں کرتا تو کبھی کوئی سسٹم کام نہیں کرتا، اس طرح کام کرنے والے کے تسلسل میں فرق آجاتا ہے اور کام کا رزلٹ صحیح نہیں آپاتا، ورلڈ ریکنگ میں ہمیں اوپر جانے کے لئے ایک سسٹم چاہئے جو ہمارے پاس نہیں ہے ، اگر ہمیں وہ تمام ٹولز فراہم کردیئے جائیں جس کی ضرورت ہے تو دیکھیں ہماری جامعات دُنیا کی بہترین جامعات میں اوپر آسکتی ہیں، جامعہ کراچی کے سابق چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہاکہ سرکاری تعلیمی پالیسیاں بنتی رہی ہیں، جب بھی حکومتیں بدلتی ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ قومی اُمنگوں کے مطابق پالیسی مرتب کریں گے، بعد ازاں یہ پالیسیاں شیلف میں رکھی رہ جاتی تھیں، کیونکہ جہاں بھی اور جب بھی ان پالیسیوں کے نفاذ کا معاملہ آتا وہاں خاموشی چھا جاتی تھی اس معاملے میں کبھی بھی میں مثبت پیش رفت نظر نہیں آئی، انہوں نے کہاکہ آج کے پینل میں شریک ہر ماہر تعلیم یہی کہہ رہا ہے کہ تعلیم کے شعبہ کو اوپر جانا چاہئے مگر یہ کیسے ممکن ہے، ہاں اگر آج کی اس تقریب میں پلاننگ کمیشن کے سربراہ موجود ہوتے، تعلیم کے وزیر ہوتے، تعلیم کے سیکریٹری ہوتے، یا وہ لوگ ہوتے جو منصوبہ بندی کرنے کے ذمہ دار ہیں تو شاید یہ ممکن ہوتا کہ ہم کوئی مثبت نتیجے پر پہنچ سکتے اور بہتر ڈائریکشن میں تعلیمی شعبہ پر کام کرسکتے، انہوں نے کہاکہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ قومی ترجیحات کی فہرست میں تعلیم ساتویں نمبر پر ہے تو پھر وہی کچھ ہوگا جو اب تعلیم کے ساتھ ہورہا ہے، انہوں نے کہاکہ ملائیشیا میں ماضی میں تعلیم کا شعبہ بہت ابتری کا شکار تھا اور صورتحال بہت خراب تھی مگر مہاتیر محمد نے طے کیا کہ تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے گی ، لہٰذا ایک بار فیصلہ ہوا اور پھر اس پرعملدرآمد بھی ہوا اور آج ملائیشیا تعلیم کے شعبہ میں آگے نکل چکا ہے، قابلِ غور بات یہ ہے کہ ملائیشیا نے تعلیم کے شعبہ پر اپنی آمدنی کا 12فیصد خرچ کیا ہے جبکہ ہمارے ملک میں 2.6 فیصد خرچ ہوا اور اب ہم 2.5فیصد پر کھڑے ہوئے ہیں، انہوں نے کہاکہ ہمارے مسائل زیادہ اور وسائل کم ہوتے جارہے ہیں، پہلے سے موجود جامعات کی گرانٹ کم کردی جاتی ہے اور نئی یونیورسٹیاں کھولی جارہی ہیں، ہو سکتا ہے شاید یہ کوئی سیاسی عمل ہو، انہوں نے کہاکہ ایک اطلاع کے مطابق دوہزار اسکول سندھ میں بند ہورہے ہیں تو پھر ہم کس تعلیم کی بات کررہے ہیں، ضرورت کے حساب سے اسکول نہیں ہیں اور جو ہیں وہ بند ہورہے ہیں، ذکریا یونیورسٹی بہاولپور کے سابق ڈین اور ماہر تعلیم ڈاکٹر انوار احمد نے کہاکہ تعلیم کا شعبہ اپنی قیادت سے پہچانا جاتا ہے کسی بھی اسکول، کالج یا یونیورسٹی کا پرنسپل اپنے کام سے کتنا مخلص ہے اس کے بارے میں وہاں کے لوگ جانتے ہیں کیونکہ معاشرہ سمجھ دار ہے، انہوں نے کہاکہ جب نصاب بنانے والی کمیٹیوں میں ایسے لوگ شامل ہوجائیں جو اپنے بڑوں کو خوش کرنے کے لئے خود ان سے پوچھیں کہ حضور آپ کس طرح کا نصاب چاہتے ہیں تو پھر تعلیم کا اللہ ہی حافظ ہے، انہوں نے کہاکہ مجھے ریٹائرڈ ہوئے 11سال ہوگئے ہیں میں ملتان کے اسکول سے پڑھا ہوا ہوں مگر اس زمانے میں پڑھانے والے اساتذہ بھی پڑھانے سے محبت کرتے تھے، بدقسمتی سے اب اساتذہ پر بھی زوال آیا ہے، پروفیسر ہارون رشید نے کہاکہ تعلیم کی تمام کوتاہیوں کو ہم سب کو اون کرنا چاہئے کیونکہ ہم سب ہی اس کا حصہ ہیں، ساڑھے چار کروڑ بچے جو پڑھ رہے ہیں ان میں صرف 15لاکھ بچے ہی ہائر ایجوکیشن تک پہنچتے ہیں باقی سب بیچ میں سے ہی غائب ہوجاتے ہیں، سندھ میں سات تعلیمی بورڈز ہیں اب سنا ہے کہ ایک صاحب کو نیا بورڈ بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور وہ صاحب خود کرپشن میں ملوث ہیں، ایک زمانہ تھا کہ پشاور بورڈ، پنڈی بورڈ اور بلوچستان بورڈ سے ہمارے پاس پیپر چھپنے کے لئے آتا تھا کیونکہ ہمارا نظام اتنا محفوظ تھا اب صورتحال یہ ہے کہ جن طالب علموں کا انرولمنٹ وہاں نہیں ہو پاتا وہ یہاں آکر امتحان بھی دیتے ہیں اور ڈگری بھی لے لیتے ہیں، نائیجیری اور چاڈ کے بعد ہم دُنیا میں وہ ملک ہیں جو تعلیم پر سب سے کم بجٹ خرچ کررہا ہے، ان حالات میں بھلا کس معیاری تعلیم کی بات کی جاسکتی ہے، تعلیم کے 1.58فیصد بجٹ میں کرپشن بہت ہے، 2014ءمیں تعلیم کا بجٹ 114ارب روپے تھا جس میں 90ارب روپے تنخواہوں میں جاتے تھے، 6سال بعد 134ارب روپے بجٹ ہوا اور ترقیاتی بجٹ میں 70فیصد دیا جاتا تھا جو کرپشن کی نذر ہوجاتا تھا، انہوں نے کہاکہ ہمارے ملک کے دور افتادہ علاقوں میں خواتین کی تعلیم کا بہت بُرا حال ہے انہیں تعلیم تک رسائی کے لئے کوئی بھی سہولت اور آسانی فراہم نہیں ہے، غازی صلاح الدین نے کہاکہ اس ملک میں تعلیم کی بات کرنا جہاں ملالہ جیسی بچی ناپسندیدہ ہو، کہا جاتا ہے کہ یہ ایک سازش تھی کہ بچیوں کو تعلیم نہ مل سکے، میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں اصل مسئلہ عدم برداشت کا ہے اگر اس سے چھٹکارا نہ پایا گیا تو اس ملک میں تعلیم کا شعبہ آگے نہیں بڑھ سکتا، ہمیں ایسے ماحول کی فراہمی کے لئے کام کرنا ہوگا جہاں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور ایک دوسرے سے مکالمے کی اجازت ہو، صادقہ صلاح الدین نے کہاکہ میں گراس روٹ سطح پر کام کرتی ہوں اور سندھ کے شہروں میں اسکولوں کی تعلیم کے حوالے سے وہاں کے طالب علموں سے میرا مسلسل رابطہ رہتا ہے، گاﺅں اوردیہات میں پرائیویٹ اسکول نہیں ہوتے ، گاﺅں کی کہانی تو یہ ہے کہ حکومت سندھ کے 42ہزار اسکول ہیں جن میں سے 38ہزار پرائمری ہیں، اس کے بعد 4ہزار اسکول وہ بچتے ہیں جو چھٹی یا اس سے آگے جماعت تک ہیں، انہوں نے کہاکہ سندھ کے لوگ کھلے ذہن کے ہیں وہاں کے والدین اپنے بچوں کو مخلوط تعلیم سے منع تو نہیں کرتے مگر ان کی ایک خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بچیوں کو اسکول میں پڑھانے کے لئے خاتون ٹیچر بھی لازمی ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے اسکولوں میں خاتون ٹیچر کا دور دور تک تصور نہیں ہے،سندھ میں ایک لاکھ ٹیچرز میں سے 70فیصد ٹیچرز میل ہیں جبکہ 30فیصد فیمیل ہیں، وہ بھی ان علاقوں تک جو شہروں کے قریب ہیں، گاﺅں گوٹھ میں کوئی خاتون ٹیچر نہیں ہوتی، انہوں نے کہاکہ ملک کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا ہے مگر اساتذہ کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، تعلیم کے معاملے میں دُنیا کے سب ہی ملک ہم سے آگے نکل چکے ہیں ہاں البتہ ہم یمن سے تعلیم میں بہتر ہیں، انہوں نے کہاکہ خواتین کی تعلیم ہر صورت ضروری ہے اگر خواتین کو تعلیم یافتہ نہیں بنایا گیا تو پھر اقوام ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتی ہےں، قاسم بگھیو نے کہاکہ ہمارے پاس پلاننگ کی کمی ہے، نہ ہی ایجوکیشن پلاننگ ہے نہ ہی لینگیویج پلاننگ، جس کی جو مرضی ہے وہ کررہا ہے، آج سے 70سال پہلے انگریز کے زمانے میں تعلیم کا نظام بہتر تھا مگر اب نہیں ہے، منصوبہ بندی کرنے والوں کا کام بھی چند اینکرز نے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ امینہ سید نے کہاکہ جی ڈی پی کا 2.3فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے مگر یہ سرکاری اسکولوں کا خرچ ہے، سرکاری اسکول، پرائیویٹ اسکول اور ٹیوشن کا بجٹ جمع کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ ہمارے دفاعی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے جو والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کررہے ہیں ،انہوں نے کہاکہ ہمارے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ بچوں کو جس طرح پڑھا رہے ہیں اس سے بچے تعلیم کے قریب نہیں بلکہ دور جارہے ہیں، دورانِ تعلیم بچوں پر تشدد بھی کیا جارہا ہے، بہت سارے اسکولوں کی چاردیواری نہیں ہوتی، ہمیں ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہوگا جس میں بچوں کو زبردستی پڑھانے کے بجائے وہ حالات فراہم کئے جائیں جس میں بچہ پڑھنے میں خود دلچسپی لے اور خود سے سیکھے، انہوں نے کہاکہ ڈیجٹیل لرننگ کو ہمیں اپنانا چاہئے اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوگا، مگر اس کے لئے آج کے تعلیم دینے کے انداز میں تبدیلیاں بھی لانا ہوں گی، ہمارے امتحانات ٹیکسٹ بُک پر انحصار کرتے ہیں یہ درست نہیں ہے امتحانات اسکلز پر ہونا چاہئے کہ بچہ کیا سوچتا ہے اور اس میں کیا صلاحیت ہے۔ پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے کہاکہ جب تمام متعلقہ ادارے اور منصوبہ ساز افراد یہ طے کرلیں کہ تعلیم کے شعبے کو آگے لے کر جانا ہے تو پھر تعلیم کا شعبہ آگے ہی جائے گا پیچھے کی طرف نہیں۔

خبر نمبر۔2

کراچی (   ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے چوتھے دن ”تراجم اور دُنیا سے رابطہ “کے موضوع پر منعقدہ دوسرے اجلاس میں مختلف شخصیات نے دُنیا بھر میں تراجم کے حوالے سے ہونے والے کاموں سے آگاہ کیا، اجلاس کی صدارت ممتاز براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اور عارف نقوی نے انجام دی جبکہ ارشد فاروق کی کتاب ”کالے والا“ پر ڈاکٹر انوار احمد ،ترکی سے آئے ہوئے خلیل طوقار نے ”عہد عثمانیہ سے آج تک ترکی میں اُردو تعلیم وتدریس “، ڈنمارک سے آئے ہوئے نصر ملک نے”ڈنیش اور اُردو کے روابط“، فن لینڈ سے آئے ہوئے ارشد فاروق نے ”فن لینڈ میں اُردو سرگرمیاں“، امریکا سے آئے ہوئے سعید نقوی نے ”امریکا میں اُردو فکشن کی صورتِ حال“،ایران سے آئی ہوئیں وفایزدان منش نے ”ایران میں اُردو کی روایت اور عصری تقاضے“ اور جرمنی سے آئی ہوئیں بشریٰ اقبال نے ”یورپ میں اُردو زبان کا مستقبل“کے موضوعات پر اظہارِ خیال کیا۔اجلاس کی نظام کے فرائض انجم رضوی نے انجام دیئے، ارشد فاروق کی کتاب ”کالے والا“ پر ڈاکٹر انوار احمد نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ ارشد فاروق فن لینڈ جیسے ملک میں رہتے ہوئے اچھا کام کررہے ہیں، میں نے کتاب کے نام کے حوالے سے چونک کر ان سے پوچھا بھی تھا کہ یہ ”کالے والا“ کیا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں تو جو کالا ہوتا ہے تو اُسے بھی ہم سرِعام کالا نہیں کہتے، تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک جگہ ہے اور زمین پر موجود ایک خطہ ہے، ارشد فاروق فن لینڈ جیسے ملک میں لکھنے کا کام کررہے ہیں جو کہ آسان نہیں ہے، اس موقع پر ارشد فاروق نے فن لینڈ میں تراجم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وہاں تراجم کی صورتحال کوئی بہت خاص حوصلہ افزاءنہیں ہے تو میں خود اپنی جیب سے خرچ کرکے تراجم کے لئے کام کررہا ہوں، میری خواہش ہے کہ صدر آرٹس کونسل کراچی محمد احمد شاہ مجھے آرٹس کونسل کراچی کے حوالے سے بھی کچھ کام دیں جنہیں میں وہاں ترجمہ کروں اور فن لینڈ کے لوگوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ آرٹس کونسل کراچی میں کیا کیا سرگرمیاں ہورہی ہیں، ترکی سے آئے ہوئے خلیل طوقار نے کہاکہ اُردو سے ترکی زبان میں زیادہ ترجمہ نہیں ہوپارہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی میں جو پاکستانی یا اُردو بولنے والے رہتے ہیں وہ ترکی کے کلچر سے واقف نہیں ہیں اور اچھا ترجمہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک آپ اس ملک کی ثقافت اور تہذیب سے وابستہ نہ ہوں، انہوں نے کہاکہ یہ پاکستانی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اُن لوگوں کی مدد کرے جو وہاں تراجم کے کام میں مصروف ہیں تاکہ اُردو زبان کو ترکی میں پھلنے پھولنے کا موقع مل سکے، ڈنمارک سے آئے ہوئے نصر ملک نے کہاکہ تراجم کے حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، امریکا سے آئے ہوئے سعید نقوی نے کہاکہ امریکا میں اُردو کے حوالے سے تراجم پر کام تو ہورہا ہے مگر صورتحال حوصلہ افزاءنہیں ہے ،اتنا کام نہیں ہورہا جتنا ہونا چاہئے اس حوالے سے مزید کوششوں کی ضرورت ہے، ایران سے آئی ہوئیں خاتون وفا یزدان منش نے کہاکہ میں تہران یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتی ہوں فارسی میں انتظار حسین کے ناول”بستی“ اور اقبال کی کئی کتابیں اُردو سے فارسی میں ترجمہ ہوچکی ہیں مگر میں یہ ضرور چاہوں گی کہ ایران اور پاکستان کی حکومتیں دونوں مل کر اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کریں تاکہ تراجم کے حوالے سے صورتحال مزید حوصلہ افزا ہوسکے، انہوں نے کہاکہ ثقافت کو سمجھنا آسان نہیں ہے، میری درخواست ہوگی کہ صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ آئندہ ہونے والی اُردو کانفرنسز میں تہران سے بھی ایک طالب علم کو ضرور بلائیں تاکہ وہ اپنے تجربات ایران واپس جاکر فارسی زبان میں لکھ سکے، جرمنی سے آئی ہوئیں بشریٰ اقبال نے کہاکہ تراجم ہماری خواہش پر تو ہوسکتے ہیں مگر اس کے لئے حکومتوں کا تعاون بھی بہت ضروری ہے مگر پاکستانی حکومت یا ہماری قونصلیٹ کی جانب سے وہ مدد فراہم نہیں کی جاتی جو ہونی چاہئے، انہوں نے کہاکہ اُردو زبان کو اب اقبال کے مرہونِ منت ہی سمجھیں، جرمنی میں اقبال، فیض ، فراز، کشور ناہید اور افتخار عارف کی تحریروں کے ترجمے ہوئے ہیں اس حوالے سے جرمنی میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ بہت اہم رول ادا کرتا ہے، انہوں نے کہاکہ میں اب کوشش کررہی ہوں کہ اس وقت اقبال کی تحریروں کو ترجمہ کرسکوں، اس موقع پر صاحب ِ صدر ممتاز براڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے کہاکہ مجھے ایک ہی ترجمے کا تجربہ ہے جو میں نے 25سال تک مارک ٹیلی کی خبروں کاکرکے کیا، انہوں نے کہاکہ یہ بات خوش آئند ہے کہ اب ہمارے لکھنے والے ترجمے سے ایک قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں اور اب وہ براہِ راست اپنی تحریروں کو انگریزی ہی میں لکھ رہے ہیں، انہوں نے ازراہِ تفنن کہا کہ ترجمہ کے شعبہ سے وابستہ تمام افراد سب ترجمہ کریں مگر پنجابی لطیفوں کا ترجمہ ہرگز نہ کریں۔

کراچی (   ) صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی شہر کی ادبی، تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ میں اہم رول ادا کررہا ہے، آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ مبارکباد کے حق دار ہیں جن کی سربراہی میں ایک بھرپور ٹیم ادب و ثقافت کے فروغ کے لئے کام کررہی ہے، شہر کی رونقوں کو اسی طرح بحال رہنا چاہئے اور ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ان رونقوں میں روز بروز اضافہ ہو، ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے دن منعقدہ عالمی مشاعرہ کے شعراءاور شرکاءسے بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا، عالمی مشاعرے کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف نے کی جبکہ مشاعرے کے پہلے حصے کی نظامت ممبر گورننگ باڈی شکیل خان اور دوسرے حصے کی نظامت ناصرہ زبیری نے کی،مشاعرے میں انور مسعود،پیرزادہ قاسم، انور شعور، امداد حسینی، عارف نقوی(جرمنی برلن)، صابر ظفر، ایوب خاور(لاہور)، یاسمین حمید(لاہور)،فاطمہ حسن، باصر کاظمی(برطانیہ)، لیاقت علی عاصم، عباس تابش(لاہور)، افرید احمد فواد(سوات)، احمد سلمان، میر احمد نوید، حمیدہ شاہین( لاہور) ،یشب تمنا(برطانیہ)، فاضل جمیلی، فاروق ساغر(برطانیہ)، وفا یزدان منش (ایران)، ریحانہ روحی، باسط جلیلی(برطانیہ)، احمد عطاءاللہ(آزادکشمیر)، ناصرہ زبیری، شہزاد شرجیل(اسلام آباد)، ہما طاہر، ثمن شاہ(پیرس)، تہمینہ راﺅ(سڈنی)، غزل انصاری(برطانیہ)، تسنیم حسن، اے ایچ خانزادہ اور دیگر نے اپنا کلام پیش کیا، مہمانِ خصوصی صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے کہاکہ 2008ءمیں ہماری حکومت آئی تھی اور2008ءمیں محمد احمد شاہ نے بھی آرٹس کونسل میں ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا آغاز کیا، انہوں نے کہاکہ حکومت کی یہ خواہش ہے کہ کراچی شہر میں جہاں ایک جانب ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جائے وہیں دوسری جانب شہر کی ادبی، تہذیبی اور ثقافتی فضا کو بھی پروان چڑھایا جائے، مشاعرے کے صدر معروف شاعر افتخار عارف نے کہاکہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ادب، ثقافت اور زبان کے فروغ کے لئے جس طرح سے کام کررہا ہے وہ انتہائی قابلِ ستائش ہے، کئی سال پہلے آرٹس کونسل کراچی میں اس طرح کی خوبصورت محافل کے انعقاد کا تصور ہی نہیں تھا مگر جب سے محمد احمد شاہ نے آرٹس کونسل کراچی کی باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے آرٹس کونسل کراچی نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سامنے آیا ہے، یہاں ہونے والی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی گونج دُنیا بھر تک جاتی ہے، بعد ازاں عالمی مشاعرے کے شعراءنے اپنا اپنا کلام پیش کیا اور خوب دادِ تحسین حاصل کی، عالمی مشاعرے کی یہ خوبصورت محفل رات گئے تک جاری رہی اور شہریوں کی بڑی تعداد رات گئے تک مشاعرے سے لطف اندوز ہوتی رہی۔

Karachi:the first session of the third day of 11th international Urdu Conference was started with the title “Standardized education for all” at the Arts Council Auditorium, the panelist was Pirzada Qasim, Ajmal Khan, Anwar Ahmed, QasimBhugio, SadiqaSallahud din, Haroon Rasheed, Ghazi Sallah Uddin, and Prof. Ejaz Farooqi and hosted by Syed Jaafar Ahmed. Sadiq Salah Uddin said that we should divide budget into two categories because if students are not getting their equipment’s, the budget is useless. Sindh has 38000 primary schools out of 42000 Higher education schools. They have only 4000 schools for higher education. Boys can, however, manage to go to schools where girls have a lot of problems because we have only 700 schools for girl’s education and all the remaining are co-education schools. In the Urban Sindh, girls do not go to school and because they have less education they cannot appear in the tests, in villages we have a lack of female teachers. We should focus on our curriculum as well. Reading two nation theory cannot help children to manage their life in practical life.

QasimBhugio said that the basic problem starts from the upper level, every country has a policy for everything, but we don’t have any policy. We don’t have any policy and procedure for the education, we should think and plan it. The appointment of the department head’s is not based on merit. We found them guilty after their appointment and till that they have used to of it. Students unions should be established once again. We are not doing any kind of research on anything and education is the most important thing for the research. Pakistan is not acknowledged for any international research center.

China eliminates poverty through education and they are dedicated to demolishing it till the end of this decade, said the Ajmal Khan Voice Chancellor University of Karachi while speaking on the session. We are no focusing on education because we don’t want to take education with us. This decision would be made by the upper authorities. Education and higher education are not cheaper these days, especially research is very expensive. We have students from lower class and middle class and we cannot increase the fees because they will lose the opportunities of higher education. We can do wonders if we have opportunities.

Pirzada Qasim addressed that we have the educational policies, but education placed on 7th in our national priorities, we are not focusing more on education. 4% of GDP is the international standard for promoting the education but we are declining and now we are at 1.8% of the GDP. Our educational demands are not bridging with the sources. We have a lot of corruption in education. We should focus on the appointment of educated people to promote education.

Anwar Ahmed said that the attitude of educators is also not just good for education. During the Martial law, we received an order that we have changed an illiterate to literate. We have changed the standard of the education. We need to demolish the corruption in education to make it progress. Prof. Haroon o Rasheed Said that we have 2.5 million children out of school, 1.7 million are child labor, and out of 40 million, only 1.5 million can reach to higher education. Our examination system is the weakest aspect of our education. We are the least after Nigeria in the education with less budget. We have the policies, but we are not supposed to follow the policy. In Baluchistan only, three percent of women are educated in anyways. Ghazi Sallah Uddin said that we are living in a society where Malala is not an acceptable figure then how could we up bring the education. Till our ruling ideas cannot change we cannot change our systematic ways, we discourage the rational debate in the institutions and Mashal Khan’s for an instant is one of the best examples of oppression in our society of ruling ideas.  Prof. Ejaz Farooqi said that we need to focus on education and we should make it our priority as well education is a basic tool of progress and prosperity.

Karachi: The Second session of the 2nd day of International Urdu conference was titled “Translation and the Connection with the world”. The session was chaired by Raza Ali Abadi from London, Arif Naqvi from Germany, and Tang Mang Shang from China and discussant were Khalil Tooqar from Turkey, Arshad Farooq from Finland, Saeed Naqvi from America, WafaYazdanManish from Iran and Bushra Iqbal from Germany where this session hosted by Anjum Rizvi.

Anwar Ahmed discussed the book “Kaly Wala” by Arshad Farooq, he said the book is the reflection of the social and political sense of the societies who developed in a unique way and gives world path to survive. Arshad Farooq said that we are working on a translation from Finish literature to Urdu. Khalil Tooqar said that in Turkey we don’t have much translation from Urdu to the Turkish Language, because of the financial issues but the poetry of Iqbal is much demanded in Turkey because they Love Iqbal and his poetry. Saeed Naqvi from America said that some of the leading books from Pakistan have been translated to the English language, we have recently published some of the short stories but as you know the translation is a hard task and one cannot shift it to another language as it is. Many people are doing translations however we still need to do more. WafaYazdanManish from Iran said that we have a lack of translation of Urdu literature in Persian however, some of the major books have been translated into Person that is famous in the subcontinent. We need support from embassies of both countries for translations. Bushra Iqbal from Germany said that individual cannot translate the books, there are two main reasons in Germany for the lack of translations the first is they have a strict process of publishing a book. Iqbal is the only writer from the Pakistan that’s writing has demanded. But still we have many translations from Urdu in German Language and Goethe Institute of Germany is playing the main role in the translations.

Arif Naqvi from Germany said that Much German literatures has been translated into the Urdu language by the German Consulate, but we have a lack of German translations from Urdu. He said that there are many limitations in translations, a translator should have to understand the local tradition and culture, German love peace, humanity,and harmony. Raza Ali Abidi from the UK said that we should not forget the famous translator Teerath Ram FerozPuri because he translated many books from English to Urdu. He paid tribute to his work for the Urdu Language. He said that Allama Iqbal translated all the children’s poem from English Literature. In the past best Russian literature was translated to Urdu and that was the amazing time of translations.


24th November 2018

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے دن منعقدہ ساتویں اجلاس میں مختلف کتابوں کی رونمائی کی گئی جن پر معروف شخصیات نے اظہارِ خیال کیا،جن کتابوں کی رونمائی کی گئی اُن میں سید مظہر جمیل کی کتاب ”ایلس بنام فیض“ پر ڈاکٹر انوار احمد، عذرا عباس کی کتاب ”بھیڑ میں“ پر افضال احمد سید، مرزا حامد بیگ کی کتاب ”انار کلی“ اور صابر ظفر کے شعری مجموعہ ”روحِ قدیم کی قسم“ پر ڈاکٹر ضیاءالحسن، عامر حسین کی کتاب “Hermitage” پر شاہ بانو علوی اور احمد نوید کے شعری مجموعے ”کلیاتِ احمد نوید“ پر صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے اظہارِ خیال کیا، اجلاس کی نظامت معروف شاعرہ نزہت عباسی نے کی، ڈاکٹر انوار احمد نے سید مظہر جمیل کی کتاب ”ایلس بنام فیض“ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ یہ کتاب 178 خطوط کا مجموعہ ہے جو خود ایلس فیض کا تعارف بھی ہے، مذکورہ کتاب قسط وار بھی شائع ہوچکی ہے اور اس کا ٹائٹل بہت کچھ خود بھی بتا دیتا ہے، ایک ایسی خاتون جو مغرب سے چلیں مگر جب وہ فیض احمد فیض کی بیگم بنیں تو ان کے ساتھ ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھیں ، یہ کتاب 250صفحات پر مبنی ہے، ایلس فیض کی دو بیٹیاں ہیں جو ان کی کائنات ہیں جن کا تذکرہ ان خطوط میں بھی ہے، عذرا عباس کی کتاب ”بھیڑ میں“ پرتبصرہ کرتے ہوئے افضال احمد سید نے کہاکہ بے باک شاعری ہی عذرا عباس کا تعارف ہے وہ اپنے پہلے مجموعے میں طویل مسافت سے گزرنے کے بعد اس بھیڑ میں پہنچی ہیں، زندگی اور موت شاعری کا بنیادی موضوع ہے، وہ اپنی شاعری میں سوال کرتی ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جو لوگ بھوکے مر گئے کیا اُن کو قبروں سے نکال کر دو وقت کا کھانا کھلایا جاسکتا ہے، مرزا حامد بیگ کی کتاب ”انار کلی“ اور صابر ظفر کے شعری مجموعہ ”روحِ قدیم کی قسم“ پر ڈاکٹر ضیاءالحسن نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ مرزا حامد بیگ دو حیثیت میں ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ایک تو وہ بہت عمدہ افسانہ اور ناول نگار ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ محقق بھی ہیں، اپنے ناول کے آغاز میں ہی انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک دستاویزی ناول ہے اور یہ کتاب اکبر بادشاہ کے زمانے میں انارکلی کے حوالے سے لکھی گئی ہے اس کتاب میں لاہور شہر کی تاریخ اور قلعہ لاہور کی تاریخ بھی رقم کی گئی ہے جبکہ جہانگیر کی 16شادیوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے، کتاب میں اکبر اور جہانگیر کے درمیان انارکلی کے حوالے سے ہونے والی گفتگو بھی موجود ہے، انہوں نے کہاکہ جب ہم ناول میں ماضی یعنی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ مصنف نے کس طرح تاریخ کو ناول یا افسانہ بنایا ہے، مرزا حامد بیگ کی کتاب میں یہ خوبی موجود ہے کہ انہوں نے بڑی عمدگی کے ساتھ تاریخ کو ناول اور افسانہ کی صورت دی ہے، یہ کتاب 29سال کی محنت کے بعد شائع کی گئی ہے کیونکہ علمی تحقیق اور حقائق جاننے کے لئے مرزا حامد بیگ کو اتنا عرصہ لگا، ڈاکٹرضیاءالحسن نے صابر ظفر کے شعری مجموعے ”روحِ قدیم کی قسم “کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس مجموعہ میں متعدد بحر سے کئی شعروں کے آنگن کھولے گئے ہیں، صابر ظفر کے 40مجموعوں میں علیحدہ علیحدہ 40رنگ بکھرے ہوئے ہیں، اس مجموعے میں بھی صابر ظفر نے پہلے کی طرح نئے تجربے کو دریافت کیا ہے، عامر حسین کی کتاب “Hermitage” پر شاہ بانو علوی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک علامتی کہانی ہے عامر حسین نے اپنے 31سال کے تجربے کے نچوڑ سے نئی نئی کہانیاں لکھی ہیں اور پھر ان کو خوب چھان پھٹک کر ادب کے سانچے میں ڈھال کر آگے پیش کردیا ہے، اس موقع پر کتاب کے مصنف عامر حسین نے بتایا کہ شاہ بانو علوی نے ان کی کتاب کو انگریزی سے اُردو میں ترجمہ بھی کیا ہے، اس موقع پر زنبیل گروپ کی شمع عسکری نے Hermitage کہانی کو قصہ گوئی کے انداز میں پیش بھی کیا، احمد نوید کے شعری مجموعے ”کلیاتِ احمد نوید“ پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ احمد نوید نے خود اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ میں ان کی کتاب پر بات کروں، میری احمد نوید سے نوجوانی کے زمانے سے دوستی ہے اور جب انہوں نے مجھے اپنا پہلا شعر سنایا تو میں جب سے ہی ان کو پسند کرنے لگ گیا تھا، محمد احمد شاہ نے بتایا کہ میں نے زمانہ طالب علمی میں میر ، غالب، سودااور دیگر شعراءکو پڑھنا شروع کردیا تھا، جب احمد نوید نے پہلی بار مجھے اپنی غزل سنائی تو میں نے اس کو کہاکہ تم ایک بڑے شاعر ہو، احمد نوید کا تعلق میر صاحب کے خاندان سے ہے پھر جس طرح زندگی کے ماہ و سال گزرتے گئے میں اور احمد نوید زندگی کا حصہ بن گئے، انہوں نے کہاکہ میری رائے یا اظہار میں جذبات ہوسکتے ہیں کیونکہ احمد نوید میرا بہت اچھا دوست ہے اس لئے میری یہ خواہش ہے کہ آئندہ احمد نوید کے شعری مجموعے کے حوالے سے ایسی تقریب منعقد کی جائے کہ جس میں اہل علم و دانش اپنی آراءکا اظہار کریں کیونکہ ان کی جانب سے آنے والی رائے ہم سب کے لئے بہت معتبر ہوگی۔

Karachi: the 7th session of the 3rd day of 11th international Urdu conference was books launching ceremony, 7 books were launched on the occasion including ElasbanamFaiz by Syed Mazhar Jameel, Bheer Ma by Azra Abbas, Anarkali by Mirza Hamid Baig, Rooh e Qadeemkikism by Sabir Zafar, Hermitage by Amir Hussain, QisaGoi and Kuliyat e Ahmed Nadeem. These books were presented by Anwar Ahmed, Ifzal Ahmed Syed, Zia ul hassan, Shah BanoAlvi, Shamah Askari and Ahmed Shah Respectively where hosted by Nuzhat Abbasi.

Shamah Askari readed a short story by Amir Hussain, where zia ul hassan discussed both Anar Kali and Rooh e Qadeem. President Arts Council Muhammad Ahmed Shah talked about the book of Ahmed Naveed’s book “Kuliyat e Ahmed Naveed”. He shared his journey with Ahmed Naveed from University of Karachi to present.  Afzal Ahmed Syed discussed the book “Bheer ma” by Azra Abbas. He read the poems of Azraabbas and talked about her literary life. Anwar Ahmed Talked about the book “Elis BanamFaiz” by Syed Mazhar Jameel. The book contains the letters of Elis to Faiz Ahmed Faiz while he was in Jail. At the end of the third day International Mushayara Held at Arts Council with many renown poets and poetess from the world.


23rd November 2018

کراچی (   ) بین الاقوامی شہرت یافتہ معروف اداکار طلعت حسین نے کہا ہے کہ تھیٹر یا ڈرامہ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہے، شاعری ہمارے لئے اظہار کا قومی طریقہ ہے، یہ بات انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے دن منعقدہ پانچویں اجلاس ”پاکستان میں ٹی وی اور تھیٹر کی صورتحال“ سے خطاب کرتے ہوئے کہی، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دیئے، اس موقع پر بھارت سے آئی ہوئیں تھیٹر کی معروف ادکارہ نادرہ ظہیر ببر، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ، ایوب خاور، اقبال لطیف، زین احمد اور ساجد حسن نے بھی اظہارِ خیال کیا، طلعت حسین نے کہاکہ مجھے چونکہ ڈرامے کا شوق تھا اس لئے میں برطانیہ چلا گیا اور وہی رہتے ہوئے اپنی پڑھائی بھی مکمل کی اور تھیٹر کے اسرارورموزبھی سیکھے، انہوں نے کہاکہ ڈرامہ چونکہ ہماری صنف ہی نہیں تھی لہٰذا اس کا ترقی کرنا بھی مشکل ہے، حسینہ معین نے کہاکہ تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے معاشرے میں برائیاں اور اچھائیاں دونوں ہیں، مجھے ہنستے ہوئے لوگ اور معاشرہ اچھا لگتا ہے، میں نے لوگوں کو ہنسانا سکھایا ہے، حالاں کہ لوگ اس وقت بھی رو رہے تھے اور اب بھی رو رہے ہیں میری کوشش ہوتی تھی کہ میں معاشرے کی اچھی سے اچھی تصویر دکھاﺅں تاکہ اسے دیکھ کر کوئی خود کو بھی اچھا اور خوبصورت بنالے، انہوں نے کہاکہ جو لٹریچر ہم نے شروع میں پڑھا اس میں عورت کو معصوم دکھایا گیا تھا وہ سوتن کے لئے کھانا بھی بناتی تھی اور شوہر سے مار بھی کھاتی تھی، مگر میں سمجھتی ہوں کہ عورت اگر خود چاہے تو وہ مضبوط ہوسکتی ہے، انہوں نے کہاکہ میں اچھے خواب دیکھتی ہوں اور یہ سوچتی ہوں کہ ان خوابوں کو پورا بھی ہونا چاہئے، اختر وقار عظیم نے کہاکہ میرا ڈرامے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں رہا مگر انتظامی حوالے سے میں کافی حد تک ان معاملات میں شریک رہا ہوں، انہوں نے کہاکہ ڈرامہ پاکستان میں آگے چلے گے اور مزید بہتر انداز میں آگے کی طرف بڑھے گا کیونکہ اس وقت ڈرامہ اچھا لکھا جارہا ہے، اقبال لطیف نے کہاکہ تھیٹر جو اسٹیج پر ہوا کرتا تھا وہ اب آٹھ سے نو کے درمیان نیوز چینل پر چلا گیا ہے اور ڈرامہ فلم کی شکل اختیار کرگیا ہے، آج کل ٹی وی ڈرامے فلم کی طرز پر بن رہے ہیں اور ایک ہی کیمرے پر کام ہورہا ہے ہم اسے ڈرامہ نہیں مانتے، ایوب خاور نے کہاکہ ڈرامہ بنانے والے سیٹھ ریٹنگ کے چکر میں رائٹر سے خود فرمائش کرتے ہیں کہ اس موضوع پر لکھو اور اس طرح کے مکالمے لکھو تاکہ ہماری ریٹنگ بڑھے، انہوں نے کہاکہ بعض اینکرز طلعت حسین سے بھی بڑے ایکٹر ثابت ہوتے ہیں، ان کے سامنے جو حصہ لینے والے سیاست کار ہوتے ہیں وہ سیاست کارکم اور اداکار کم ہوتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ اینکر، سیاستدان اور چینل مالکان کی ملی بھگت ہوتی ہے، نور الہدیٰ شاہ نے کہاکہ کسی بھی سماج کا عروج و زوال دیکھنا ہوتو اس کا ٹی وی ڈرامہ ضرور دیکھیں اس سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہاں کا سماج کس طرف جارہا ہے، پاکستانی چینلز پر جو کچھ نظر آرہا ہے اس پر کئی اعتراضات بھی ہورہے ہیں، کراچی میڈیا کا مرکز ہے، اس وقت جو نئے لوگ ڈراموں کے لئے کام کررہے ہیں میں نے ان سے بہت کچھ سیکھ رہی ہوں اور بعض اوقات ان نئے کام کرنے والوں کے پاس ایسے ایسے آئیڈیاز آتے ہیں کہ میں خود بھی حیران رہ جاتی ہوں اور میں ان سے پوچھتی ہوں کہ تم نے اس طرح کیسے سوچا، انہوں نے کہاکہ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ میں اب ڈراموں میں آنے والے نئے بچوں کی انگلی پکڑ کر چل رہی ہوں، وہ ڈرامہ زیادہ پسند کیا جارہا ہے جو لوگوں کی ناتمام خواہشات پر ماتم کرے، وہ ماتم آپ کو روتی دھوتی لڑکیوں کی صورت میں نظر آتا ہوگا، معاشرے میں ایک سوچ اور آئی ہے ڈرامہ بنانے والے چاہے جو لوگ بھی ہوں اب ان کے ساتھ نئے لوگ اور مڈل کلاس کی لڑکیاں بطور رائٹر کام کررہی ہیں، اب ان کو جو بھی مارکیٹنگ ٹیم کہتی ہے کہ یہ لکھیں یہ بِکے گاتو وہ اس پر عمل کررہی ہیں جبکہ ہم جب لکھتے تھے تو ہمارے حصے میں انقلاب آتا تھا اور جب اب لکھ رہے ہیں ان کے حصے میں مال، خالد احمد نے کہاکہ تھیٹر کم ہورہا ہے مگر تسلسل کم نہیں ہورہا چند لوگوں کی کوششوں کی وجہ سے تھیٹر ہورہا ہے مگر کوئی انسٹیٹیوشن کی صورت نظر نہیں آتی، کراچی جیسے دو کروڑ سے زائد آبادی والے بڑے شہر میں تھیٹر کے لئے آرٹس کونسل کراچی میں صرف دو ہال ہیں، ادب کے لوگوں کا اسٹیج والوں سے کوئی رابطہ نہیں رہا اب تھیٹر پر اسکرپٹ بھی نہیں ہوتا، پرفارمنگ آرٹ کی ہمارے ہاں اب ایک ہی روایت ہے اور وہ ہے مشاعرہ، شاعر آتے ہیں اور پرفارم کرکے چلے جاتے ہیں، انہوں نے کہاکہ ڈھاکہ شہر کے اندر آج بھی 800رجسٹرڈ گروپس ہیں جبکہ ہمارے ملک میں تھیٹر کی روایت جڑ نہیں پکڑ پائی، گزشتہ چند سالوں میں الیکٹرانک چینل بہت آگئے ہیں مگر ٹیکنالوجی کے بل پر ٹی وی چینلز تو ملٹی پلائی ہوگئے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ فنکار اور ادیب بھی ملٹی پلائی ہوجائیں گے، زین احمد نے کہاکہ تھیٹر کے حوالے سے صورتحال حوصلہ افزاءنہیں ہے تھیٹر کرنے والے کو آج بھی یہ نہیں پتہ کہ جو کچھ اس نے تھیٹر کے لئے خرچ کیا ہے وہ اسے مل بھی پائے گا یا نہیں، ٹکٹ خریدنے کا رجحان آج بھی بہت کم ہے، لوگ اب بھی پاس مانگتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ جن سے پاس مانگا جارہا ہے اُن کے گھر کے چولہے بھی جلنے ہیں اور وہ اسی صورت میں ہوگا جب وہ ٹکٹ خرید کر تھیٹر دیکھیں گے، انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں تھیٹر صرف لاہور، کراچی اور اسلام آباد تک محدود رہ گیا ہے کیونکہ تھیٹر کو ہم نے پھیلایا ہی نہیں، اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ جو اجلاس میں نظامت کے طور پر گفتگو میں شریک رہے انہوں نے کہاکہ آرٹس کونسل کراچی میں دو ہال بنالئے گئے ہیں مگر دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں کوئی اور تھیٹر نہیں ہیں ہم نے دیگر شہروں کے فنکاروں اور ادیبوں کو کہا ہے کہ وہ ہمارے آرٹس کونسل کراچی سے رجوع کرے ہم انہیں ہر طرح کا تعاون فراہم کریں گے، محمد احمد شاہ نے مزید کہاکہ حسینہ معین اور نورالہدیٰ شاہ جیسے لکھنے والوں نے خواتین کو اِن پاور کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، آج کی خواتین اور بچیاں اب پہلے جیسی کمزور نہیں رہیں بلکہ ان میں بہادری موجود ہے، انہوں نے کہاکہ حسینہ معین نے جو کچھ لکھا کمال لکھا اور یہ آرٹس کونسل کراچی کی خازن بھی ہیں،انہوں نے مزید کہاکہ ایک بہت بڑی شخصیت آرٹس کونسل کراچی تشریف لائے تھے اور انہوں نے یہ بات کہی کہ میں طلعت حسین اور حسینہ معین کی وجہ سے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کو جانتا ہوں، اس موقع پر محمد احمد شاہ نے اعلان کرتے ہوئے کہاکہ 26تا28نومبر 2018ءآرٹس کونسل کراچی میں بھارت سے آئی ہوئی اداکارہ نادرہ ظہیر ببر کا تھیٹر بھی پیش کیا جائے گا۔

خبر نمبر۔6

کراچی (   )معروف صحافی مظہر عباس نے کہا ہے کہ ہماری صحافت نے بھی یو ٹرن لیا ہے اور ہم یہ یو ٹرن لیتے رہتے ہیں، ماضی میں ایک اینکر پرسن کرپشن کے خلاف مختلف چینلز پر پروگرام کرتے تھے آج وہ خود کرپشن کے الزام میں بند ہیں، آج کل بریکنگ نیوز کا دور ہے مگر لوگ پھر بھی بے خبر ہیں، کیونکہ جس کو بریکنگ نیوز کہا جارہا ہے اس میں کیا کوئی نیوز ہے بھی یا نہیں یہ الگ بات ہے ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے دن منعقدہ چھٹے اجلاس ”صحافت :معاشرے کی عکاس۔ایک سوال“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اجلاس میں اظہر عباس ، ضرار کھوڑو، اویس توحید، منیزے جہانگیر، مبشر اور دیگر نے بھی اظہارِ خیال کیا، مظہر عباس نے اپنی گفتگو میں مزید کہاکہ موجودہ حکومت کو سو دن کے قریب ہورہے ہیں اور مختلف اداروں سے وابستہ دو تین سو صحافیوں کو اب تک تنخواہیں نہیں مل سکی ہیں، آخر وہ کون ہے جو کیبل آپریٹرز کو حکم دے رہا ہے کہ چینلز کو سوئچ آف کردو اور وہ کون ہے جو اخبارات کی تقسیم کو روک رہا ہے، انہوں نے کہاکہ فریڈم آف پریس اب بہت پیچھے رہ گیا ہے، جو کمپنی آپ کو اشتہار دے رہی ہے اس کے خلاف آپ خبر نہیں دے سکتے، میڈیا کس طرف جائے یا تو کہیں سب اچھا ہے اور اگر کہیں گے کہ سب اچھا نہیں ہے تو معاملات دوسری طرف چلے جاتے ہیں، معروف صحافی اظہرعباس نے کہاکہ آج کے دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے خبر مل جاتی ہے، لہٰذا اب خبر کو دبانے کا کوئی فائدہ نہیں، پہلے دور میں بھی اخبارات اور خبریں سنسر ہوا کرتی تھیں تو اس زمانے میں بھی بی بی سی سمیت دیگر ذرائع ابلاغ سے خبر مل ہی جایا کرتی تھی، انہوں نے کہاکہ آج ہر آدمی رپورٹر ہے اور ہر شخص میڈیا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہونے والی خبریں زیادہ غیر تصدیق شدہ ہوتی ہیںلیکن یہ نیوز ایڈیٹر کا کام ہے کہ وہ اس خبر کی سچائی تک پہنچے، سوشل میڈیا پر جو لوگ خبریں دے رہے ہیں ان کو آپ اپنا رپورٹر ہی سمجھیں، نیوز ایڈیٹر کو اس خبر کو کنفرم کرنے کے بعد آگے بڑھانا چاہئے، انہوں نے کہاکہ وہی لوگ اوپر کی سطح پر رہتے ہیں جن پر لوگ اعتماد کرتے ہیں جن لوگوں نے غلط رپورٹنگ کی ان لوگوں کو آج لوگ کم دیکھتے ہیں اوران کا گراف بھی نیچے گر گیا ہے، انہوں نے کہاکہ ہر دور میں پریشر رہے ہیں مگر سوال اٹھانا ہمارا کام ہے اور اگر آپ سوال نہیں اٹھاتے تو یہ آپ کی غلطی ہے، انہوں نے کہاکہ آج کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا پر معاشرے کے ایشوز سے زیادہ دیگر موضوعات پر گفتگو ہورہی ہے، ایک چینل بند ہوجائے تو دوسرا چینل متحد ہونے کی بجائے اس چینل کے کردار کے بارے میں مذاکرے کررہا ہوتا ہے، پاکستان کی طرح امریکا میں بھی میڈیا کو مختلف پریشرز کا سامنا ہے، ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر ٹرمپ CNN کے نمائندے کو بیٹھنے کے لئے کہتا ہے ہم سب ایک دوسرے کی غلطیاں دیکھ رہے ہیں، حب الوطنی کے فتوے چینل پر بیٹھے ہوئے لوگ لگاتے ہیں جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے، معروف ٹی وی اینکر منیزے جہانگیر نے کہاکہ یہ کسی حد تک درست ہے کہ میڈیا کسی اور کی گود میں بیٹھا ہوا ہے، آج کا میڈیا اسٹوڈیو تک محدود ہوکر رہ گیا ہے کراچی یقینا بڑا شہر ہے اور یہاں کی چھوٹی چھوٹی خبریں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں مگر اورکزئی میں ہونے والا حادثہ بھی بہت بڑا تھا جسے میڈیا پر بھرپور رپورٹ کیا جانا تھا مگر نہیں ہوا، کیا میڈیا کراچی، لاہور اور اسلام آباد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، ڈرے ہوئے صحافی کا پروگرام ڈرا ہوا ہوتا ہے، ضرار کھوڑو نے کہاکہ مال بیچنے کے لئے بہت کچھ ملانا پڑتا ہے پریشر ان جگہوں سے بھی آتا ہے جسے سب جانتے ہیں، چینی قونصلیٹ پر ان دو لوگوں کی شکل تک نہیں دکھائی گئی جو وہاں ویزا لینے کے لئے گئے تھے۔

Karachi: The sixth session of the 3rd day of 11th international Urdu Conference was title as “Journalism: a reflection of society – a question”. The discussant was Mazhar Abbas, Azhar Abbas, ZarrarKhoro, OvaisToheed, and Maneeie Jahangir where hosted by Mubashir Ali Zaidi. MunseyJahangir said that yesterday we witnessed tow blast but only one was covered by media and the other were not allowed to media to make footage. We have an issue of commercialism, a feared journalist can only do a feared program, he or she cannot change it. It is important for the media to be more critical in Pakistan as we are being a Pakistani our rights are not yet defined. Media should take a stance and develop narrative over social and political issues. We should report a news rather analyzing it more than news.

ZarrarKhoro said that the media war is between the profit and commercialism. We must trade-off, we must take everything, we put on pressure by the people everyone knows and sometimes we get pressure by generally people don’t know. We have a great scope of self-criticism. We don’t verify news before sharing and it carries a lot of trouble for the people.

While discussion OvaisTohid said many people join journalism as an anchor who didn’t have any background of journalism. We are facing pressure from the non-state actors, state institutions and along with the financial pressure. We have a lot of national channels and that are not necessary these things putting pressure on the journalists in Pakistan. You cannot say anything openly, we also have self-censorship, we cannot effort conflict with the institutions of the state. We were forced not to share news of Asia Bibi Verdict. Editors should be strong; our media policies should be developed with time. Editors should be strong.

Mazhar Abbas said that we have some ethical flaws, during the strict censorship people were aware and today it is a breaking news era, everywhere is news but people are still unaware. We are focusing more on personalities rather than news. Today we are facing a financial censorship and government are saying that these are private TV channels. Some people are putting the Channels lower on cable and we are about to face the employment crisis in the media industry soon. Media is much divided today and it is dividing people as well.

Azhar Abbas said today’s viewer or reader is more informed, people are getting news from the social media. In the Past, BBC was the major source but nowadays if we share or not share a news will come on social media. Today no one can censor a news beyond it flows. Today everyone is media even media is getting news from social media and it is the strongest medium of News. It is the responsibility of media to share all the narratives of the state beyond personal interest.


کراچی (   )ملک میں اداروں کو مضبوط ہونا چاہئے،مختلف تعلیمی بورڈز بنائے گئے مگر وہ اس طرح فعال نہیں  رہے جس طرح انہیں ہونا چاہئے تھا، یہ سب ادارے اور بورڈز زبان اور ادب کی ترقی کے لئے بنے تھے، شاعری بھرپور تجربہ ہے مگر زندگی کی تشریح نہیں کرسکتا کیونکہ زندگی کی تشریح کرنے والا ایک ادیب اور رائٹر ہوتا ہے، پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانیں قومی زبانیں ہیں، زبانیں کسی کا استحصال نہیں کرتیں،حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عربی بھی بولتے تھے اور یزید بھی عربی بولتا تھا، ایسا ادارہ یا پلیٹ فارم ہونا ضروری ہے کہ جس سے ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ ملک کے کس صوبے میں ادب اور زبان کی کیا صورتحال ہے، الفاظ اپنے بولنے والے کی شخصیت کو چھپانے اور کھولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لئے الفاظ کو بلند مقام حاصل ہے، قومی کلچر کا تصور یہی ہے کہ سب کی عزت کرو ،پاکستانی ثقافت اور تہذیب ایک گلدستے کی مانند ہے جس میں مختلف رنگ کے خوشبو دار پھول موجود ہیں، ان خیالات کا اظہار ملک کے  نامور ترین ماہر لسانیات ،ماہر تعلیم، محققین، اُدباءاورشعراءمنیر بادینی، سید مظہر جمیل، انوار احمد، قاسم بگھیو، امداد حسینی، گل حسن کلتمی، احمد فواد، عظمیٰ سلیم اور دیگر نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے دن ”پاکستانی زبانیں، پاکستانی ثقافت۔ایک گفتگو“ کے حوالے سے منعقدہ تیسرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، نظامت کے فرائض ایوب شیخ نے انجام دیئے،چیف سیکریٹری گلگت بلتستان اور 80کتابوں کے مصنف منیر بادینی نے کہاکہ ثقافت وسیع اصطلاح ہے لوگ دوسروں کی ثقافت کا ادراک نہیں رکھتے، ثقافت اس لئے موجود ہے کہ یہ ہمارے شعور میں احساس کی صورت میں موجود ہے، انہوں نے کہاکہ ثقافت کم نظر بھی ہوسکتی ہے اور وسیع الکشادہ بھی ہوسکتی ہے، اس ملک میں رہتے ہوئے ہم ایک اجتماعی ثقافت سے محروم رہے ہیں، ایک لکھنے والے کا جب تک اپنی زبان، دھرتی اور ثقافت سے کمٹمنٹ نہیں ہوگا جب تک بہتر نتیجہ سامنے نہیں آسکے گا، یہاں یہ سوال بھی موجود ہے کہ ادیب کے پاس نیکی کا کیا تصور ہے اگر وہ لکھ رہا ہے تو کیا وہ صرف اپنے لئے لکھ رہا ہے یا دوسروں کے لئے بھی لکھ رہا ہے کیونکہ نیکی تو وہ ہے جس میں دوسروں کو بھی شریک کیا جائے، معروف محقق قاسم بگھیو نے کہاکہ آج سے 40سال پہلے جو ہمارے بزرگ ادیب موجود تھے ان کا وژن ہم سے بہت زیادہ طاقتور تھا ہم اب تک ان کے وژن کو نہیں سمجھ سکے ہیں اسی لئے ہماری زبانیں بھی ترقی نہیں کرپارہی ہیں، 40سال پہلے کے ادیب کا وژن تھا کہ ملک میں جو ادارے اور بورڈز بنائے جائیں گے یہ سب زبان وادب تہذیب وثقافت کے فروغ کے لئے کام کریں گے، آکسفورڈ والے ہر سال اپنی نئی ڈکشنری اس لئے شائع کرتے ہیں کہ انہیں ایک سال کے دوران کئی نئے الفاظ مل جاتے ہیں جنہیں وہ اپنی ڈکشنری میں شامل کرنے کے لئے اس کا نیا ایڈیشن شائع کرتے ہیں مگر ہم اب تک نئے الفاظوں کو قبول نہیں کرپارہے ہیں، معروف محقق گل حسن کلمتی نے کہاکہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانیں ہی قومی زبانیں ہیں اور ساری ثقافتیں پاکستان کی ثقافت ہیں، پاکستان کی الگ سے کوئی ثقافت نہیں ہے، انہوں نے کہاکہ تمام زبانوں کو مادری زبان کا درجہ دینا ہوگا، زبانیں چھوٹی بڑی نہیں ہوتیں اور نہ ہی زبان کسی کا استحصال کرتی ہیں، زبان کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتی بلکہ یہ سب کچھ ہمارے رویوں پر منحصر ہے، اسکردو سے آئی ہوئی مہمان اور اُردو کی پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ سلیم نے کہاکہ گلگت بلتستان کثیراللسانی معاشرہ ہے ایسے معاشرہ میں جہاں خوبصورتی ہوتی ہے وہاں ادب میں ہم آہنگی اور ٹکراﺅ بھی ہوتا ہے،انہوں نے کہاکہ میں لسانیت کے طالب علم کے طور پر 12سال سے کام کررہی ہوں چین نے بہت ترقی کرلی ہے اور اس ترقی کے مثبت اثرات ہم پر بھی ہونا چاہئیں، ہمیں صوبائی سطح پر مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، بڑے کام ہونے چاہئیں، باصلاحیت لوگوں کو سامنے آنا چاہئے اور یہ بڑے کام تراجم کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں، معروف ادیب احمد فواد نے کہاکہ کوئی بھی زبان الفاظ کا ہی مجموعہ ہوتی ہیں زبان اورثقافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، مقامی زبانیں اور ثقافت بیرونی یلغار کے نرغے میں ہے اور دونوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ذکریا یونیورسٹی بہاولپور کے سابق ڈین اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر انوار احمد نے کہاکہ ہمیں ایک دوسرے کی ماں کی عزت کرنی چاہئے جب ماﺅں کی عزت ہوگی تو مادری زبان کی بھی عزت ہوگی، قومی کلچر بھی یہی ہے پاکستان ایک نظریہ تھا اسے زمین بھی مانو اور یہاں رہنے والوں سب کی تکریم کرو، انہوں نے کہاکہ کسی بھی زبان کا ادیب جب بڑا ہوگا جب اس کا ذہن کشادہ ہوگا اور وہ اپنے کسی فقرے سے بھی کسی کی بھی توہین کا مرتکب نہیں ہوگا، معروف مترجم اور محقق سید مظہر جمیل نے کہاکہ کسی بھی علاقے کی ثقافت کا براہِ راست تعلق اس خطے سے رہنے والوں کا ہوتا ہے جس میں زبان کا اہم کردار ہوتا ہے، زبانیں قوانین بنانے سے نہیں پھیلتیں، زبانوں کے مختلف لہجے کہیں نہ کہیں ملتے ہیں، انہوں نے کہاکہ ساری زبانیں اور لہجے مل کر ہماری سوغات اور ہماری تہذیب بنتے ہیں، معروف شاعر ، ادیب اور دانشور امداد حسینی نے کہاکہ فہمیدہ ریاض سندھی زبان کے حقوق کی سب سے بڑی وکیل تھیں اب وہ جتنا دور گئی ہیں ہم سے وہ اتنا ہی قریب ہوگئی ہیں ، انہوں نے کہاکہ قیام پاکستان سے قبل دو زبانیں ایسی تھیں جو ذریعہ تعلیم اور صوبے کی سرکاری زبانیں بھی تھیں ایک بنگالی اور دوسری سندھی، بنگالی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے آدھا ملک کھو دیا گیا ، سندھی زبان کو انگریزی دور میں ذریعہ تعلیم رکھا گیا مگر ون یونٹ کے بعد سندھی کو پانچویں زبان کے درجے پر رکھ دیا گیا، بعد ازاں سندھی زبان کو وہی اسٹیٹس دوبارہ دیاگیا جو انگریز دور میں تھا، انہوں نے کہاکہ زبانوں کے مسئلے میں بغض اور حسد نہیں ہے بلکہ ان کا آپس میں لین دین جاری رہتا ہے، اُردو کا ابدی چہرہ سندھی زبان کے قریب ہے، دکنی لہجہ بھی سندھی زبان کے قریب تر ہے، ہماری شاعری کی اصناف مشترک ہیں، سندھی زبان نسق میں ہے اور اُردو زبان نستعلق میں ہے، یہ ملک ایک نعمت ہے اور ایک کثیر اللسانی اور کثیر الثقافتی زبانوں کا گلدستہ ہے ، انہوں نے کہاکہ اس ملک میں 37زبانیں بولی جاتی ہیں دیگر زبانوں کو بھی قومی درجہ ملنا چاہئے، اجلاس کے نظامت کارڈاکٹر ایوب شیخ نے کہاکہ حکومتوں کی جانب سے زبانوں اور ثقافتوں کی ترویج کے لئے وہ کوشش نہیں ہورہی جو دیگر نجی اداروں کی جانب سے کی جارہی ہے، زبان اور ثقافت سے حکومت کی یہ لاتعلقی ہمیں آخر کہاں لے جائے گی، انہوں نے کہاکہ زبان، ثقافت اور دماغ کے ہونے سے جو انسان کی نشوونما ہوتی ہے اس میں ہم آگے نہیں بڑھ پارہے کیونکہ ہم نے اپنے دماغ کا استعمال کم یعنی سوچنا بند کردیا ہے۔

 

Karachi: the third session of the 3rd day marked for the session on “Pakistani Languages and Pakistani tradition – a discussion”. The panelist was Amar Munir Badini, Mazhar Jameel, Anwaar Ahmed, Qasim Bhughio, Imdad Hussani, Gul Hussain Kalmati, Ahmed Fawad and Azeem Saleem and hosted by Ayoub Shaikh.  Imdad Hussani paid tribute to the veteran writer Fahmida Riaz for her remarkable work in the language. He said that Fahmida was a great supporter of Sindhi language. Sindhi is one of the most influential language and before partition Sindhi and Bangla were the only two languages those have the culture and traditional background and had literate in it.  Avdi was the language close to the Sindhi language. All these languages of Pakistan are interlinked, and, in the past, the whole current Pakistan was Sindh.

Mazhar Jameel said that all the accent is interlinked with all other languages and cultures of Pakistan and all these can go ahead together. Anwar Ahmed said that we should remember that language can only be created by the writers if we have writer, they will create it and in the modern time many things have been changed and it is the time of media and blogging and many youngsters are writing over internet and a progressive writer can develop and promote language as a great language. We should not disrespect any other person or language. He said the Saraiki language has a great background and we are just ignorant to it.

Ahmed Fawad Said that the modern tradition is much influenced by the English as we are doing everything in the English language from school education to the official language. Uzma Saleem who comes from Gilgit said that every culture and tradition always conflictual particularly in its writers. She said that unfortunately in Pakistan we are still wondering here and there to dig out what we should do. There is no policy for languages in Pakistan and we still couldn’t figure out where and how things are working. We cannot confine languages globally and we should accept the impacts of languages on the other languages. Gul Hassan Kalmati Said all the languages are being spoken in Pakistan are the national languages and there is no separate language and culture of Pakistan we are not focusing on the mother language to teach our children if we cannot teach our children in mother language the issues will last longer. No language is greater or minor we should change our behavior.  Munir Badeeni said our life is concerned both with our personal life and the life of others who are affiliated to us, so we should address to the other languages and cultures, we should not consider other’s languages as a great or minor, but tradition is just tradition.

Qasim Bhogio said we couldn’t sense the vision of the writer of our time. Before forty years back they were thinking, and they developed the languages boards, but we lost it due to mismanagement, we are living in a multi-languages society but we are not ready to accept the other languages and this is the one of the greatest weakness.

کراچی (   ) پاکستان میں تعمیر ہونے والی اقتصادی راہداری ’سی پیک ‘کے پاکستان میں چین کی جانب سے متعین کئے جانے والے ایڈوائزر اور چینی ادیب و شاعر ٹینگ مینگ شنگ کہا ہے کہ چینی حکومت اور قیادت چاہتی ہے کہ پاکستان خوشحال ہو، یہاں کے عوام خوشحال ہوںاور پاکستان ترقی کی منازل طے کرے، پاکستان اور چین کو دوستی کے مزید مضبوط بندھن میں بندھنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی ثقافت کو پہچانیں کیونکہ ہم ثقافتی طور پر جتنا ایک دوسرے کو جانیں گے ہماری دوستی بھی اتنی ہی مضبوط ہوگی اس حوالے سے پاکستان اور چین کے دانشور، اُدباءاور شعراءاہم کردار ادا کرسکتے ہیں، میں کراچی میں تقریباً چار سال رہا ہوں جبکہ پاکستان میں، میں نے 16سال گزارے ہیں یہاں کے عوام بہت محبت کرنے والے ہے، دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ ہمارے درمیان دوستی کے رشتے آنے والے وقتوں کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے دن منعقدہ چوتھے اجلاس ”چین سے ہمارے معاشی وثقافتی رشتے“ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے ٹینگ مینگ شنگ کا آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں آنے اور گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس میں شرکت کرنے پر بھرپور شکریہ ادا کیا اورکہاکہ گزشتہ روز چینی قونصلیٹ میں جو واقعہ پیش آیا اس کے باوجود ہمارے چینی مہمان دوست ہمارے پروگرام میں شرکت کرنے کے لئے تشریف لائے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہر گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی جائے گی اور دونوں ممالک کے عوام سماجی و ثقافتی رشتوں میں ایک دوسرے کے اور قریب آئیں گے، اجلاس کی نظامت کے فرائض سیدجعفر احمد نے انجام دیئے، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ٹینگ مینگ شنگ نے کہاکہ سی پیک کے حوالے سے پاکستان میں چین جو کام کررہا ہے وہ چین کی جانب سے پاکستانی عوام کے لئے ایک تحفہ ہے، ہم پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں پاکستان آگے بڑھے، انہوں نے کہاکہ چین میں پاکستان کی زبان اُردو تو پڑھائی جاتی ہے مگر پاکستان کی دیگر علاقائی زبانوں کے بارے میں وہاں لوگ نہیں جانتے، انہوں نے کہاکہ انہوں نے اپنے طور پر کوشش کی ہے کہ سندھی اور پنجابی شاعری جو صوفی ازم سے متعلق ہے اس کا چینی زبان میں ترجمہ کیا جائے، انہوں نے کہاکہ سی پیک پاکستان کے چاروں صوبوں سے گزرے گا اور دونوں ممالک کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ناصرف اس کے ذریعے تجارت کا استحکام ہو بلکہ تہذیب و ثقافت کے رشتے بھی پھلے پھولیں، انہوں نے کہاکہ سی پیک کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے میری یونیورسٹی نے بھی مجھے 68سال ہونے کے باوجود ابھی تک ریٹائرڈ نہیں کیا کیونکہ چین یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں سے گزرنے والی اقتصادی راہداری سی پیک مکمل ہو اور پاکستان خوشحال ہو ، انہوں نے کہاکہ کراچی میں میرے بہت دوست ہیں میں خود کئی بار کراچی یونیورسٹی جاچکا ہوں، ادب کے حوالے سے چائنا اور پاکستان میں تھوڑا فرق ہے جس طرح کہا جاتا ہے کہ ادب معاشرے کا عکاس ہوتا ہے بلکہ اسی طرح چین کے ادباءاور شعراءوہاں کے معاشرے کی عکاسی بھرپور انداز میں کررہے ہیں، انہوں نے کہاکہ پاکستان میں شاعری کا رجحان بڑھا ہے، پاکستان میں لوگوں مزاج شاعرانہ ہے، جبکہ چائنا کے لوگوں کا مزاج سنجیدہ ہے،انہوں نے کہاکہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں ، سی پیک سے قبل ہر سال 100کے قریب طالب علم چائنا جاتے تھے مگر اس وقت تقریباً 25ہزار پاکستانی طالب علم چائنا میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، انہوں نے پاکستانیوں کو دعوت دی کہ وہ ضرور چائناجائیں، سید جعفر احمدنے سوال کیا کہ بہت سارے پاکستانی چینی ادب کا ترجمہ کررہے ہیں چین میں پاکستانی ادب کی کیا صورتحال ہے ؟ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے کئی معروف ناول جیساکہ ”اُداس نسلیں“، ”خدا کی بستی“ اور احمد ندیم قاسمی کے افسانے چینی زبان میں ترجمہ ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ پاکستانی معاشرے کے بارے میں بھی بہت کچھ چھپ رہا ہے، انہوں نے کہاکہ میں نے پاکستان کے حوالے سے کتاب لکھی ہے چینی اور پاکستانی ایمبسی مل کر کتابیں ترجمہ کررہے ہیں اور اجراءبھی کررہے ہیں ، چین کے تقریباً600 طالب علم پاکستان میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، پاکستانی طالب علموں کو چین اچھا وظیفہ دے رہا ہے اس وجہ سے بھی زیادہ پاکستانی چین جارہے ہیں، وہ وہاں پر اکنامکس ، ایم بی بی ایس اور چائنیز زبانیں سیکھ رہے ہیں، اس وقت چین میں 12 پاکستان اسٹیڈیز سینٹر ہیں جبکہ پاکستان میں صرف 6ہیں، بیجنگ یونیورسٹی میں ایم اے سے پی ایچ ڈی تک تعلیم دے رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہم چین اور پاکستان کے درمیان ایک پل

کا کردار ادا کریں۔

Karachi: the 4th session of 11th international Urdu Conference was staged with the title of “Our Economic and Traditional relation with China”. The discussant was the professor of Beijing University Mr. Tang Mang Shang and hosted by Syed Ahmed Jaafar. He thanked the President Arts Council of Pakistan Karachi Muhammad Ahmed Shah for organizing an event. He said that before CPEC only a few hundred students wanted to go to China for higher education but nowadays China accommodating more than 25000 students in its different universities. Syed Ahmed Jaafar asked many Pakistani are translating Chinese literature into Urdu what is the situation of Urdu Translation in China. Shang said many renown novels are been translated into the Chinese language including “KhudaKi Basti”, “UddasNaslen” and the short stories of Ahmed Nadeem Qasmi. I have been writing a book on the Sufism of Pakistan and it is one of the most readied books in China. Pakistan and China Embassies are working together on translations and publications. More than 600 Chinese students are getting an education in Pakistan where Pakistani students in China are doing master’s to Ph.D. and we wish we can play a role of a bridge between the culture of Pakistan and China. He said that there is a difference between the Pakistani and Chinese culture. Urdu is a poetic language and we are not much poetic. However, we should bridge things like culture, art,and traditions.

 


کراچی (   )معروف شاعر افتخار عارف نے کہا ہے کہ نعت کو ادب کی صنف کے طور پر شمار کرنا چاہئے یعنی نعت کو ادب کی جمالیات پر پورا اُترنا چاہئے، اگر کوئی نعت لکھ رہا ہے تو یقینا وہ ثواب کا مستحق تو ہوگا مگر ادب میں شمار نہیں ہوگا، عربی اور فارسی شاعری جو نعت کے حوالے سے کی گئی ہے وہ سب ایک جگہ جمع بھی کرلی جائے تو اس کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوگی جتنی زیادہ شاعری اور کام اُردو زبان میں ہوا ہے، اصنافِ سخن کے ساتھ نعت کو بعض لوگوں نے کاروبار بنا رکھا ہے، نتیجتاً سنجیدگی سے کام کرنے والے اور نعت کہنے والے شاعر گمنامی میں چلے جاتے ہیں، نعت پر لکھی جانے والی بعض کتب میں ایسی بحث اور گفتگو شامل ہوتی ہے کہ جسے پڑھ کر دل بہت دکھتا ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے دن پہلے اجلاس سے بحیثیت صاحبِ صدر خطاب کرتے ہوئے کیا جس میں ”حمد و نعت۔عقیدت سے تخلیق تک کا سفر“ کے عنوان سے معروف شعراءفراست رضوی اور گہر اعظمی نے اپنے مقالے پیش کئے جبکہ معروف شاعر اعجاز رحمانی نے نعت پیش کی، نظامت کے فرائض عزیز الدین خاکی نے انجام دیئے، افتخار عارف نے مزید کہاکہ علامہ اقبال نے خود اکیلے جتنا کام نعت پر کیا ہے اتنا کام کسی اور نے نہیں کیا، کوئی شخص اپنے عقیدے کے مطابق نعت لکھ رہا ہے تو کسی اور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ وہ اسے پابند کرے کہ وہ اس کے عقیدے یا کسی اور عقیدے کے مطابق نعت لکھے، انہوں نے کہاکہ موجودہ زمانے میں نعت کو عروج حاصل ہورہا ہے اور کئی نعت کہنے والے شاعر سامنے آرہے ہیں، نئے آنے والے شعراءسے یہ درخواست کروں گا کہ وہ نعت کو ادبی میزانیہ میں بھی رکھ کر ضرور دیکھیں اور کسی سینئر نعت گو شاعر سے اس پر اصلاح بھی لیں، فراست رضوی نے ”نعت کے تخلیقی و جمالیاتی پہلو“ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ تقدیسِ عقیدت میں ڈوبے نعت کے الفاظ اُردو شاعری کا معجزہ ہے مغفرت کا سبب بھی ہے اور اُمت کے لئے یکجہتی کا پیغام بھی، ساتھ ہی ساتھ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہونے کا افتخار بھی، نعت کے سوا اور کون سی صنف سخن ایسی نہیں ہے جس کی اتنی اخلاقی جہتیں ہوں، خالقِ کائنات تو خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ثناءخواں ہے، وہ جس کے لئے کائنات وجود میں آئی اس کی تعریف بھلا ہم کیسے کرسکتے ہیں، وہ تو اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے، انہوں نے کہاکہ محض عقیدت کے جذبات سے پر اثر نعت نہیں لکھی جاسکتی، نعت کے تخلیقی تقاضے کئی زیادہ ہیں، انہوں نے کہاکہ عہدرسالت میں ہی نعت گوئی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، آپ کے چچا ابو طالب نعت کے پہلے شاعر ہیں، اُردو میں نعتیہ شاعری کا آغاز میلاد نامے اور معراج نامے لکھنے سے ہوا، پاکستان بنتے وقت جو لہو کے دریا بہے وہ کرب بھی نعت نگاری کا سبب بنا، بہت زیادہ علم رکھنا نعت گوئی کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ سلیقہ اور عقیدت کا متقاضی بھی ہے، انہوں نے کہاکہ نعت تہذیب اظہار اور جمالیات کی عکاس ہونی چاہئے، نعت نگاری کی جمالیات کو دوسطحوں پر سمجھا جاسکتا ہے، نعت میں علامت، استعارے اور تشبیہ کا استعمال بھی اہم ہے، موجودہ عہد میں نعت پر کئی پی ایچ ڈی مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں اور کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے، جدید اُردو نعت میں اُمت کے دُکھو ں کا عکس بھی ہے، یہ سچ ہے کہ حقِ مدحت انسانوں سے ادا نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو جانتا اور پہچانتا ہے، مدحت ِرسول کا یہ سفر تاقیامت جاری رہے گا کیونکہ اس ذکر کو اللہ تعالیٰ نے خود بلند کرنے کا وعدہ کیا ہے۔گہر اعظمی نے ”اُردو شاعری میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ جب سیرت کی بات ہوتی ہے تو اس کا تصور تخلیقِ کائنات سے پہلے خالقِ کائنات کے تصور میں موجود تھا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو یہ کائنات وجود میں نہ آتی، سیرت کی ضرورت صرف تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے، اسلام سے پہلے عرب میں لکھنے پڑھنے کا رجحان کم تھا مگر مدتوں سے چلا آرہا تھا، مدینہ منورہ میں لکھنے کا رواج عام تھا اس لئے نثر کے علاوہ وہاں نظم لکھنے والوں کی کمی نہیں تھی، انہوں نے کہاکہ سیرت کے مختلف گوشوں کو اُجاگر کرنے کا وصف دنیا کی ہر زبان میں جاری ہے، فارسی زبان کے شاعروں نے سیرت کو بہت زیادہ بیان کیا ہے، امیر مینائی، احمد رضا بریلوی، الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، شکیل بدایونی، مولانا ظفر علی خان، مولانا ماہر القادری، حفیظ جالندھری، راغب مراد آبادی، ادیب رائے پوری اور اقبال عظیم سمیت دیگر نے سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ کام کیا ہے، علامہ اقبال نے تو بہت آسان اور صاف انداز میں نعت کہی ہیں، آج کل کے دور میں جاذب قریشی، طاہر سلطانی، عزیز الدین خاکی اور بہت سی دیگر شخصیات سیرت پر کام کررہی ہیں، انہوں نے کہاکہ نئے شعراءکو قرآن و حدیث کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے تاکہ وہ نادانستہ طور پر ہونے والی ممکنہ غلطیوں سے بچ سکیں ، اُردو شاعری میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ کام نہیں ہوا ہے۔اس موقع پر معروف شاعر اعجاز رحمانی نے اپنے خوبصورت اور ترنم انداز میں نعت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی۔

Karachi: The first session of the third day of international Urdu Conference opened with the discussion on “Hamd o Naat: A journey from belief to creativity”. The session chaired by Iftikhar Arif and Ejaz Rahmani and discussant were Farasat Rizvi and Ghar Azmi. Famous poet Iftikhar Arif said that Nahat should be judged on the standards of literature if someone is writing Nahat for the sake of reward but this cannot be considered in the literature. If we collect all the poetry on Prophet PUBH it will be as much as the poetry in Urdu, but some people have to make it business and those who were writing the real Nahat left in darkness without any consideration. He said that Iqbal was one of the greatest poets of writing Nahat, he did a lot of work on Nahat and no one else did so. Writing a Nahat not only demanding knowledge but respect and belief as well. Nahat doesn’t belong to any sector group or religious people it is universal. Nahat is as like as other poetries. The very first poet of the Nahat was Hazrat Abu Talib the uncle of Prophet Muhammad PUBH and it continues since that. In the modern time, many people have been done their Ph.D. on Nahat.

Ghar Azmi read his paper on “Urdu Poetry &Prophetic Syrat”. He said that without the Prophet PUBH the universe cannot have any existence, Poetry was famous in Arab and they started it since then Nahat is alive.  He added that many famous poets of modern time used to write Nahat including Ameer Minai, Amed Raza Bralvi, Altaf Hussain Hali, Allama Iqbal, Shakeel Badavani, Maulana Zafar Ali Khan, Maulana Mahar al Qadari, Hafeez Jhalandri, Raghib Murad Abadi, Adeeb Ray Poori, and Iqbal Azeem. Farast Rizvi read his paper on “Creativity and Aesthetic aspect of Nahat” where famous poet Aijaz Rahmani present a Nahat on the occasion.

 کراچی (   )معروف براڈ کاسٹر،کالم نگار اور ادیب رضا علی عابدی نے کہا ہے کہ بچوں کا ادب لکھنے والے کو فرشتہ صفت ہونا چاہئے کیونکہ اس کو پڑھنے والے فرشتے ہیں، بچوں کی کہانی میں مٹھاس ہوتی ہے جس میں سے شہد ٹپکتا ہے، بچوں کا ادب وہاں تخلیق ہوتا ہے جہاں وہ خود تخلیق ہوتے ہیں یعنی آسمانوں پر، بچوں کا ادب نکھارا جاتا ہے، اُسے سنوارا جاتا ہے، اس کے رُخسار پر چھوٹا سا تِل لگایا جاتا ہے، ہماری فضا، ہوا، ہمارے گرد پھیلی ہوئی روشنی، ہمیں چین سے سلانے والی تاریکی، ہماری خاموشی میںکہیں دور سے آنے والی کسی بچے کی صدا یہ سب مل کر بچوں کا ادب تخلیق کرتے ہیں،بچوں کا ادیب وہی ہے جو ماں کی خوشبو بھری گود میں بیٹھے بچے کی سوچ کو پڑھ کر اُس سوچ کا حال لکھ دے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے دن ”بچوں کا ادب“ کے حوالے سے منعقدہ دوسرے اجلاس سے بحیثیت صاحبِ صدر خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر سلیم مغل، ابنِ آس،فرزانہ روحی اسلم اور امینہ سید نے اظہارِ خیال کیا، جبکہ نظامت کے فرائض رضوان زیدی نے انجام دیئے، رضا علی عابدی نے کہاکہ میں نے بڑوں کے لئے 19کتابیں لکھی ہیں جبکہ بچوں کے لئے 20کتابیں لکھی ہیں اس پر مجھے ناز ہے، میں جب بچوں کے لئے لکھتا ہوں تو بہت خوشی محسوس کرتا ہوں، ایک ایسی خوشی کا احساس جو میری روح تک کو تازہ کردیتی ہے، انہوں نے کہاکہ بچوں کی زبان اچھوتی اور پاکیزہ ہوتی ہے، ان کی زبان گنگاتی ہے اور خود بخود کہانیاں کہتی جاتی ہے، انہوں نے کہاکہ بچوں کے ادب پر مجھے اذان کا گماں ہوتا ہے ویسے ہی پاکیزہ احساس کانوں میں گونجنے لگتا ہے، امینہ سید نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ فہمیدہ ریاض مرحومہ نے ہمارے ادارے کے ساتھ مل کر کافی کام کیا اور بچوں کے ادب کے حوالے سے کئی کتابوں کے تراجم بھی کئے، انہوں نے کہاکہ میرا فہمیدہ ریاض سے تعلق 25سال پر محیط ہے، میں نے ان سے اپنے ادارے میں کام کرنے کی درخواست کی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ آپ کو اتنے بجے سے اتنے بجے تک آنا ہوگا اور ہمارے ادارے کی جانب سے جو آپ سے کہا جائے گا اس پر آپ کو لکھنا ہوگا، جس پر فہمیدہ ریاض نے کہاکہ میں اپنی مرضی سے آﺅں گی اور اپنی مرضی سے جاﺅں گی اور جو میرادل چاہے گاوہی لکھوں گی، اس پر ہم نے ان سے کہاکہ ٹھیک ہے آپ آئیے اور ہمارے ادارے کے لئے لکھئے، ابھی دوسال قبل تک وہ ہمارے ادارے کے لئے لکھتی رہی تھیں، انہوں نے کئی کتابوں کے تراجم کئے، ہمارے ادارے نے جاپانی کتاب کا انگزیزی میں ترجمہ کیا، کتاب کا انگریزی نام تھا The snow prime country اس کتاب کا فہمیدہ ریاض نے اُردو زبان میں بہت خوبصورت ترجمہ کیا اور کتاب کا نام رکھا ”برف نگر کا شہزادہ“ اس کتاب کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی تھی، امینہ سید نے کہاکہ فہمیدہ ریاض نے شاعری بھی کی، کتابیں بھی لکھیں اور تراجم بھی کئے، حمیدہ کھوڑو سے ان کی دوستی بہت تھی، حمیدہ کھوڑو نے بچوں کے لئے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں، فہمیدہ ریاض نے ان کی کتابوں کا بھی اُردو میں ترجمہ کیا، فہمیدہ ریاض نے لٹریسی ہیرٹیج سیریز کا سلسلہ بھی شروع کیا جسے ہمارے ادارے نے شائع کیا، فرزانہ روحی اسلم نے کہاکہ بچے کو کہانی چاہئے ایسی کہانی جس کی ہر سطر پڑھ کر یہ سوچتا رہے کہ آگے کیا ہوگا اور اس سے آگے کیا ہوگا، بچے جانوروں کی کہانیاں زیادہ پسند کرتے ہیں، بچوں کے کئی رسالے ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے، انہوں نے کہاکہ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو کتاب پڑھنے کا عادی بنائیں، ابنِ آس نے کہاکہ عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بچوں کا ادب ختم ہوتا جارہا ہے مگر ایسا نہیں ہے، آج بھی ملک بھرمیں بچوں کے رسائل کی تعداد 56ہے جو تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں اور ان میں کچھ رسائل تو ایسے ہیں جن کی اشاعت ایک لاکھ سے بھی زائد ہے، انہوں نے کہاکہ بچوں کے نئے ادیب بھی منظر عام پر آرہے ہیں، بچے آج بھی جن، دیو ، پرَی اور ٹارزن کی کہانیاں پڑھ رہے ہیں اور ان موضوعات پر لکھی گئی کتابیں آج بھی کافی زیادہ تعداد میں شائع ہورہی ہیں، سلیم مغل نے کہاکہ کہانیوں کا بہترین ٹارگٹ بچے ہی ہوتے ہیں بچے جو کہانی سنتے ہیں اس کا نقش ان پر گہرا ہوتا ہے، کہانیاں پڑھ کر بچوں میں ایک نئی قوت بیدار ہوتی ہے اور اُن میں سوچ کا ایک نیا پروسیجر شروع ہوتا ہے، بچے اَن دیکھے کرداروں کے بارے میں سوچتے ہیں،یہ بھی سچ ہے کہ آج کے دور میں قاری ناظر میں بدل گیا ہے اب اسے ویژول بھی چاہئے، انہوں نے کہاکہ بیشتر بچوں کے ادیب یہ سمجھتے ہیں کہ کہانی میں بچوں کے نام ڈالنے سے کہانیاں بچوں کی بن جاتی ہیں ایسا نہیں ہے کہانیوں میں بچے کا اسلوب، اُس کا لہجہ اور اس کے الفاظ بھی چاہئیں۔

Karachi: “the Children’s literature” was the topic of the second session of the third day of 11th international Urdu Conference. The session was chaired by Raza Ali Abadi and discussant were Saleem Mughal, Ibn e Aas,and Farzana Rohi Aslam where hosted by Rizwan Zaidi.Raza Ali Aabdi said I have written 19 books for elders and I am proud that I have written 20 books for children. Children’s literature needs a lot of minor and little things to be considered, one must be fair and concern ethically to write the children literature. Writing literature for children is not an easy task.

While talking on the children literature Saleem Mughal said that many new writers are writing for children, but 80 percent of literature are being published by the religious organizations and somehow, they have an impact on the children literature. We must draw new lines in the children literature. Amina Syed Talked about the work of Fahmida Riaz and said she was a great soul and her work is remarkable. She did a lot of work for the Oxford University Press and translated many books. Farzana Rohi said that children literature should be expended and parents should focus on the reading habit of the children. Ibn e Aas said new technologies are changing the reading behavior of the children an access to modern technology makes it easy for the children to read and watch videos. It is the demand of time to focus more on the virtual literature than other things.


کراچی (    )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے دن آٹھویں اجلاس میں مختلف کتابوں کی رونمائی کی گئی جن پر معروف ادبی شخصیات نے اظہارِ خیال بھی کیا، نیر مسعود کی کتاب ”تعبیر غالب“ پر بھارت سے آئے ہوئے معروف دانشور اور نقاد شمیم حنفی ، نجم الحسن رضوی کی کتاب ”مٹی کا درخت“ پر مرزا حامد بیگ، شاہ بانو علوی کی کتاب ”رودادِ چمن“ پر عامر حسین، ایوب خاور کی کتاب ”Symphony and other poems“ پر حارث خلیق، تہمینہ راﺅ کی کتاب ”مجھے یاد کرنا“ پر باصر کاظمی اور یاسمین حمید کی کتاب ”ہم دو زمانوں میں پیدا ہوئے“ پر مبین مرزا نے اظہارِ خیال کیا، تقریب کی نظامت کے فرائض ناصرہ زبیری نے انجام دیئے، شمیم حنفی نے نیر مسعود کی کتاب ”تعبیر غالب“ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ نیر مسعود ہر کام بہت احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ کیا کرتے تھے انہوں نے جو بھی لکھا بہت ذمہ داری سے لکھا گو کہ انہوں نے افسانے بہت دیر سے لکھنا شروع کئے مگر جو بھی لکھا بہت عمدہ لکھا، ان کی کتاب ”تعبیر غالب“ بھی اسی احتیاط کے ساتھ لکھی گئی ہے، نیر مسعود نے اپنے کمال کا اظہار اپنے فکشن میں کیا ہے، انہوں نے کہاکہ نیر مسعود اپنے رنگ کے الگ ہی افسانہ نگار تھے وہ مزاجاً تذکرہ نویس تھے ان کی دو کتابیں ”انیس کی سوانح“ اور ”مرثیہ خوانی کا فن“ مجھے بہت پسند ہیں، ان کی کتاب ”تعبیر غالب“ کی اہمیت اس لئے بھی بہت زیادہ ہے کہ یہ نیر مسعود کے قلم سے لکھی گئی ہے، انہوں نے ہمیشہ غیر ضروری تفصیلات سے گریز کیا ہے ان کے انداز میں متانت بہت تھی،شمیم حنفی نے مزید کہاکہ نیر مسعود کی اس کتاب میں تمام خوبیاں جن میں متانت ، سنجیدگی اور اختصار سمیت تمام جہتیں ملتی ہیں، نیر مسعود نے اپنی کتاب میں بصیرت سے بھری باتیں کی ہیں جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، نجم الحسن رضوی کی کتاب ”مٹی کا درخت“ پراظہارِ خیال کرتے ہوئے مرزا حامد بیگ نے کہاکہ جدیدیت کی تحریک سے جُڑے نمایاں افسانہ نگار ہیں، وہ ”ماروی اور مرجینا“ لکھ کر ناول نگار کے طور پر سامنے آئے، جب انہیں اس ناول پر انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی میں 36سال پہلے ماضی میں چلا گیا تھا کہ جب شام کو وہ، میں اور دیگر شاعر و ادیب دوست پنڈی صدر بازار کے شالیمار ریسٹورنٹ میں بیٹھا کرتے تھے ، اُن کا ناول ”مٹی کا درخت“ انسانی محسوسات اور جذبوں کی چھان پھٹک سے متعلق ہے، شاہ بانو علوی کی کتاب ”رودادِ چمن“ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے عامر حسین نے کہاکہ گمشدہ تحریروں کو شائع ہوتے رہنا چاہئے تاکہ ہم پڑھتے رہیں اور اپنے ماضی کے زمانے سے واقف ہوتے رہیں،ایوب خاور کی کتاب”Symphony and other poems“ پر حارث خلیق نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کا ہمارے معاشرے پر کافی اثر رہا ہے، ایوب خاور نے بڑے مشہور ڈرامے دیئے ہیں ان کی کتاب میں انتہائی نرم خواور زمین سے جُڑی ہوئی شاعری ہے، تہمینہ راﺅ کی کتاب ”مجھے یاد کرنا “ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے باصر کاظمی نے کہاکہ تہمینہ راﺅ کو اتنے بڑے اجتما ع میں کتاب کی رونمائی پر بہت مبارکباد ہو، اس کتاب میں غزلیں زیادہ ہیں جبکہ اس میں ان کی شاہکار نظمیں بھی شامل ہیں، یاسمین حمید کی کتاب ”ہم دوزمانوں میں پیدا ہوئے“ پر گفتگو کرتے ہوئے مبین مرزا نے کہاکہ اچھی کتاب کے بارے میں محمد حسن عسکری صاحب نے کہا تھا کہ اچھی کتاب کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے پہلے جو آپ ہوتے ہیں اس کے پڑھنے کے بعد وہ نہیں ہوتے، یاسمین حمید کی کتاب کو ہم بہت آسانی سے نہیں پڑھ سکتے، کوئی بھی تخلیق کار زمانے سے تعلق توڑ کر تخلیق نہیں کرسکتا، یاسمین حمید صاحبہ کی شاعری ایک رشتے کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے، جو اس زمانے میں عورت کی حقیقت کی ہے ۔

Karachi: the eighth and the last session of 11th International Urdu Conference was book launching ceremony held at Arts Council Auditorium. 7 books were launched in the session Tabeer e Ghalib by Nayer Masood, Matti ka Darakht by Najam ul Hassan Rizvi, Roodad e Chaman by Shah BanoAlvi, symphony and other poems by AyubKhawar, MujhyYaad Karna by Tehmina Rao and hum do Zamanon ma Paida hoy by Yasmeen Hameed where stage was hold by Nasira Zubair.

Mubeen Mirza discussed the book of Yasmeen Hameed, Hum Do ZamanonmiNpaida hoy and discussed the content of the book while describing the literary abilities of the Yasmeen Hamid. He said that Yasmeen Hameed is unique with his style of writing.

Basir Kazmi discussed the book of Tahmina Rao, MujyYadKrna., Shamim Hanafi discussed the book Tabeer e Ghalib by Nayer Masood, Mirza Hamid Baig discussed Matti ka Darakht by Najam ul Hassan Rizvi, Aami Hussain discussed Roodad e Chaman by Shah BanoAliv, HarisKhalique discussed Symphony and other poems by AyubKhawarand share content from the books.

At the end of the 2nd day of international Urdu Conference famous singer Tina Sani Sings the song of Iqbal and Faiz Ahmed Faiz, the auditorium was full of the audience.

 

 


22nd November 2018

خبر….نمبر4

کراچی (    ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے پہلے دن تیسرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف مزح نگار انور مقصود نے اپنی خوبصورت گفتگو سے محفل کو زعفرانِ زار بنا دیا ، انہوں نے سب سے پہلے صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ کو بھرپور مبارکباد پیش کی کہ انہوں نے عالمی اُردو کانفرنس کے تسلسل کو توڑا نہیں بلکہ یہ کامیابی کے ساتھ مستقل جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس اُردو عالمی اُردو کانفرنس کی وجہ سے ہر سال کانفرنس کا ایک سال کم ہوجاتا ہے مگر احمد شاہ کی صدارت کا ایک سال بڑھ جاتا ہے، انہوں نے کہاکہ احمد شاہ نے آرٹس کونسل کراچی کو جتنا وقت دیا ہے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لئے جتنی محنت کی ہے اگر اتنا وقت اور محنت یہ کالا باغ ڈیم بنانے کے لئے کرتے تو وہ کب کا بن چکا ہوتا، انہوں نے کہاکہ میں سوچ رہا ہوں کہ احمد شاہ پر کتاب لکھوں مگر اس کتاب کا عنوان کیا لکھوں یہ سمجھ نہیں آرہا، سوچتا ہوں کہ کتاب کا نام رموزِ احمد شاہ، تذکرہِ احمد شاہ، نذرِ احمد شاہ، یادگارِ احمد شاہ یا تلاشِ احمد شاہ نام رکھوںاگر کتاب کا نام تلاشِ احمد شاہ لکھوں تو یہ کتاب مجھے اور احمد شاہ کی بیگم کو مل کرلکھنا پڑے گی۔ اس موقع پرانور مقصود نے اپنی گفتگو میں معروف شاعر جون ایلیا کا بھی تذکرہ کیا اور ازراہِ تفنن بتایا کہ جون ایلیا کو میں بھائی جون کہا کرتا تھا تو وہ مجھ سے کہتے کہ تم مجھے بھائی جون مت کہا کرو صرف جون کہا کرو، میں نے کہا ٹھیک ہے آپ بھی مجھے انور مقصود صاحب کہا کریں، ایک نظر انہوں نے مجھے دیکھا اور کہنے لگے کہ میں تمہارے گھر بیٹھا ہوں اگر اپنے گھر میں ہوتا تو رکشے میں چلا جاتا۔ میرے گھر جب وہ آئے تو اپنی جیب سے دو ہلکے ہلکے گلاس نکالے اور کہنے لگے تمہارے گھر کے گلاس بہت بھاری ہیں لڑکیوں کی طرح ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، انور مقصود نے جون ایلیا کا حلیہ بتاتے ہوئے کہاکہ ان کے بال وبال، سرآشفتہ، آنکھیں منتظر، دماغ شہرِ جمال، صحت خواب و خیال، قدآور، ہاتھ قلم، غصہ لبریز ، دل پیمانہ، دور سے دیکھو تو مسئلہ، مردوں کی محفل میں پرسکون اور عورتوں کی محفل میں پھدکتا افلاطون، اس موقع پر انور مقصود نے ازارہِ تفنن تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ جون ایلیا کا مرنے کے بعد انہیں خط موصول ہوا ہے جس میں وہ مجھے لکھتے ہیں کہ جانی، جہاں اب میں ہوں وہاں بجلی نہیں ہے صرف ایمان کی روشنی ہے، یہاں کئی شاعر اور کئی ادیب موجود ہیں ہم اکثر یہاں مشاعرے کی محفل بھی سجاتے ہیں ایک بار جب مشاعرے کی محفل سجائی گئی تو غالب کی شاعری پر میر نے واہ کہا تو میں نے میر سے کہا کہ آپ نے غالب کی شاعری پر واہ کہا ہے تو وہ کہنے لگے کہ میری کمر میں درد ہے میں آہ کہنا چاہ رہا تھا مگر منہ سے واہ نکل گیا، ہمارے پاس مشتاق احمد یوسفی بھی آچکے ہیں یوسفی صاحب کو دیکھ کر حوریں بھی مسکرا رہی ہیں یوسفی صاحب اپنے گوشے میں رہنے کے بجائے کسی شاعرہ کے گھر مقیم ہیں، ایک دن جب مشاعرہ منعقد کیاگیا تو ہوا بھی بہت تیز چل رہی تھی میں نے میر کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا تو غالب نے کہاکہ میر کو پکڑ کر رکھو ہوا تیز چل رہی ہے، مشاعرے میں میر اور غالب کے پڑھنے کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ تم بھی اپنے اشعار سناﺅ تو میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ غالب اور میر کے بعد میں کچھ سناﺅں تو وہ کہنے لگے کہ تم پیدا بھی تو ہمارے بعد ہوئے تھے۔ جون ایلیا نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ جو ملک میں چھوڑ کر آیا ہوں وہاں بہادر بہت ہیں مگر بہادروں کے لئے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے، میری ملاقات یہاں فیض احمد فیض سے بھی ہوئی، فیض مجھ سے کہنے لگے کہ پاکستان میں تبدیلی آگئی ہے، میں نے کہا ہاں پہلے لاہور میں جشن بہاراں ہوتا تھا اب فیض میلہ ہورہا ہے، انہوں نے کہاکہ میں سیاسی تبدیلی کی بات کررہا ہوں ، نیا پاکستان صرف اسی طرح بن سکتا ہے کہ تم اپنے وزیراعظم عمران خان کو کہو کہ پرانے پاکستان کو ملک ریاض کو بیچ دے ، نئے پاکستان کو کراچی سے شروع ہونا چاہئے، جون ایلیا نے خط میں مزید لکھا ہے کہ ہر بڑے سیاستدان کے لئے اچھا بے ایمان ہونا ضروری ہے مگر عمران چونکہ ایماندار ہے اسی لئے مشکل میں ہے۔

Karachi: In the second session of the first day of 11th International Urdu Conference held at Arts Council of Pakistan remembered the veteran poet, writer and philosopher Johan Elia with the title of “John Elia – Only one man in the world”. The session was hosted by Aneeq Ahmed where Pirzada Qasim, Shakeel Adil Zada, Iqbal Haider, Shahid Rassam and Abbas Naqvi attended the session and discussed the life of John Elia. While talking about the John Elia Pirzada Qasim said that John was not only a poet but an intellectual and thinker. He had a great reading and research on philosophy, poetry, theology, history, and languages. John Elia lives a life with many contradictions, but he left a great heritage of poetry and critical literature for us. He recited some famous poems and verses from the poetry of John Elia. Famous Writer Shakeel AdilZada said that John was living in Karachi, but his heart and soul always remains in Amroha. He spent his early life in Amroha and then shifted to Karachi where he started “Insha”. Adil Zada said that John had a great intellectual approach beyond his poetry. Iqbal Haider said that John lives in controversies, but he lives a hard life he was a great intellectual asset for us and the people were lucky who spent some time with us. It was a really great time for me that I spent time with him. Artist Shahid Rassam spent his early life with John while talking about John Elia, he said that John is considered as a poet and he left a great asset for us that is being popular with Johnism. He recited some of the famous poems of John. Abbas Naqvi said that John is the representative of the style of Mir and he feels proud for it. Once he asked why I am not being sung as Mir? We cannot enclose him in the boxes if we want to reach him, we should have the let the box open-ended.  At the end of the session, famous artists Yousaf Basheer Qurashi recited the poetry of John wherein another session of the 1st day of international Urdu conference famous writer and humorist Anwar Maqsood read a letter from John Elia. He talked about the life of many artists and poets in heaven living with John. A documentary on the life of John Elia was shown after the reading of Anwar Maqsood. The first day of international Urdu conference ended with the session of classical dance by Farah Yasmeen Shaikh and Mano Chao.

 

خبر….نمبر3

کراچی (    ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے پہلے دن دوسرے اجلاس میں معروف شاعر جون ایلیا کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی،اس نشست کی نظامت کے فرائض معروف ٹی وی اینکر انیق احمد نے انجام دیئے۔ جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہاکہ دُنیا بھر میں جہاں جہاں اُردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں جون ایلیا کو بہت اچھی طرح جانا اور پہچانا جاتا ہے دُنیا بھر میں شعر وادب میں دلچسپی رکھنے والے لوگ جون ایلیا کو بہت زیادہ پڑھ رہے ہیں ،جون ایلیا کے اشعار زندگی کے معاملات کے ساتھ ساتھ براہِ راست دل پر اثر کرنے والے ہیں، جون ایلیا چونکہ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے لہٰذا انہوں نے جو تراجم کئے ہیں وہ ان کی شخصیت کو ایک عالمانہ شان کے ساتھ پیش کرتے ہیں، جون ایلیا نے درحقیقت گفتگو کو شاعری بنادیا تھا، انہوں نے کہاکہ ادب تو نام ہی سوال اٹھاتے رہنے کا ہے، جون ایلیا کا رویہ کچھ اس طرح تھا کہ جس میں طنز، انکار اور اذیت نظر آتی تھی وہ اپنی شاعری میں کئی سوال اُٹھاتے تھے۔ معروف ادیب شکیل عادل زادہ نے کہاکہ میں نے جون ایلیا کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور ان کے ساتھ ایک دو برس نہیں بلکہ سالوں گزارے ہیں وہ امروہا سے کراچی آئے تھے مگر کراچی میں رہنے کے باوجود ان کا دل میں امروہا ہی میں لگا رہتا تھا، ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی نثر پر بھی توجہ دینی چاہئے کیونکہ انہوں نے نثر میں بھی بہت خوبصورت اور سوچنے والی باتیں تحریر کی ہیں مگر لوگ صرف ان کی شاعری کو پڑھ رہے ہیں، جون ایلیا ایک عالم اور فلسفی تھے وہ کئی زبانیں جانتے تھے، وہ ایک مفکر بھی تھے، ان کی نثر نگاری میں چند مختصر تحریریں تو ایسی ہیں جو ہم سب کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ”سمندر کے کنارے تجارت فروغ پاتی ہے اور دریا کے کنارے تہذیب“ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ”جہالیت کو ہمارے سماج میں جتنی رعایت دی گئی ہے شاید اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی“، شکیل عادل زادہ نے مزید کہاکہ جون ایلیا کے بارے میں ایک یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ وہ ابتدائی عمر میں نعتیں لکھا کرتا تھے، وہ غزل کی آبرو تھے اور نظمیں بھی کمال کی تھیں، اقبال حیدر نے کہاکہ میری جون ایلیا سے ملاقات 1991ءمیں ہوئی تھی وہ ایک بھرپور ادبی اور فکری شخصیت تھے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اولاً ان کی شخصیت فکری تھی اس کے بعد وہ اخلاقی شخصیت بھی تھے۔ انہوں نے کہاکہ وہ بہت جلدی خفا ہوجایا کرتے تھے مگر اس سے کہیں زیادہ جلدی مان بھی جایا کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میر تقی میر کے اسلوب کا نمائندہ شاعر جون ایلیا ہے۔ جون ایلیا تک پہنچے اور انہیں سمجھنے کے لئے کھلے ذہن کی ضرورت ہے، جون ایلیا نے جن لوگوں کی تربیت کی ان پر جون ایلیا کا بڑا احسان ہے، جون ایلیا انسانی رویوں کے بہت بڑے آدمی تھے۔ شاہد رسام نے کہاکہ یہ ہماری بدقسمتی ہے ہم جون ایلیا کی سنجیدہ زندگی اور سنجیدہ پہلوﺅں کو نظر انداز کرتے ہیں ان کی باتوں کو تفنن کے طور پر لیتے ہیں، جون ایلیا ایک بڑے فلسفی اور عالم تھے ، انہوں نے کہاکہ میں نے بہت کم عمری میں بڑے لوگوں کے ساتھ نشست رکھی ہے اور ان کی جوتیاں سیدھی کی ہیں بڑے لوگوں کا کمال یہ ہے کہ وہ جو دکھتے ہیں وہ ہوتے نہیں اور وہ جو ہوتے ہیں وہ دکھتے نہیں، انہوں نے کہاکہ جون ایلیا سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے ان کی ذات کے کئی رنگ ہیں جون ایلیا کا کینوس بہت وسیع ہے، عباس نقوی نے کہاکہ جون ایلیا بہت اچھے پرفارمر تھے ان کو سب پتہ ہوتا تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں وہ دانستہ بے نیازی برتنے والے اور بہت بڑے دل کے مالک تھے۔ انیق احمد نے کہاکہ جو شخص جون ایلیا کی خدمت کرتا تھا وہ جون ایلیا کے نزدیک دنیا کا سب سے اہم آدمی تھا لہٰذا خدمت کرنے والا اس بات پر خوش ہوتا تھا کہ وہ دُنیا کا اہم ترین شخص بن گیا انہوں نے کہاکہ جس سال جون ایلیا کا انتقال ہوا اسی سال میرے والد کا بھی انتقال ہوا لہٰذا جون ایلیا کے انتقال کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرے ایک سال میں دو مرتبہ یتیم ہوگیا ہوں، اس موقع پر یوسف بشیر قریشی نے جون ایلیا کے اشعار کو خوبصورت انداز میں پڑھا اور سامعین سے داد وصول کی۔

خبر….نمبر2

کراچی (   ) ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی اور تسلسل کے ساتھ ہونے والی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس 2018ءکے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے آئے ہوئے نامور ادیب و نقاد شمیم حنفی نے اپنے مقالے میں کہاکہ ہم سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ ہم جدیدیت کی روح کو سمجھے بغیر جدید ہوگئے ہیں مگر فکری سطح پر یہ سودا سود مند ثابت نہیں ہوا بلکہ ہمیں اس سے فکری نقصان پہنچا ہے۔ادیب اور فنکار وہی کچھ پیش کررہے ہیں جو معاشرے میں انہیں نظر آرہا ہے، ہمارے آج کے مسئلے گزشتہ آنے والے کل کے مسائل حل نہیں کرسکتے، آج کے مسئلوں کا حل بھی آج ہی کے پاس ہونا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ ادب کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے ہمارے تخلیقی احساسات اسی بیچ سے پھوٹتے ہیں مگراب ادبی اور ثقافتی معاشرہ فکری بصیرت سے عاری ہوتا جارہا ہے۔ زمین کو ہمارے لئے دُنیا بنایا گیا تھا مگر ہم زمین اور دُنیا کے تعلق کو بھولتے جارہے ہیں،انہوں نے کہاکہ ہم خود ہی اپنے معمار بھی ہیں اور خود ہی کو منہدم کرنے والے بھی، ہماری اجتماعی یادداشت اور بصیرت کی آزادی سب کچھ داﺅ پر لگی ہوئی ہے، گزشتہ بیسویں صدی کے خوابوں کو اگر ہم خاطر میں نہیں لائیں گے تو یہ ہماری غلطی ہوگی یہ بوجھ ہمیں ہی اُٹھانا ہے کیونکہ ناتواں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ناصر عباس نیر نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ احمد شاہ کی سربراہی میں ادب و ثقافت پاکستانی کلینڈر کا اہم حصہ بن چکا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ادب تمام قرینوں میں پہلا قرینہ ہے، انہوں نے کہاکہ ہمارا عہد کتاب سوزی سے شروع ہوکر آدم سوزی تک جا پہنچا ہے پہلے کبھی کتاب میں کچھ غلط لکھ دیا جاتا تو اسے جلادیا جاتا تھا اور اب اگر کوئی انسان غلط بول دے تو اُسے جلادیا جاتا ہے اسی لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا عہد کتاب سوزی سے شروع ہوکر آدم سوزی پر آکر ختم ہورہا ہے، انہوں نے کہاکہ سوال اٹھانا محال ہوتا جارہا ہے جبکہ مسیحاﺅں کے انتظار میں ہمارے دن رات کٹتے جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ جہاں واقعات کو دبا دیا جاتا ہے تو وہاں وہ عفریت کی صورت اختیار کرجاتے ہیں اور ہمارا پیچھا بھی کرتے ہیں ہم پہلے عفریت خود پیداکرتے ہیں اور پھر اُسے کئی نسلوں کا خون پلاتے ہیں انہوں نے کہاکہ ایک ادیب اور فنکار ہی عفریت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ ادیب، فنکار اوردانشور سماجی اور تخیل دونوں دُنیا میں رہتا ہے۔قبل ازیں عالمی اُردو کانفرنس کے حوالے سے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے نویں اور دسویں عالمی اُردو کانفرنس میں پڑھے گئے مقالوں پر مرتب کتب کی رونمائی بھی کی گئی۔افتتاحی اجلاس میں مجلس صدارت کے اراکین میں بھارت سے آئی ہوئی نور ظہیر، جرمنی سے آئے ہوئے عارف نقوی سمیت مستنصر حسین تارڑ، اسد محمد خاں، افتخار عارف، رضا علی عابدی، پیرزادہ قاسم، مسعود اشعر، امینہ سید اور دیگر شامل تھے۔ افتتاحی اجلاس میں دُنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین سمیت شہر کی ممتاز سماجی شخصیات نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔اس موقع پر سیکریٹری آرٹس کونسل کراچی پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے اظہارِ تشکر کیا۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت ہما میر نے انجام دی۔

Karachi: The 11th International Urdu Conference was inaugurated at the Arts Council of Pakistan, Karachi on Thursday with many writers, poets,and intellectuals from within and outside Pakistan gracing the occasion.The stage could barely contain the constellation of literary giants seated in a long queue. Chief Minister Sindh Syed Murad Ali Shah was the chief guest of the inaugurated ceremony of 11th international Urdu Conference along with Commissioner Karachi. Among the luminaries included Asad Muhammad Khan, Iftikhar Arif,Mustansar Hussain Tarrar, Shamim Hanafi from India, Raza Ali Abdi from UK, Pirzada Qasim, Ejaz Ahmed Farooqi, Talat Hussain, ArifNaqvi, Masood Ashar, Athar Waqar, Ameena Syed,and Noor Zaheer.

This year marks the completion of an11th year of the conference for Urdu which has been hosted by the Arts Council of Pakistan, Karachi annually since 2008. The council’s president Ahmed Shah thanked all the participants and writers who contributed to the conference in the past and made sure that it continued as a literary tradition of the city. He especially thanked CM Sindh Syed Murad Ali Shah for his contribution with Arts Council of Pakistan.Ahmed Shah, in his welcome address,said that Karachi is made with the people not only migrated from India but from Pakistan as well.Arts Council kept silence for one minute for the renown poet, writer and human right activist Fahmida Riaz who passed away yesterday at Lahore, Fahmida Riaz was expected to join 11th international Urdu Conference.

On the day one of the International Urdu ConferenceNasir Abbas Nayer presented his Research Paper on the current situation of Urdu, he said that the current situation for the writers, poets and the progressive people is the one of the most strict time of the history, Recently we have seen a great blockage by a group of people and no one can dare to speak against them. He talked about the contradiction in the Pakistani society about the social and progressive issues. Renown critic and write from India Shamim Hanfi presented his Paper on the “meaning of Urdu Literature in the 21 Century”. He talked about the progress in Urdu literature in the 20th century. He said that before moving ahead we must dig out the Urdu in the prior century in the sub-continent. In his keynote speech, Hanfi elucidated on the need for literature in the 21st century. He regretted the decline in social and cultural values in the modern world which, he thought, was a result of general skepticism.Meanwhile, a book launching ceremony on the 9th and 10th international conferences held at Arts Council Auditorium by CM Sindh Murad Ali Shah. These books were written on the past two conferences including the papers and content from the conferences.

Chief Minister Sindh Syed Murad Ali Shah speaking on the occasion said that on the first hand the sub-continent was separated while literary activities and conferences have played their part to integrate the people. He paid tribute to the renown Poetess, writer,and human right activist Fahmida Riaz for his lifelong struggle and particularly for her resistance against the dictatorship in Pakistan. He appreciated the president Arts Council Muhammad Ahmed Shah and his team for the 11th successful International Urdu Conference while speaking about Karachi he said that we have faced a long time of isolation but now Sindh Government is dominating Karachi and Karachi is progressing and it will prosper more. He assured to the Arts Council for every kind of help from Sindh government. While talking about literature and art he said that Art, literature and every kind of creativity is essential for all kind of social and cultural development for every society and our thinkers and scholars playing their part greatly. He thanked the scholars, writers and renown intellectuals from the different countries of the world for attending the 11th international Urdu Conference. At the end of the session, Secretary Arts Council Ejaz Farooqi thanked the intellectuals around the globe for joining Urdu Conference.

خبر….نمبر1

کراچی (    ) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ دُنیا بھر میں کراچی اُردو بولنے والوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شہر پورے پاکستان کو جوڑتا ہے اس لئے ہم کراچی کو منی پاکستان کہتے ہیں۔ تسلسل کے ساتھ گیارہ عالمی اُردو کانفرنسوں کے انعقاد پر احمد شاہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ قومیں اپنے ادیبوں اور فن کاروں سے پہچانی جاتی ہیں جب تک ہمارے ادیب و فن کار زندہ ہیں وہ اپنے کام سے ملک کا نام روشن کرتے رہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ آج کراچی میں دُنیا بھر کے مندوبین جمع ہوئے ہیں صاحب علم و دانشوروں کا ہمارے شہر میں آنا نیک شگون ہے۔ آرٹس کونسل اپنی ان سرگرمیوں کو جاری رکھے تو اس کی مزید مالی مدد کی جائے گی۔ اس ملک کے بہت مسائل ہیں تاہم ملک بھر کے لوگ امن کے ساتھ رہتے ہیں فرقہ پرستی کی بات کرنے والوں نے اس شہر کو لاشوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اب اس شہر کے عوام نے ایسے لوگوں کو مسترد کردیا ہے۔ آنے والا کل ہم سب کے لئے تابناک ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اس شہر کے بسنے والے پورے ملک کو چلاتے ہیں اس کے رنگ و روشنیوں کو بحال کریں گے۔ میں کراچی میں پیدا ہوا اور ساری تعلیم کراچی کی ہے۔ اس شہر میں کافی ہولناک دور شروع ہوا۔ 28، 30 سال کی بہت دردناک تاریخ ہے۔ انہوں نے کہاکہ کراچی کو ہم نے اون کیا ہے۔کراچی کی آبادی جتنی زیادہ ہے اتنے ہی زیادہ مسائل ہیں ہماری کوشش سے کچھ بہتری ہوئی ہے مگر ہم نے اور آگے جانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ شارعِ فیصل کو ذوالفقار علی بھٹو نے تعمیر کیا تھا اب ہم نے اس کی تعمیر نو کی ہے۔ کراچی کے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہم کوشش کررہے ہیں اس حوالے سے وفاقی حکومت سے مدد کی درخواست ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت سندھ ہر قسم کی مدد کرنے کے لئے آرٹس کونسل کواپنی سرگرمیاں اور تیز کرنا ہوں گی، ادیب شاعر اور فنکار ہماری مدد کریں۔اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ اُردو بولنے والوں کی اصل شناخت ان کا ادب ہے جس میں تعلیم نہ ہو وہ سب ولگر اور بے کار ہیں ہندوستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں سے یہ شہر آباد ہوا، پہلی عالمی اُردو کانفرنس کے موقع پر اس وقت اس شہر میں ہنگامے ہورہے تھے مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری اور اس کانفرنس کو پایہ ¿ تکمیل تک پہنچایا اس موقع پر فوج اور پولیس کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے شہر کی رونقیں بحال کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ معاشرے میں ادیب اتنا ہی اہم ہے جتنا کوئی اور ہوسکتا ہے، سوسائٹیاں ان کے ادیبوں، شاعروں کے ناموں سے پہچانی جاتی ہیں۔ ماضی میں آرٹس کونسل کے ادارے کو ملنے والی سالانہ امداد 50لاکھ سے بڑھ کر 10کروڑ روپے ہوگئی ہے جس پر ہم سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے شکر گزار ہیں۔تقریب میں ملک کی معروف ادیب اور شاعرہ فہمیدہ ریاض کے سوگ میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ آرٹس کونسل جلد ہی اس نامور ادیبہ اور جمہوری حقوق کی ممتاز شخصیت کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد کرے میں خود اس میں شرکت کروں گا۔